جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا مقدمہ ایک فرد کا نہیں، ہمارے نظامِ عدل کا مقدمہ ہے۔ یہ اس نظامِ عدل کے ذمہ داران کو سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف اٹھائے جانے والے اعتراضات کو محض ایک فیصلے سے رد کر دیں۔
اہلِ سیاست کے احتساب کا شور اٹھا تو یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ احتساب سیاست دانوں ہی کا کیوں؟ کیا دوسرے اداروں کو احتساب کی ضرورت نہیں؟ اگر دوسرے اداروں میں صادق اور امین افراد نہیں ہوں گے تو کیا ان کی کارکردگی پر اعتماد کیا جا سکے گا؟ یہ سوال بالخصوص عدلیہ کے بارے میں اٹھا جو دوسروں کے بارے میں یہ فیصلہ دیتی ہے کہ کون صادق اور امین ہے اور کون نہیں۔ کہا گیا جو دوسروں کی صداقت اور امانت کا فیصلہ سناتے ہیں، بدرجہ اتم لازم ہے کہ وہ خود صادق اور امین ہوں۔ فوج اور دیگر اداروں کو بھی اسی طرز کے سوالات کا سامنا ہے۔
چند روز پہلے جب احتساب کے ایک نئے قانون کا مسودہ زیرِ بحث تھا تو یہ کہا گیا کہ فوج اور عدلیہ کے احتساب کے لیے بھی قانون سازی ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مسودے میں ایک ترمیم کے ذریعے، اِن اداروں کو بھی زیرِ احتساب لانے کی تجویز پیش کی۔ وزیرِ قانون نے وضاحت کی کہ وہ اس کے محرک نہیں ہیں۔ اب تو شہباز شریف صاحب نے بھی کہہ دیا کہ وہ ایسے قانون کے حق میں نہیں ہیں‘ جو ان اداروں کے احتساب کی بات کرتا ہو۔ دلیل یہ ہے کہ ان اداروں میں احتساب کا ایک داخلی نظام موجود ہے جو فعال اور متحرک ہے۔ اس نظام کی موجودگی میں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں۔
اس دلیل میں وزن ہے۔ تاہم اس کا ایک اور پہلو قابلِ توجہ ہے۔ ان اداروں کے داخلی نظامِ احتساب تک عوام کی رسائی نہیں۔ ان کی کارروائی کبھی لوگوں کے سامنے نہیں آتی۔ اب ہر عمل کی شفافیت مشتبہ ہو جاتی ہے اگر اس کی تفصیلات نظروں سے اوجھل ہیں۔ یہی نہیں، ایک ادارے کے لوگوں کا احتساب اگر خود اسی ادارے کے لوگ کریں گے تو اس بات کا امکان موجود رہے گا کہ 'ادارے کے مفاد‘ میں انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ صحافیوں کے احتساب کا معاملہ اگر اہلِ صحافت پر چھوڑ دیا جائے تو ان کا جھکائو ہم پیشہ لوگوں کی طرف ہو گا۔
یہ بحث ملک میں جاری تھی کہ اسی دوران میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ یہ کونسل منصفوں کے خلاف مقدمات سنتی ہے۔ کونسل کی کارروائی عوامی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جسٹس صدیقی نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ یہ کارروائی کھلے عام ہو۔ ان کا خیال ہے کہ 'سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری 2005ئ‘ خلافِ آئین ہے۔ اس کے لیے وہ آئین کی دفعہ 10/A کا حوالہ دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ درخواست بھی کی تھی کہ جسٹس آصف کھوسہ کو اس مقدمہ سے الگ کیا جائے‘ مگر اس درخواست کو قبول نہیں کیا گیا۔
میرے نزدیک جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا موقف موجودہ حالات میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ عدلیہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ یہ نظامِ عدل کو یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ ان اعتراضات کو رفع کرے جو اس کے خلاف اٹھائے جا رہے ہیں۔ جج اس نظامِ عدل کا نمائندہ ہے۔ اگر وہ خود یہ پیشکش کرتا ہے کہ اُس کا احتساب سرِعام ہو تو یہ عدلیہ کی اخلاقی قوت کا اظہار ہے۔ یہ پیشکش وہی کر سکتا ہے جسے اپنی پاک دامنی پر بھروسہ ہو۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ سنا جائے تو ان کے موقف کو ماننے میں کوئی عذر مانع نہیں ہونا چاہیے۔
