میں بہت سے موضوعات پر لکھنے سے دانستہ گریز کرتا ہوں۔ اسباب متنوع ہیں۔ ان میں سے ایک موضوع 'جماعت اسلامی‘ ہے۔
قومی سیاست کے باب میں جماعت اسلامی میری پہلی محبت ہے۔ میری زندگی کا رومانوی دور شروع ہوا تو جماعت اسلامی کی تاریخ کا رومانوی عہد ختم ہو رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد، اس رومان کی بربادی نے دل گرفتہ کر دیا۔ پھر جو کچھ لکھا، اپنی دانست میں جماعت اسلامی کی بہتری اور خیر خواہی میں لکھا۔ بہت جلد اندازہ ہوا کہ اس سے اصلاح کے امکانات کیا پیدا ہوتے، جماعت کے متعلقین سے ایک دوری پیدا ہونے لگی ہے۔ دوست اجنبی بن گئے ہیں۔
اس کے ساتھ تدریجاً دین کی اُس تعبیر سے بھی اتفاق نہیں رہا‘ جو مولانا مودودی نے پیش کی۔ تاہم اس کے باوصف، یہ خواہش رہی کہ بطور ایک سیاسی قوت جماعت اسلامی کامیاب ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس پختہ ہوا کہ جماعت اسلامی کو مشورہ دینا صدا بصحرا ہے۔ میری لیے اس تنقید کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ کچھ پرانے دوست گنوا دیے جائیں۔ جماعت کی سماعتوں کے لیے وہ نغمہ سمع خراشی کے سوا کچھ نہیں تھا، جو میرے خیال میں ان کے لیے جاں فزا ہونا چاہیے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس کارِ لاحاصل سے گریز ہی بہتر ہے۔
ایک کالم نگار کی مگر یہ مجبوری ہے کہ وہ سیاست میں ابھرنے والے رجحانات اور پیش آنے والے واقعات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ این اے 120 میں ضمنی انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی ایک بار پھر موضوع بنی۔ اس کی ناکامی پر جو کچھ لکھا گیا، اس میں اس بحث کا اہم ترین پہلو نظر انداز ہوا۔ اس کا تعلق محض جماعت اسلامی سے نہیں، ہماری ریاست اور معاشرے سے ہے۔ میری نظر سے کوئی ایسا تجزیہ نہیں گزرا جس میں اس پہلو کو موضوع بنایا گیا ہو۔ اس لیے مجھے بادلِ نخواستہ قلم اٹھانا پڑا ہے۔
سیاسی منظرنامے سے جماعت اسلامی کا غائب ہونا، ریاست اور سماج، دونوںکے لیے نیگ شگون نہیں ہے۔ جماعت کے نہ ہونے سے جو خلا واقع ہو گا، وہ باقی نہیں رہے گا۔ اس کی جگہ ن لیگ یا تحریکِ انصاف نہیں، انتہا پسند مذہبی جماعتیں لیں گی۔ این اے 120 کے نتائج میری اس تشویش کی تصدیق کر رہے ہیں۔ میرا یہ تجزیہ جس دلیل پر کھڑا ہے، وہ میں عرض کیے دیتا ہوں۔
پاکستان کی سیاست میں مذہبی بیانیہ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔ تحریکِ پاکستان میں یہ محض ایک نعرہ تھا۔ مو لانا مودودی اور جماعت اسلامی نے اسے ایک سنجیدہ بیانیے میں ڈھالا۔ اس باب میں مسلم لیگ کا نظری افلاس تاریخ کی مسلمہ حقیقت ہے۔ لے دے کر مولانا محمد اسحاق کی مرتب کردہ ایک مختصر سی کتاب 'اسلام کا سیاسی نظام‘ مسلم لیگ کا کل فکری اثاثہ ہے۔ اس کے پانچ مرتبین میں ایک نام مولانا مودودی کا بھی ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو مسلم لیگ کے پاس کوئی ایسا فکری نظام اور لائحہ عمل موجود نہیں تھا‘ جو جدید مسلم ریاست کے خدوخال واضح کرتا۔ اس کمی کو جماعت اسلامی نے پورا کیا۔
قراردادِ مقاصد سے 1973ء کے آئین اور پھر جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن تک، جماعت اسلامی کی فکری چھاپ ہر دستاویز پر واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس باب میں مسلم لیگ ہی کیا، کسی مذہبی جماعت کے پاس بھی کوئی واضح فکر موجود تھی‘ نہ لائحہ عمل۔ اس وقت جو دیگر مذہبی جماعتیں اسلامی نظام کی بات کرتی ہیں، ان کی اصطلاحیں، زبان، ہر چیز جماعت اسلامی سے مستعار ہے۔ دنیا اس بیانیے کو 'سیاسی اسلام‘ کہتی ہے، جس کا انتساب مولانا مودودی اور سید قطب کے نام ہے۔
سیاسی اسلام کے فکری پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی حکمتِ عملی میں دو باتوں کا اہتمام کیا۔ ایک یہ کہ وہ غلبۂ اسلام کے لیے آئینی اور جمہوری جدوجہد کرے گی۔ دوسرا یہ کہ انقلابی تحریکوں کی طرز پر کوئی خفیہ سرگرمی نہیں کرے گی۔ یوں اس نے پرامن جمہوری انداز میں اپنا سیاسی بیانیہ پیش کیا‘ جو مذہبی تھا۔ ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے قابلِ قدر جدوجہد کی۔ یہ جماعت اسلامی کی کامیابی ہے کہ اس کا بیانیہ اب ہمارے سیاسی منظرنامے کا مستقل بالذات حصہ ہے۔
