جوش کا اظہار ہو چکا۔نوازشریف صاحب کے لیے اب اگلا مرحلہ ہوش کی آزمائش کا ہے۔
ن لیگ بدستور ایک مخمصے کی گرفت میں ہے۔وہ سازش کا ذکر کرتی ہے مگر ذمہ داران کا نام نہیں لے سکتی۔شاید کبھی نہ لے سکے۔ووٹ کے تقدس کا سوال جب بھی اٹھے گا ،لازم ہے کہ ان کی بات ہو جن کے ہاتھوں ،نوازشریف کے خیال میں، ووٹ کی عفت محفوظ نہیں۔'ان‘ کا ذکر بین السطور ہی رہے گا۔کیا ن لیگ میں یہ ابلاغی صلاحیت مو جود ہے کہ وہ اپنا مقدمہ بین السطور بیان کر سکے؟ یہی نہیں،کیا اس کے پاس وہ سیاسی بصیرت مو جود ہے جو آنے والے دنوں میں اسے قابلِ فہم اور قابلِ قبول سیاسی پروگرام دے سکے؟
قوم جان چکی کہ اس معرکے میں اصل فریق کون ہیں؟سوشل میڈیا نے سب کچھ اگل دیا ہے۔جو بات اخبارکے صفحے پرلکھی یاٹی وی کے پردے پر کہی نہیں جا سکتی، وہ سوشل میڈیا پرلوگ لکھ بھی رہے ہیں اور کہہ بھی رہے ہیں۔پھر عقلِ سلیم بھی ابھی سماج سے رخصت نہیں ہوئی۔دیہات میں بسنے والا، جو سوشل میڈیا جیسی جدید ایجادات سے دور ہے،یہ جانتا ہے کہ اس ملک میں اقتدار کی کشمکش میں اصل فریق کون ہیں۔ن لیگ کا امتحان اب یہ ہے کہ وہ قوم کو ایسا لائحہ عمل دے جس میں مسئلے کا حل بیان ہو۔یوں مسئلہ خود بخود نمایاں ہو تارہے گا۔اسے عام آدمی کویہ سمجھانا ہے کہ ووٹ کے تقدس کا اس کے مسائل سے براہ راست کیا تعلق ہے؟اس کے لیے ایک پروگرام ہی اہم نہیں،اس کا موثرابلاغ بھی ضروری ہے۔
کیا مسلم لیگ کے پاس وہ فکری سرمایہ(intellectual capital) مو جود ہے جو ایک نئے پروگرم کی صورت گری کر سکے؟سیاست کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے ,میں ن لیگ میں اس نام کی کسی شے سے واقف نہیں۔اس کا کوئی ایک مظہرآج تک سامنے نہیں آ سکا۔فریقِ ثانی کے پاس ایک نہیں کئی تھنک ٹینکس ہیں۔وہ مصروفِ عمل ہیں۔انہوں نے ایک ایک پہلو سے تیاری کر رکھی ہیں۔ان کے پاس ایسے نظائرہیں جو اہلِ سیاست کو بے توقیر کر سکیں۔وہ جانتے ہیں کہ مذہب کو کیسے اور کب استعمال کیا جا سکتا ہے؟ انہیں خبر ہے کہ کب 'قومی مفاد‘ کی بنیاد پر اہلِ سیاست کو مشکوک ثابت کرنا ہے۔سکھوں کی فہرستوں سے لے کر بھارتی تاجروں سے اہلِ سیاست کے تعلقات تک، بہت سی کہانیاں ہیں جو سنائی اور بتائی جاسکتی ہیں۔ہیرو سازی اور تاریخ کی ایک تعبیر اس حکمتِ عملی کی پشت پر کھڑی ہے۔
اس کے مقابلے میں ن لیگ کا فکری سرمایہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ کسی ادارے کے بارے میںکوئی منفی بات نہیں کہہ سکتی۔اہلِ سیاست کی مجبوری یہ ہے کہ کوئی ان کولاکھ برا بھلا کہے ، وہ جواباً کچھ نہیں کہہ سکتے۔اس لیے ن لیگ کو اپنا مقدمہ مثبت انداز میں پیش کر نا ہے۔اسے بتانا ہے کہ ووٹ کا تقدس کیا ہوتا ہے اور اسے محفوظ بناکر کیسے نظامِ سیاست کی تطہیر کی جا سکتی ہے؟اسے بتانا ہے کہ دنیا آج کیوں اس پر اجماع کر چکی کہ عوام ہی کو اپنا مقدر سنوانے کا حق ملنا چاہیے۔اس کے ساتھ ن لیگ کو اس کا بھی ابلاغ کرنا ہے کہ چار سالوں میں اس نے عام آدمی کو کیا دیا؟اس کے مسائل میں کتنی کمی آئی؟اوریہ کہ وہ تصادم کی نہیں،اصلاح کی بات کررہی ہے۔
کیا ن لیگ اس مقدمے کے ابلاغ کی صلاحیت رکھتی ہے؟ن لیگ کی ابلاغی صلاحیت قابلِ رشک نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں کوئی میڈیا سیل تھا۔بطور کالم نگار میں نے تو کبھی اس کی صورت نہیں دیکھی۔ان چار سالوں میں کسی حکومتی کارندے یا کسی لیگی راہنما کاکبھی کوئی ایک فون یا ایک برقی خط تعریف کا آیا‘ نہ تنقید کا۔بعض جماعتوں کے میڈیا سیل موجود ہیں۔وہ حسبِ توفیق عزت افزائی کرتے رہتے ہیں۔'تکبیرِ مسلسل‘ کا جس 'تبخیرِمسلسل ‘کے ساتھ تعاقب ہوا،وہ میں ہی جانتا ہوں۔یہ البتہ سنا تھا کہ ٹی وی پر ن لیگ کے جو سب سے 'قادرالکلام‘ وکلا دکھائی دیتے ہیں،ان کا انتخاب یہی میڈیا سیل کرتا تھا۔واللہ اعلم۔