ہم جس دین کو مانتے ہیں‘ اس میں بنیادی اہمیت انسان کے اخلاقی وجود کی ہے۔ دین نام ہی اخلاقی وجود کے تزکیے کا ہے۔ یہ احساس کسی خارجی دباؤ کا نہیں، داخلی تبدیلی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک انسان اپنی تنہائیوں کا بھی حساب رکھتا ہے کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے، اس کا پروردگار تو اس کو دیکھ رہا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ جسٹس صدیقی کا مطالبہ اسی احساس سے پھوٹا ہوا ہے، اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
میں اس معاملے کو ادارے کے حوالے سے بھی دیکھ رہا ہوں۔ پاکستان میں اس وقت جو سیاسی کشمکش ہے، اس میں اتنی گرد اڑ چکی کہ پہچانے ہوئے چہرے بھی پہچانے نہیں جا رہے۔ لوگ اپنے چہرے کی گرد صاف کرنے کے بجائے، دوسرے کے گرد آلود چہرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا چہرہ کوئی نہ دیکھے، دوسرے کا دیکھے۔ ہر کوئی دوسرے کے احتساب کی بات کر رہا ہے۔ اس مہم میں سچ اور جھوٹ کی اس طرح آمیزش کر دی گئی ہے کہ دونوں کو الگ کرنا ایک عام آدمی کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔
میڈیا بھی اس معاملے میں مددگار نہیں۔ سوشل میڈیا تو ایک طرف، الیکٹرانک میڈیا بھی کسی ضابطے کا پابند نہیں، حالانکہ اس پر نظر رکھنے کے لیے ادارے بھی موجود ہیں اور قوانین بھی۔ کل ہی میں نے ایک چینل پر سنا کہ ایک ٹی وی اینکر قانون کے شعبے سے متعلق دو افراد کا ذکر کر رہے ہیں اور پھر فرماتے ہیں ''جب ایسے بے کردار (characterless) لوگ ہوں گے تو...‘‘ میں نے تو سن کر دانتوں میں انگلی دے لی۔ کیا اب میڈیا میں اس طرح 'تجزیے‘ ہوں گے۔ جب صورت حال اس طرح گمبھیر ہو جائے تو ہر شریف آدمی کو اپنی عزت کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
اس فضا میں اگر کوئی جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میرا احتساب سب کے سامنے کیا جائے تو پورے معاشرے اور خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تو لازماً اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اسی لیے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی یہ استدعا اگر عدالتِ عظمیٰ میں قبول ہوتی ہے تو یہ پیش رفت عدلیہ کے ادارے پر عوامی اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گی۔
ایک جمہوری معاشرے میں عدالتی عمل کو خفیہ نہیں ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی حساس قومی معاملہ ہو۔ اگر کسی ایسے راز کے منکشف ہونے کا امکان نہ ہو جس کا تعلق قومی سلامتی کے ساتھ ہے تو پھر ہر مقدمے کو کھلی عدالت میں زیر سماعت ہونا چاہیے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کارروائی کسی ادارے کے داخلی اہتمام میں ہو لیکن ہر آدمی کو یہ حق ہو کہ وہ اسے دیکھ اور سن سکے۔
پاکستان میں اب مقننہ، عدلیہ اور فوج کو خاص طور پر خود احتسابی کی روایت کو اس طرح آگے بڑھانا چاہیے کہ عوام اس سے باخبر رہیں۔ گرد آلود ماحول میں اگر سب دوسروں پر گرد ڈالنے ہی کا کام کریں گے تو گرد و غبار میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اگر ہم صفائی کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ کام گرد اڑانے سے نہیں گرد بٹھا نے سے ہو گا۔ اس کا سب سے اچھا اور موثر طریقہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے چہرے کا غبار صاف کرے۔ اس میں گرد آلود چہرے خود بخود نمایاں ہو جائیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خود احتسابی کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر عدالتِ عظمیٰ ان کے حق میں فیصلہ دیتی اور ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کو عام کر دیتی ہے تو یہ فیصلہ اس نظامِ عدل کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔ احتساب کی روایت کو اگر آگے بڑھنا ہے تو ہر کسی کو اس کا آغاز اپنی ذات اور اپنے ادارے سے کرنا ہو گا۔ احتساب کی پہلی شرط اس کا علانیہ ہونا ہے۔