سفر تمام ہوا تو خبر ملی کہ لاہور منزل نہیں، پڑاؤ ہے۔ یہ سفرِ انقلاب ہے جس کو جاری رہنا ہے۔ چار دنوں کی یہ مسافت زادِ راہ جمع کرنے کے لیے تھی۔ سیاست کا زادِ راہ عوام کی تائید کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
چار روزہ سفر تدریجی مراحل سے گزرا۔ افراد کی تعداد اور جذبات کا وفور بڑھتا گیا۔ لاہور کا اجتماع تاریخ ساز تھا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ 1986ء کے بعد پاکستان میں اتنا بڑا سیاسی اجتماع نہیں ہوا۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو جب پاکستان واپس لوٹی تھیں‘ تو لاہور نے اسی طرح ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ تیس سال بعد بھی ایک بار پھر ایسا منظر دکھائی دیا۔ سفر تمام ہوا مگر ختم ہوتے ہوتے اہلِ سیاست و اہلِ صحافت کی دیانت کے لیے آزمائش بن گیا۔ ان چاد دنوں میں یہ بھی طے ہو گیا کہ ہماری سیاست میں اس وقت اصل فریق کون ہیں؟ یہی نہیں، اب سیاست کا ایجنڈا بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ ایجنڈا اب وہی ہو گا جس کا اعلان نواز شریف صاحب کریں گے۔ اب سیاست اس کی حمایت یا مخالفت ہی کے گرد گھومے گی۔
نواز شریف صاحب کا تصورِ انقلاب کیا ہے؟ وہ معروف معنوں میں کوئی انقلابی لیڈر نہیں۔ یوں بھی انقلاب کا وہ تصور متروک ہو چکا جس نے دورِ جدید میں اشتراکیت کی کوکھ سے جنم لیا اور پھر اہلِ اسلام کے ایک طبقے میں بھی ایک مذہبی پیرہن کے ساتھ مقبول ہو گیا۔ اس کے ساتھ میاں صاحب کی نفسیاتی ساخت اس تصورِ انقلاب کے لیے زیادہ موزوں نہیں۔ ان کی گفتگو سے بھی واضح ہے کہ وہ آنے والے دنوں کی اپنی سیاسی جدوجہد ہی کو انقلابی قرار دے رہے ہیں۔ یہ انقلابی لائحہ عمل کے اعتبار سے نہیں، نفسِ مضمون کے حوالے سے ہے۔
نفسِ مضمون کیا کہہ رہا ہے؟ اس نے ایک مربوط مضمون کی صورت میں ابھی سامنے آنا ہے‘ تاہم میاں صاحب کی تقاریر سے اس کے خد و خال واضح ہو رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجود سیاسی نظام عوام کا منتخب وزیر اعظم کو بے توقیر بناتا ہے۔ اس کے اسباب میں کچھ کا تعلق موجود قوانین سے ہے‘ کچھ کا رویّوں سے۔ سوال اب یہ ہے کہ قوانین میں ترامیم ممکن ہیں مگر رویے کیسے بدلیں گے؟ اگر کوئی فرد یا ادارہ اپنی قانونی حدود سے بے پروا ہو جائے اور اس کے ہاتھ میں طاقت بھی ہو تو کوئی اس کا کیا بگاڑ لے گا؟ ماضی میں یہ قوم کسی کا کیا بگاڑ سکی؟
آئینی سطح پر یہ ممکن ہے کہ دفعہ 62, 63 کے خاتمے کی بات کی جائے یا وزیر اعظم کے حوالے سے عدالتوں کے اختیارات کے باب میں کوئی قدغن تجویز کی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عسکری اداروں کے نظامِ احتساب میں ترمیم کی بات کی جائے، جیسے انہیں پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنا دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آ ئین کی دفعہ 6 کسی کا ہاتھ نہیں روک سکی تو نیا قانون کیا کر لے گا؟ یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک سیاست دان کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ نواز شریف کے خلاف دفعہ چھ لگائی جائے۔ اس فضا میں نیا قانون کیا کر لے گا؟ اب آئیے رویوں کی طرف۔ رویے کسی قانون کے پابند نہیں ہوتے۔ اگر کوئی اپنے منصب کا احترام نہ کرے اور اپنی حدود سے تجاوزکا مرتکب ہو تو اسے روکنا ممکن نہیں، اگر معاشرے کا نظامِ اقدار مضبوط نہ ہو۔
اس پس منظر میں مجھے میاں صاحب کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر یہ جاننا مشکل ہے کہ اس کے لیے ممکنہ لائحہ عمل کیا ہے؟ میں جب اس سوال پر غور کرتا ہوں تو میں خود کو ایک بند گلی میں دیکھتا ہوں۔ میاں صاحب بتا چکے کہ یہ سماجی معاہدے کا مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک سماجی سطح پر اتفاقِ رائے وجود میں نہیں آتا، اس مقدمے کی بنیاد پر نیا پاکستان وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس کا پہلا مرحلہ سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ سب جماعتیں اپنے مفادات کی اسیر ہیں۔ اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ تحریکِ انصاف ن لیگ کا ساتھ دے۔ بلاول بھٹو بھی کہہ چکے کہ میاں صاحب سے بات خارج از امکان ہے۔ اس صورت حال میں میاں صاحب کے پاس کیا راستہ باقی ہے؟
