وزارتِ عظمیٰ کے لیے شاہد خاقان صاحب کا انتخاب ن لیگ کے لیے یقینا اچھا شگون ثابت ہوا ہے۔اگر پارٹی قیادت چاہے تو اس فیصلے کے ثمرات کو آگے بڑھا سکتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پارٹی لیڈر نوازشریف ہی ہیں۔شہباز شریف بھی نہیں۔ شہبازشریف اچھے منتظم ہیں۔لیڈر مگر مختلف اوصاف کا تقاضا کر تا ہے۔خوئے دل نوازی لیڈر کی پہلی صفت ہے۔ لیڈر عصبیت سے بنتا ہے اوروہ نوازشریف ہی کو حاصل ہے۔یہ منصب یاجائیداد نہیں جو جب چاہیں کسی کے نام لکھ دیں۔لوگ جس کوچاہتے ہیں،وہی لیڈر ہوتا ہے۔میدان میں تو بے نظیر بھٹو اورمرتضیٰ بھٹو دونوں اترے تھے مگر عوام نے بے نظیر کا انتخاب کیا۔آج یہی معاملہ ن لیگ کے ساتھ ہے۔ ن لیگ کا غیر متنازعہ لیڈر صرف نوازشریف ہے۔خطے کی نفسیات اور سیاسی حرکیات کا اشارہ یہ ہے کہ ان کی عصبیت ان کی بیٹی کو منتقل ہو رہی ہے۔
باایںہمہ نوازشریف صاحب کی اپنی افتادِ طبع ہے۔ان کی شخصیت کے اپنے اجزائے ترکیبی ہیں۔ گزشتہ چار سال میں ،جو جزو نمایاں تر ہو کر سامنے آیا ہے وہ تساہل ہے۔وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے سرعت کے ساتھ بعض بنیادی فیصلے کیے جن کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔جیسے توانائی کا بحران۔جیسے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ۔ تاہم اس تمام عرصے میں روز مرہ امور کے باب میں تساہل کا غلبہ رہا۔ بے شمار معاملات ان کی توجہ کے پس منتظر ہی رہے۔کئی محکمے اپنے سربراہ کی راہ دیکھتے رہ گئے مگر وزیراعظم ہاؤس نے ان کا تقرر نہیں کیا۔ کئی شخصیات ملنے کی خواہش لیے بیٹھی رہیں مگر بلاوا نہیں آیا۔سیاست میں یہ تاخیر اکثرایسے نتائج مرتب کرتی ہے جو مثبت نہیں ہوتے۔اس سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔گورننس کے بہت سے مسائل اس تساہل سے جنم لیتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی صاحب نے بڑی حد تک اس کا مداوا کر دیا ہے۔ حامی ا ور مخالف، سب مان رہے ہیں کہ وہ ایک متحرک آدمی ہیں۔ ہر میدان میں انہوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلا یا ہے۔ایک مثبت جذبے کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ وہ ان اہداف کو بخوبی حاصل کرلیں گے جن کا ن لیگ نے پچھلے انتخابات میں وعدہ کیا تھا۔ نوازشریف صاحب کے بر خلاف،ان کا ہدف سیاست اور حکومت نہیں، صرف حکومت ہے۔اسی لیے میں اسے ن لیگ کے لیے ایک نیک شگون قرار دیتا ہوں۔ امورِ جہاں بانی ایک ہمہ وقتی وزیر اعظم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ اب پورا ہو گیا۔
اس تجربے سے سیاست کا وہ بنیادی مقدمہ زندہ ہوتاہے کہ حکومتی اور جماعتی منصب الگ ہو نے چاہئیں۔ مسلم لیگ کی تاریخ میں یہ بحث اس وقت بھی اٹھی تھی جب پاکستان بنا اور اس جماعت کو اس قضیے کا سامنا کرنا پڑا۔ قائد اعظم مناصب کی علیحدگی کے حق میں تھے۔ ان جیسے با اصول آ دمی سے یہی توقع کی جا سکتی تھی۔تاہم قیامِ پاکستان کے وقت ہمیں جن غیر معمولی حالات کا سامنا تھا،ان میں بہت سے اختیارات ان کی ذات میں مرتکز ہو گئے۔ان کے بعد چونکہ پاکستان میں ایک صحت مند سیاسی عمل آگے نہیں بڑھا، اس لیے ہمارے ہاں جب کسی سیاسی جماعت کی حکومت بنی تو اس نے یک جائی ہی کو اپنایا۔سوچ یہ تھی کہ اقتدار کے زور پر لوگوں کو جماعتوں سے وابستہ رکھا جا سکتا ہے۔پارٹی عہدہ حکومتی منصب کے مقابلے میں بے وقعت ٹھہرا۔
پاکستان میں جمہوری عمل کی ناکامی کا ایک بڑا سبب سیاسی جماعتوں کی کمزوری ہے۔ صحیح معنوں میں یہاں سیاسی جماعت کی تشکیل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔شخصیات مقبول ہوئیں اور انہوں نے اپنے مداحوں کا ایک کلب بنایا جسے وہ سیاسی جماعت کہتے ہیں۔یہ رویہ قومی سطح سے انتخابی حلقے تک سرایت کر تا چلا گیا۔ہر آ دمی نے اپنے حلقہ انتخاب میں ذاتی وفاداروں کا ایک ہجوم جمع کیا۔وہ اگر مسلم لیگ میں ہے تو ہجوم اس کے نعرے لگا رہا ہے۔وہی صاحب اگر پیپلزپارٹی میں ہیں تو ہجوم اس میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا کہ بھٹو کے نعرے لگانے لگے۔