اس فکری کامیابی کے باوجود، یہ امرِواقعہ ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار کی سیاست میں ناکام ہوئی۔ اس سے مایوسی کا پھیلنا فطری تھا۔ اسی مایوسی نے جماعت اسلامی کے لیے چند سوالات اٹھا دیے: یہ ناکامی آخر کب تک؟ صرف انتخابی اور جمہوری جدوجہد پر اصرار کیوں، جبکہ اس میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں؟ کیا غلبہ اسلام کے لیے کوئی متبادل لائحہ عمل نہیں ہے؟ ان سوالات کا ایک جواب 'اسلامک فرنٹ‘ بھی تھا‘ تاہم اس کا دائرہ انتخابی اور جمہوری جدوجہد ہی تک محدود تھا۔ یہ صرف جماعت اسلامی کے سخت تنظیمی ڈھانچے سے انحراف تھا۔ یہ بھی ناکام ثابت ہوا۔
اسی عرصے میں 'جہادِ افغانستان‘ بھی جاری تھا اور ایران کا انقلاب بھی برپا ہو چکا تھا۔ ان واقعات نے اسلام کے سیاسی غلبہ کے لیے لوگوں کو ایک دوسرا راستہ دکھایا۔ یہ مسلح اور انقلابی جدوجہد کا راستہ تھا۔ نوجوانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مسلم معاشروں کے اندر تبدیلی کے لیے یہ ایک متبادل لائحہ عمل ہے جس کی کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ 'سیاسی اسلامی‘ جدوجہد کو محض جمہوری دائرے میں قید نہیں رکھتا۔ اس میں جوہری طور پر تشدد کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نے القاعدہ اور الہجرہ التکفیر جیسی تنظیموں کو جنم دیا۔ اسی کے نتیجے میں پاکستان بھی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ گیا۔
جماعت اسلامی کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ ناکامی کے باوجود، وہ جمہوری اور انتخابی جدوجہد پر یکسو رہتی۔ اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ابہام کا شکار ہوئی اور اس نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانے کے باوجود انتہا پسند رجحانات کی حمایت شروع کر دی۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے اس کا آغاز کیا اور سید منور حسن نے اسے نقطۂ عروج تک پہنچا دیا۔ سراج الحق صاحب اسے مزید آگے لے گئے۔ جمہوری جدوجہد کے میدان میں اس کی ایک حریف تھی: جمعیت علمائے اسلام۔ انتہا پسندی کے میدان میں بہت سے حریف ہیں۔
سراج الحق صاحب کے دور میں جماعت اسلامی نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ انتہا پسندانہ خیالات کی بنیاد پر انتخابی سیاست کرے۔ یعنی خیالات تو اس کے تحریکِ طالبان اور لبیک تحریک والے ہوں مگر حکمتِ عملی انتخابی۔ سراج الحق صاحب ایک طرف ممتاز قادری کے بیٹے کو گود میں بٹھا کر تصویریں بنواتے اور ان کی تشہیر کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ 'جو حکومت ختم نبوت کے قانون کی حفاظت نہیں کر سکتی، اس کے خلاف بغاوت ہم سب پر فرض ہو چکی ہے‘۔
جماعت اسلامی کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ اگر وہ مذہبی انتہا پسندی کی سیاست کرے گی تو اس میدان میں اس سے بلند آہنگ لوگ موجود ہیں۔ انہوں نے بھی انتخابی سیاست کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یوں اسے تو کچھ نہیں ملے گا البتہ اس کا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جو انتہا پسندی پھیلانے کے مرتکب ہیں۔ جماعت اسلامی پر یہ الزام پہلے سے موجود ہے۔ کیا وہ اپنے طرزِ عمل سے اس کے مزید ثبوت فراہم کرنا چاہتی ہے؟
پاکستان کی سیاست میں مذہبی بیانیہ ایک طاقت ور عامل کے طور پر موجود ہے تاہم مذہب سے محبت کرنے والوں کی اکثریت مذہبی انتہا پسندوں سے بیزار اور یہ خواہش رکھتی ہے کہ سیاست میں ایک اعتدال پسند مذہبی قوت موجود ہو‘ جو تشدد سے ہٹ کر ایسی تعبیرِ دین پر کھڑی ہو جو لوگوں کو ایک پُرامن سماج دے سکے۔ ایسا سماج جس میں وہ مقامی ثقافتی رنگوں کے ساتھ اپنی مذہبی شناخت کو بر قرار رکھ سکیں۔
جماعت اسلامی اگر اس راستے کو اپنائے تو جہاں اس کے احیا کے امکانات پیدا ہو جائیں گے‘ وہاں یہ دین اور معاشرے کی ایک بڑی خدمت بھی ہو گی۔ ایک اعتدال پسند مذہبی سیاسی قوت معاشرے کی ضرورت ہے۔ اس لیے میں انتخابی سیاست میں جماعت اسلامی کی ناکامی اور انتہا پسندی کے راستے پر پیش قدمی کو میں تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