پہلے مرحلے میں وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ دوسرے مرحلے میں ان کو اپنا لائحہ عمل سامنے رکھنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں انہیں عوام کو اس لائحہ عمل پر اپنا ہم نوا بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ان سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ہے جو ان کی ہم نوا ہیں۔ اس کے لیے میڈیا کی سطح پر ایک بحث کا آغاز کرنا ہے۔ سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ یہ ایک لمبا سفر ہے۔ ان کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ 'ووٹ کی حرمت‘ کو 2018ء کے انتخابات کا اصل ایجنڈا بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ کیا وہ عوامی بیداری کی ایک تحریک اٹھا سکیں گے؟
میرا احساس ہے کہ اس مرحلے پر نواز شریف صاحب کو چیئرمین سینیٹ کی طرف سے حمایت کی صورت میں ایک نعمتِ غیر مترقبہ مل گئی ہے۔ اس باب میں وہ میاں صاحب کے ہم خیال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف صاحب نے چیئرمین سینیٹ کی رائے کی تائید کر دی ہے‘ مگر پیپلز پارٹی اس کے لیے سرِ دست آمادہ نہیں۔ اگر میاں صاحب اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ایک قومی مکالمے کا آغاز ہو سکتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ یہ مکالمہ اسی وقت نتیجہ خیز ہو گا‘ جب ریاست کے دوسرے ادارے‘ بالخصوص فوج‘ اس مکالمے کا حصہ بنیں گے۔ رضا ربانی صاحب یہی تجویز کر رہے ہیں‘ تاہم اس سارے عمل میں مجھے ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دے رہی ہے۔ یہ انتہا پسندانہ سیاست ہے‘ جس کا علم عمران خان نے تھام رکھا ہے اور شیخ رشید اس میں ان کے ہم نوا ہیں۔ وہ نواز شریف صاحب کو سیاست سے مکمل باہر کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں انہیں غالباًکچھ غیر سیاسی عناصر کی تائید بھی مل گئی ہے‘ جو یہی خواہش رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب کو اس ریلی کے بعد اندازہ ہو گیا ہے کہ نواز شریف صاحب کو مکھن سے بال کی طرح نکالنا مشکل ہے۔ اسی لیے اب وہ نظام کے لپٹ جانے کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔
نظام کو لپیٹنے سے بچایا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے اہل سیاست کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ نواز شریف صاحب جو بات کہہ رہے ہیں اس کا فائدہ ان سے زیادہ دوسروں کو پہنچے گا‘ جو اب ان کے بعد آئیں گے۔ ایک مستحکم سیاسی نظام کی صرف وہی صورت ممکن ہے‘ جو نواز شریف تجویز کر رہے ہیں۔ لوگ گروہی مفاد میں سوچیں تو بھی ان کی تائید کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اس وقت دکھائی یہی دیتا ہے کہ نواز شریف اس وقت سفرِ انقلاب کے تنہا مسافر ہیں۔ عوام ان سے محبت کرتے ہیں۔ اگر وہ ان تک اپنی بات کا موثر ابلاغ کر سکے تو 2018ء کے انتخابات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو وہ اس وقت تجویز کر رہے ہیں۔ اگر اہلِ سیاست نے ان کا ساتھ نہ دیا تو اس بات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ ن لیگ اگلے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے۔ کرپشن کارڈ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں شاید زیادہ موثر ثابت نہ ہو۔ 28 جولائی اس کا کلائمیکس تھا۔ شریف مخالفین نے اپنی عجلت پسندی کے سبب یہ کارڈ پہلے کھیل دیا۔
اس وقت نواز شریف کو اپنے موقف کی تائید میں رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے۔ انہیں اس کے لیے میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کو استعمال کرنا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان کے تصورِ انقلاب میں فساد اور تصادم کا گزر نہیں ہو گا۔ اس ملک کو اب مکالمے اور جمہوریت ہی سے آگے بڑھنا ہے۔