کیا تاریخ کی مذہبی تعبیر ممکن ہے؟
میرا جواب اثبات میں ہے مگر یہ اپنی تفصیل اور جزئیات میں اس جواب سے مختلف ہے جو اہلِ مذہب بالعموم پیش کرتے ہیں۔
میں تاریخ کو مذہبی حوالے سے دو ادوار میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلا دور سیدنا آدمؑ سے شروع ہوتا اور سیدنا محمدﷺ پر تمام ہوتا ہے۔ دوسرا ختمِ نبوت سے قیامت تک ہے۔ ان دونوں ادوار کے بارے میں مذہبی تصورِ تاریخ مختلف ہے۔ تاریخ کی اس تعبیرکا تعلق مذہب کے بنیادی مقدمے سے ہے۔ مذہب کا اصل مقدمہ یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی آزمائش ہے۔ ایک دن بندوں کو اپنے رب کے حضور میں پیش ہونا اور اس دنیاوی زندگی کے اعمال کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ خالق نے اس کا شعور انسانوں کی فطرت میں رکھ دیا ہے۔ وہ دنیا میں آ کر چونکہ بھول جاتے ہیں، اس لیے عالم کا پروردگار اپنے نبی اور رسول بھیج کر یاددہانی کراتا اور آخرت کے بارے میں انہیں خبردار کرتا ہے۔
مذہب اپنا یہ مقدمہ دلائل کے ساتھ انسانوں کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ اسلوب بدل بدل کر لوگوں کو بتاتا ہے کہ نظمِ کائنات میں ان گنت شواہد ہیں جو اس مقدمے کی تائید کر رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک سلیم الفطرت آدمی جب ان پر غور کرتا ہے تو اس کا مشاہدہ اور تفکر اس صدا سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جو اس کے اندر سے اُٹھتی ہے۔ یوں فطرت اور انفس و آفاق کی گواہیاں اسے ماننے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ اس عالم کا ایک خالق ہے۔ وہی انسان کا بھی خالق ہے۔ دنیا کی اس زندگی کا ایک مقصد ہے۔ آخرت ایک ایسا واقعہ ہے جو اگرچہ ابھی ہونا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس کے گرد و پیش ایسے شواہد جمع کر دیے ہیں کہ اس کے لیے انکار ممکن نہیں رہا۔
آخرت کے حق میں اﷲ تعالیٰ نے جو نشانیاں ظاہرکی ہیں، ان کا سب سے بڑا مظہر رسولوں اور نبیوں کی شخصیات ہیں۔ رسول‘ انبیا میں بھی ممتاز تر ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو مبعوث کرکے اس قیامت کو بارہا ایک محدود سطح پر برپا کر دیا، جس کو اس دنیا کے خاتمے پر ایک عالمگیر واقعہ بننا ہے۔ مذہبی لٹریچر دراصل انبیاء و رسل کی اس تاریخ کا بیان ہے۔ قرآن مجید اﷲ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ انجیل سیدنا مسیحؑ کے انذار کی کہانی ہے۔ تورات اور دیگر صحائف بھی اس تاریخ کو بیان کر رہے ہیں۔ آسمانی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انبیاء آتے رہے، امورِ دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی مداخلت کا ایک اصول رہا ہے۔ یہ ان عمومی اصولوں سے مختلف ہے جن کے تحت وہ اس کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔ یہی نہیں، انسانی معاشروں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنائے ہیں، رسولوں کے دور میں اس نے جب ضروری جانا، ان کو بدل ڈالا۔ ان کا ذکر ہم انبیا و رسل کے معجزات کی صورت میں سنتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ قیامت کے بارے میں انسانوں کی اس جماعت پر حجت قائم ہو جائے جو رسولوں کی براہ راست مخاطب ہے۔ پھر اس نے اپنے صحائف میں اس تاریخ کو محفوظ کر دیا تاکہ وہ لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں جو بعد میں آنے والے ہیں۔
یہ تاریخ کا ایک دور ہے جس کا تعلق انبیا و رسل، دونوں سے ہیں۔ اس میں کچھ باتیں وہ ہیں جو صرف رسولوں کے لیے خاص ہیں۔ مثال کے طور پر بعض انبیا دشمنوں کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے‘ جن کا یہود کے جرائم میں ذکر ہے۔ رسول کے مخالفین کو اللہ تعالیٰ اس کا اختیار نہیں دیتا۔ رسول کا غلبہ ہر صورت میں ہوتا ہے۔
