ماڈل ٹاؤن کا حادثہ آج کی سیاست کا ایک اہم موضوع ہے۔یوں کہنا چاہیے کہ اس کی بنیاد پر سیاست ہو رہی ہے۔انسانی جان اس سے بلاشبہ بہت قیمتی ہے کہ اسے کسی حقیر سیاسی مقصد کی نذر کر دیا جائے۔
اس حادثے میں چودہ افراد کی جان گئی۔بلا شبہ یہ ایک دل خراش واقعہ تھا۔اگرایک انسان کی جان ضائع ہوتی توبھی یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا۔طاہر القادری صاحب یا مقتولین کے ورثا اس مطالبے میں حق بجانب ہیں کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اوریہ جاننا چاہیے کہ یہ حادثہ کیوں ہوا؟یہ محض حادثہ تھا یا کوئی سوچا سمجھا قتل؟ان کا کہنا ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو سامنے لایا جائے اوراس کی روشنی میں مجرموں کو سزا دی جائے۔ تاہم طاہر القادری صاحب صرف یہی نہیں کہہ رہے۔وہ شریف برادران کو قاتل قرار دے رہے ہیں۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں،ایک حادثہ تھا۔ہجوم میں اشتعال تھا اور وہ پولیس کے ساتھ متصادم ہوا جس کے نتیجے میں حادثاتی طور پرانسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ، معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس حکومتی موقف کی تائید نہیں کر تی۔اس لیے حکومت نے اس پر ایک جے آئی ٹی بنائی۔جس کی تحقیق کا نتیجہ اس کے برعکس ہے۔قادری صاحب اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ مجھے لواحقین سے پوری ہمدردی ہے۔میں ان کے دکھ کو محسوس کر سکتا ہوں۔انصاف لیکن سب کا حق ہے۔ان کا بھی جن کی جان گئی اوران کا بھی جن پر الزام ہے۔ میں جب اس حادثے پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس پر یقین نہیں آ تا کہ شریف برادران ایسا جرم کر سکتے ہیں۔میں یہ رائے جن دلائل کی بنیاد پر قائم کر تا ہوں،ان میں سے چندمیں یہاں بیان کر رہا ہوں۔
۱۔اس حادثے کے بعد میں ایک وزیر سے ملا جن کے ساتھ میرے برسوں سے دوستانہ مراسم ہیں۔وہ ایک دین دار آدمی ہیں۔ان کی دیانت پر میں بھروسہ کرتا ہوں۔میرے نزدیک وہ ایک ثقہ راوی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس حادثے کے بعد جومیٹنگ ہوئی ،وہ اس میں شریک تھے۔ نوازشریف صاحب نے اس بارے میںشہبازشریف سے استفسار کیا۔وہ غصے میں تھے۔جواباً شہباز شریف صاحب رو پڑے اور انہوں نے حلفاً کہا کہ یہ واقعہ میرے لیے ایک افسوس ناک خبر تھی۔میں نہیں جانتا یہ کیسے ہوا۔
۲۔ شریف برادران کی ابتدائی سیاسی تاریخ میں، ایسے واقعات تو مذکور ہیں کہ انہوں نے رشوت دے کر لوگوں کی سیاسی وفاداریوں کو خریدا جیسے چھانگا مانگا کا ذکر کیا جا تا ہے۔یہ مگر ان سے منسوب نہیں ہے کہ انہوں نے سیاسی مفادات کے لیے کسی کی جان لی ہو۔ان کی یہ شہرت کبھی نہیں رہی۔اس کے بر خلاف،بھٹو صاحب کی شہرت یہی تھی۔ڈاکٹر نذیر احمداورخواجہ رفیق سمیت، ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ بھٹو صاحب کے سیاسی انتقام کا ایندھن بنے۔احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا الزام بھی ان پر تھا جس میں انہیں موت کی سزدی گئی۔بھٹو صاحب نے ایف ایس ایف کے نام سے ایک متبادل پولیس بنائی جس کا کام ہی سیاسی مخالفین پر تشدد تھا۔راولپنڈی کے لیاقت باغ میں نیشنل عوامی پارٹی کے کارکنوں پراسی فورس کے ہاتھوں گولی چلوائی گئی اور ولی خان یہاں سے لاشیں لے کر گئے۔
اسی طرح کی شہرت نواب آف کالا باغ کی بھی تھی۔۱۹۶۳ء میں کہا جا تا ہے کہ لاہور میںجماعت اسلامی کے جلسے پرانہوں نے حملہ کرایا جس میںجماعت کے ایک کارکن اللہ بخش کی جان چلی گئی۔یہ بھٹو صاحب ہوں یا نواب آف کالا باغ، میرے لیے یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ منسوب واقعات میں وہ ملوث تھے یا نہیں۔تاہم ان کی عمومی شہرت ایسی تھی کہ لوگ ان واقعات کو سچ مانتے تھے۔شریف برادران کی ایسی شہرت کبھی نہیں رہی۔
۳۔چوہدری نثار علی خان صاحب نے کابینہ کے آخری اجلاس میں ،نوازشریف صاحب سے اپنی ناراضی کی وجوہات بیان کیں۔ان میں ایک وجہ یہ تھی کہ عمران خان اور طاہر القادری صاحب نے دھرنے کے موقع پر، جب وعدے کی خلاف ورزی کی اور لوگ ریڈ ایریا میں داخل ہوگئے تو چوہدری صاحب نے ان کے خلاف طاقت استعمال کرنا چاہی مگر نوازشریف صاحب نے انہیں اس سے روک دیا۔گویا نوازشریف اس کے حق میں نہیں تھے کہ مظاہرین کے خلاف جبر کا معاملہ کیا جائے۔