ن لیگ کو بھی ایک سیاسی جماعت بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔اس میں بھی ذاتی وفادار ی ہی وابستگی کا معیار ٹھہری۔ حکومتی اور سیاسی و جماعتی مناصب کو الگ نہیں کیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت کا فطری ارتقا نہیں ہو سکا۔ آج پارٹی اور پارٹی منصب کا کوئی مقام نہیں۔ وزیر‘ مشیر اہم ہیں۔یہ اگر پارٹی بدل لیں تو خود ان کے حلقہ انتخاب سے ان کے خلاف کوئی ردِعمل سامنے نہیں آتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا حلقۂ اثر ان کے ساتھ پارٹی سے الگ ہو جا تا ہے۔اس کا سب سے زیادہ نقصان اس وقت ہو تا ہے جب پارٹی کسی مشکل کا شکار ہوتی ہے۔قیادت آواز دیتی ہے اور جواب دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کلثوم نواز صاحبہ کواس کاتجربہ ہوا اور خود نوازشریف صاحب کو بھی جب مشرف دور میںانہیں ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔
آج حالات نے خود ہی حکومتی اور سیاسی مناصب کو الگ کر دیا ہے۔ سیاست نوازشریف صاحب کے پاس چلی گئی اور حکومت شاہد خاقان کے پاس۔ اب تک یہ نون لیگ کے لیے نیک شگون ثابت ہوا ہے۔نوازشریف صاحب پوری توجہ کے ساتھ سیاسی معاملات کو دیکھ سکتے ہیں۔ان کو دیوار کے ساتھ لگانی کی جو کوشش ہو رہی ہے،وہ بہتر طور پر اس کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔دوسری طرف خاقان صاحب یک سوئی کے ساتھ حکومتی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت سے ناراض افراد کو اب ایک فورم میسر آ جائے گا جہاں ان کی شکایات کا ازالہ ہو سکے گا۔اب وہ وزیراعظم کے خلاف پارٹی راہنما کے پاس جا سکیں گے۔اگر پارٹی راہنما ہی وزیراعظم ہو تو کس کے پاس جاتے؟
اس تجربے کے بعد ن لیگ کو مناصب کی علیحدگی کو خصوصاً غور وفکر کا مو ضوع بنا نا چا ہیے۔اسے اپنے دستور میں تبدیلی کرتے ہوئے حکومتی اور تنظیمی مناصب کو الگ کر دینا چاہیے۔ شخصی حوالے سے بھی یہ نوازشریف صاحب کے لیے بہتر ہے۔وہ کہہ چکے کہ وزارتِ عظمیٰ اب ان کا مطمح نظر نہیں ہے۔ان کی طبیعت میں پا یا جا نے والا تساہل بھی اس کا تقاضا کر تا ہے کہ انہیں راہنما ہی بننا چاہیے۔اس باب میں دوسری رائے نہیں کہ ان کی مرضی کے بر خلاف کوئی وزیراعظم نہیں بن سکے گا اگر ان کی جماعت انتخابات میں کامیاب ہو تی ہے۔یوں ان کی قائدانہ حیثیت ہمیشہ باقی رہے گی۔
میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں اس بات کو قبول کر نا مشکل ہے۔لوگ اقتدار میں آنے کے لیے سیاست کر تے ہیں۔انہیں یہ قبول نہیں کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہوں اور پھر رضاکارانہ طورپر اس سے الگ رہیں۔اگر سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتیں تو انہیں اندازہ ہو تا کہ ایک قومی جماعت کا راہنما ہو نا وزیراعظم ہونے سے زیادہ اہم منصب ہے۔ تاہم سیاسی کلچر کواگر بلوغت کی طرح بڑھنا ہے تو پھر کسی کو پیش قدمی کرنا ہو گی۔اس کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہو نا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کی ایک صورت یہ ہے کہ حکومتی مناصب پر بیٹھے لوگ پارٹی کے سامنے جواب دہ ہوں۔بھارت میں جمہوری استحکام کی ایک بڑی وجہ ،وہاں کی سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہو نا ہے۔
اس وقت دکھائی یہ دیتا ہے کہ ن لیگ سیاسی اعتبار سے دیگر جماعتوں سے بہتر جگہ پر کھڑی ہے۔ وزیراعظم کی ساری توجہ حکومت پر ہے اور اس سے ن لیگ کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ نوازشریف صاحب اگر اہلیہ کی صحت کے حوالے سے مصروف نہ ہوتے تو ہمہ وقتی سیاست کر سکتے تھے۔اگر ن لیگ مناصب کی علیحدگی کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے تو پھر دوسری سیاسی جماعتوں پربھی دباؤ بڑھے گا ۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں ایک بہتر سیاسی کلچر کی تشکیل میں بھی ایک دوسرے کی حریف بن سکتیں۔