ختمِ نبوت کے بعد امورِ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مداخلت کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب یہ نظامِ کائنات ان اصولوں کے تحت چلنا ہے‘ جنہیں ہم قوانینِ فطرت کہتے ہیں۔ اب اس دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی مداخلت اس طرح نہیں ہوتی جو پیغمبروں کی موجودگی میں تھی۔ مثال کے طور پر بدر کا معرکہ برپا ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتا دیا کہ اس کا انجام کیا ہونا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالت مآبﷺ نے جنگ سے ایک دن پہلے مجاہدین کی صفیں ترتیب دیں۔ پھر آپ میدانِ جنگ میں تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ فلاں کا مقتل ہو گا اور یہاں فلاں کی قتل گاہ ہے۔ ساتھ ہی آپ فرماتے: 'انشااللہ‘۔
قرآن مجید نے بتایا کہ بدر میں لڑنے والے صحابہ کے ساتھ ایک ہزار فرشتے بھی ساتھ لڑ رہے تھے۔ یہ سب اس قانون کے تحت ہے جو رسولوں کے لیے خاص ہے اور جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ میں کیا۔ وہاں بتایا گیا کہ اس کے رسولوں نے غالب رہنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اسی طرح کی بشارت رسول اﷲﷺ کو احد میں دی گئی۔ بتایا گیا کہ تین ہزار فرشتے صحابہ کے ساتھ ہیں اور یہ پانچ ہزار بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ہے وہ شان‘ جس کے ساتھ رسولوں کے لیے اللہ کی نصرت کا ظہور ہوتا ہے۔
ختمِ نبوت کے بعد اب ہم اس قانون کا اطلاق عام لوگوں پر نہیں کر سکتے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے یا ہو گا، وہ عمومی قانونِ فطرت کے تحت ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ نے بعد میں پیش آنے والے بعض واقعات کے بارے میں قرآن مجید میں بتا دیا جیسے یاجوج ماجوج کا ظہور یا رسالت مآبﷺ کی صحیح روایات میں بعض واقعات کا ذکر ہو گیا۔ یہ سب پیش گوئیاں مذہب کے اس بنیادی مقدمے سے متعلق ہیں جس کا تعلق قیامت کے برپا ہونے سے ہے۔ ختمِ نبوت چونکہ ایک طرح سے اعلانِ قیامت بھی ہے۔ اس لیے اب قیامت کا ظہور بہت دور کی بات نہیں۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ وقتاً فوقتاً انسانوں کو متنبہ کرتا رہتا ہے کہ انہیں اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔
تاریخ کی مذہبی تعبیر اسی انذارِ قیامت سے متعلق ہے۔ بائیبل کا اسلوب یہی ہے۔ قرآن مجید بھی اسی کو بیان کرتا ہے۔ رہے روزمرہ کے واقعات جن میں انسان اجتماعی یا انفرادی حیثیت میں شریک ہوتا ہے تو ان کا تعلق اسباب و علل سے ہے۔ کسی کی فتح و شکست اس باب میں پیمانہ نہیں بن سکتی نہ ہی اب پر قرآن سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ بدر میں جس اصول کا اطلاق ہوا، اس کا تعلق عہدِ رسالت سے تھا۔ ختمِ نبوت کے بعد اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ سید احمد شہید کے ساتھیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ صحابہ کے بعد ایسا نیک گروہ پھر مجتمع نہ ہوا۔ ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ غور کیجیے تو اس امت میں زیادہ تر پیدا ہونے والے فتنے وہ ہیں جنہوں نے قرآن و سنت میں انبیا کے باب میں بیان کیے گئے قوانین کا غیر انبیا پر اطلاق کیا۔ کوئی مسیح موعود بن بیٹھا اور کوئی مہدی۔
آ ج مسلمانوں کے گروہ ایک دوسرے سے متحارب ہوتے ہیں اور اپنے موقف کے حق میں مذہبی لٹریچر سے دلیل لاتے ہیں۔ پھر تاریخی واقعات کی قرآن مجید میں آیات کی روشنی میں توجیہہ کرتے ہیں۔ تاریخ کی اس مذہبی تعبیر سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ان واقعات کو عمومی قانونِ قدرت کے تحت سمجھنا ہو گا جن کی روشنی میں قومیں عروج و زوال سے گزرتی ہیں۔ اگر ہم یہ بات مان لیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آج امریکہ کیوں غالب ہے اور کل برطانیہ کے اقتدار کا سورج کیوں غروب نہیں ہوتا تھا۔ پھر یہ سوال بھی ہمیں پریشان نہیں کرے گا کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم مغلوب کیوں ہیں؟
مذہب کا تاریخ سے استدلال انذارِ قیامت کے لیے ہے۔ رہے روزمرہ کے واقعات تو ان کی تفہیم کے لیے ٹوئن بی معاونت کر سکتے ہیں اور سپینگلر بھی۔ ابن خلدون بھی اور پال کینیڈی بھی۔