اگرہم کسی اخلاقی سبب کو قبول نہ کریں اور محض سیاسی حوالے سے دیکھیں تواس رویے کی وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے۔اگر اس موقع پر تصادم ہوتا اورکچھ لوگوں کی جان چلی جاتی تو حکومت کاباقی رہنا مشکل ہوجاتا۔جب میڈیا اور عدلیہ آزاد ہوں،جب مخالف سیاسی قوتیں پوری طرح متحرک ہوں اور آپ کی ایک حرکت جان لیوا ہو سکتی ہو توکوئی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وہ تصادم کو آواز دے۔ نوازشریف نے بھی اسی وجہ سے تصادم سے گریز کیا۔یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اسلام آباد میں تصادم سے گریز کیا جائے اور لاہور میں بغیر وجہ کے لوگوں پر گولی چلادی جا ئے۔
۴۔میں ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر یہ جانتا ہوں کہ گزشتہ چار سال میں اسلام آباد اور پنجاب پولیس پرشدید حوصلہ شکنی (Demoralization)کی کیفیت طاری رہی۔ان کو شکایت ہے کہ ان چار برسوں میں پولیس کے جوانوں کوہاتھ پاؤں باندھ کرمشتعل مظاہرین کے سامنے چھوڑ دیا جا تا تھا۔مظاہرین ان کو ماریں،تذلیل کریں،وہ جواباً کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ دھرنے اور اسلام آبادکو لاک ڈاؤن کرنے کی مہمات کے دوران میں، مسلسل ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا۔حکومت اتنی خوف زدہ رہی کہ کہیںکوئی ایک واقعہ ایسا نہ ہو جائے جو اس کی ساکھ کو متاثر کرے۔
۵۔طاہر القادری کی طرف سے مظاہرین کو جس طرح مشتعل کیا جاتا رہا ہے،پوری قوم اس کی گواہ ہے۔یہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنا ہو یا ن لیگ کی حکومت کے خلاف،انہوں نے ہمیشہ کربلا کے استعارے میں گفتگو کی اور حکمرانوں کو یزید کے مثل قرار دیا۔اس تعبیرسے سادہ لوح مسلمانوں کے مذہبی جذبات جس طرح مشتعل ہوتے ہوں گے،اس کا اندازہ کر نا مشکل نہیں۔ پولیس اور حکومتی اداروں کی حیثیت، مظاہرین اور قادری صاحب کی نظر میں یزیدی افواج سے مختلف نہیں تھی۔کیا ایسے مذہبی اور سیاسی راہنما تشدد ابھارنے کے مجرم نہیں؟جب وہ اس طرح مذہبی استعاروں کو استعمال کرتے ہوئے ،لوگوں کو مشتعل کر کے سڑکوں پر لاتے ہیں تو کیا ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی حادثہ خارج از امکان ہے؟
۶۔طاہر القادری شریف خاندان کی نجابت اور حسنِ خلق کی بار ہا گواہی دے چکے۔ان کی ایسی تقاریر کی ویڈیوز عام میسر ہیں۔یہ اس دور کی باتیں ہیں جب شریف خاندان کی سیاست اپنے ابتدائی عہد سے گزر رہی تھی۔اس کے بعد ان میں اخلاقی اور سیاسی دونوں طرح کی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔قادری صاحب کی رائے اچانک اتنی تبدیل کیسے ہوگئی؟ایسے مشفق لوگ اچانک قاتل کیسے بن گئے؟
۷۔قادری صاحب کی سیاست شکوک کی چادرمیں لپٹی ہوئی ہے؟پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنے کا مقصد کیا تھا؟انہیں کس نے عمران خان کا کزن بنوایا؟عمران خان بعد میں کیوں ان سے گریزاں رہنے لگے؟وہ مختلف وقفوں سے پاکستان میںکیا کرنے آتے ہیں؟ان کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے؟وہ کسی نہ کسی بحران کو انگیخت کرنے ہی کیوں آتے ہیں؟ان میں سے کسی سوال کا شافی جواب مو جود نہیں ہے۔
یہ چند اہم دلائل ہیں جن کی بنیاد پرمیں میرا گمان یہ ہے کہ قادری صاحب کو مقتولین کے قصاص سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ اس مہم کا ایک حصہ دکھائی دیتے ہیں جو شریف خاندان کو سیاست سے دیس نکالا دینے کے لیے جاری ہے اور اس کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کواستعمال کیا جا رہاہے۔میرا تاثر یہی ہے کہ شریف خاندان یا خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ سیاسی چالیں تو چل سکتے ہیں لیکن ایسے واقعات میں براہ راست اور دانستہ ملوث نہیںہوسکتے ہیں جن میں انسانوں کی جان جا سکتی ہے ۔واللہ اعلم۔