ایک سیاسی جماعت کو بہت سے شعبوں میں ماہرین کی ضرورت ہو تی ہے۔اہلِ دانش ،جو دماغ کا کام کرتے ہیں۔سیاسی کارکن، جنہیں اعضائے رئیسہ کہنا چاہیے،جن پر جماعت کی قوت کا انحصارہے۔ماہرینِ ابلاغیات جو دست وبازو ہیں،عوام تک اس پروگرام کو بہتر طور پر پہنچے کی ذمہ داری ان پرہے۔ایک دور میں مسلم لیگ کی ابلاغی صلاحیت کا شہرہ تھا جب مشاہد حسین سید اور خلیل ملک مرحوم جیسے لوگ میڈیا پالیسی کے خالق تھے۔آج ن لیگ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اتنے سالوں میں ایک ڈھنگ کا ترانہ نہیں بنا سکی۔نوازشریف صاحب کا سفر ن لیگ کے لیے ایک تاریخی واقعہ تھا۔ ان کی تیاری کا عالم یہ تھا کہ 2013ء کے انتخابی نعروں سے کام چلا یا جا رہا تھا۔کیا ن لیگ کی قیادت یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ یہ شیر پر مہریں لگانے کا موقع نہیں تھا؟انتخابی ترانے بھی ایسے کہ تخلیقیت اور تاثر سے خالی۔ایک ترانا تو ایک ایسی آواز میں ہے جسے ماضی کا قصہ بنے کئی سال ہو چکے۔
آج ن لیگ کو ترکی کا ماڈل سامنے رکھنا چاہیے۔طیب اردوان کو درپیش چیلنج،جوہری طور پر نوازشریف سے مختلف نہیں تھا۔ اردوان نے دوکام کیے۔ایک تو وہ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ترکی کے استحکام کا دوسرا نام اردوان ہے۔ظاہر ہے کہ اس کے پس منظر میں گڈ گورننس کا ایک ماڈل اور تاریخ ہے۔دوسرا یہ کہ وہاں کی سیاسی جماعتوں نے بہتر سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا۔نواز شریف صاحب کو اردوان کے مقابلے میں بہتر حالات میسر ہیں۔انہیں کسی کھلی فوجی بغاوت کا سامنانہیں۔ان کے پاس یہ موقع بھی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو اپنا ہم نوا بناسکتے ہیں۔
نوازشریف صاحب کو اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھنا ہے اوراس کے ساتھ اداروں میں تصادم کو بھی روکنا ہے۔ان کو عوام پر دوباتیں واضح کرنی ہیں۔ایک یہ کہ ووٹ کے تقدس ہی سے استحکام اور عوامی مسائل کا حل نکلے گا۔دوسرا یہ کہ اس سے مراد اداروں میں تصادم نہیں ہے۔اس مسئلے کا حل آئین کے دائرے میں رہ کرتجویز کیا جائے گا۔اس میں اگر کسی ترمیم کی ضرورت پڑی تو ظاہر ہے کہ یہ کام پارلیمنٹ کر ے گی۔اس کے ساتھ انہوں نے اس معاشی وسیاسی استحکام کو اپنی قوت بنا نا ہے جو ان کے چار سالہ دورِ وزارتِ عظمیٰ میں ملک کو میسر آ یا۔انہوں نے قوم کو یہ بھی بتا نا ہے کہ ان کی شخصیت ارتقا سے گزری ہے اورمستقبل میں ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں ہو گا۔
نوازشریف صاحب نے ایک مشکل ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔انہوں نے اپنی ریلی سے عوام تک اپنا یہ پیغام پہنچا دیا کہ ان کے ساتھ ،ان کے بقول انصاف نہیں ہوا۔اب انہیں مظلومیت کے اس خول سے نکل کر ایک مدبر(statesman) کے تعارف کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔انہیں مخالفین پر اپنی اخلاقی اور نظری برتری کو قائم کر نا ہوگا۔اداروں میں تصادم مسئلے کا حل نہیں ہے۔مدبر اسی کو کہتے ہیں جو اپنی ذات سے بلند ہو کر ملک و قوم کے تناظر میں فیصلے کرتا ہے۔
نوازشریف اس وقت قوم کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔وہ واحد شخصیت ہیں جو وفاق کی سب اکائیوں میں اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔وہ ملک میں ترقی اور وحدت کی علامت ہیں۔ریاستی اداروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ جوشِ انتقام میں ایسی شخصیت کو دیوار سے لگانا کسی طرح ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ملک کو تصادم سے بچانا تنہا نوازشریف کی ذمہ داری نہیں۔ریاستی اداروں کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس کر ناہوگا۔کاش میں تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے بھی یہ توقع رکھ سکتا کہ وہ گروہی سیاست سے بالاتر ہو کر قومی تناظرمیں سوچے۔