مسلم معاشروں میں مذہب و ریاست کی یکجائی اور مذہبی سیاست کے اثرات کو سب سے پہلے انڈونیشیا کے مذہبی راہنماؤں نے محسوس کیا۔ نہضۃالعلما کو اس باب میں امامت کا درجہ حاصل ہے۔
مذہب کے باب میں نہضۃالعلما کا مسلک وہی ہے جو ہمارے ہاں سوادِ اعظم کا ہے۔ وہ خود کو اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں۔ عقیدہ و کلام میں اشاعری و ماتریدی تعبیر کے پیروکار ہیں۔ تصوف میں جنید بغدادیؒ اور غزالیؒ کو امام مانتے ہیں اور فقہ میں آئمہ اربعہ کی تقلید کے قائل ہیں۔ دیگر اصول بھی وہی ہیں جیسے قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔ 'محمدیہ‘ انڈونیشیا کی دوسری بڑی مذہبی جماعت ہے جو اصلاح پسند کہی جاتی ہے اور امام ابن تیمیہ کے منہج کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسے ہم سلفی افکار کی نمائندہ بھی کہہ سکتے ہیں اگرچہ وہ ہمارے سلفیوں سے بہت مختلف اور صحیح معنوں میں تقلید کے خلاف ہیں۔
نہضۃ العلما نے اہل سنت والجماعت کے مسلک کی جو توضیح کی ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ وہ اہلِ سنت کے چار اصول بیان کرتے ہیں۔ پہلا اصول 'وسعت‘ ہے۔ اس کے تحت انتہا پسندانہ رویہ کسی طور قابل قبول نہیں۔ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کی جائے گی۔ جیسے استنباطِ احکام میں نصوص کے لفظی مفہوم کے ساتھ عقلی استدلال کو بھی دیکھا جائے گا۔ جبر و قدر کے ساتھ رجعت پسند سلفی فکر اور معتزلی عقل پرستی، کے علاوہ فلسفیانہ تصوف اوراسلاف کے تصوف میں میانہ روی کو اپنایا جائے گا۔
دوسرا اصول توازن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کے معاملات میں توازن پیدا کیا جائے گا۔ نہ ترکِ دنیا اور نہ خدا کے ہاں جواب دہی سے بے نیازی۔ تیسرا اصول 'تسامح‘ ہے۔ اس سے مراد اختلافات سے صرفِ نظر اور ان کو غیر معمولی اہمیت دینے سے گریز، بالخصوص فروعی مسائل میں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کثیرالمذاہب معاشرے میں، اگر اہلِ سنت میں کسی دوسرے مسلک کی سماجی زندگی کا کوئی پہلو در آئے تو اس سے درگزر کرنا چاہیے۔ سماج کو اس کے پس منظر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ چوتھا اصول: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ نیکی کی ترغیب اور برائی سے بچنے کی دعوت۔ یہ دعوت ہے‘ لٹھ برداری نہیں۔ اس باب میں نہضہ اتنی واضح ہے کہ عبدالرحمن واحد نے مسلمانوں کی مخالفت گوارا کر لی مگر غیر مسلموں کی آزادیٔ رائے پر پابندی کو قبول نہیں کیا۔
نہضۃ العلما ان اصولوں پر قائم ایک مذہبی سماجی تنظیم تھی جو 1926ء میں قائم ہوئی۔ اس وقت انڈونیشیا ایک آزاد ملک نہیں تھا۔ آزادی کے بعد حالات کے زیرِ اثر نہضہ سیاست میں الجھتی چلی گئی اور 1952ء میں پوری طرح ایک سیاسی جماعت بن گئی۔ اس دوران میں ہی اس جماعت کے سنجیدہ لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ کانٹا بدل چکا ہے اور اب اس جماعت کی منزل وہ نہیں رہی جس کے لیے یہ قائم ہوئی تھی۔ سیاست نے اسے گم راہ کر دیا ہے۔
1959ء میں غور و فکر کا ایک عمل شروع ہوا۔ 1980ء کی دھائی میں اس کی تکمیل ہوئی۔ یہ طے پایا کہ اقتدار کی سیاست سے نہضۃالعلما کو کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ ایک سماجی مذہبی جماعت ہو گی اور ان اصولوں پر کھڑی ہو گی جن پر یہ قائم ہوئی تھی۔ اس کی توجہ کا مرکز مسلم سماج کی تعمیر ہے جس کا ایک پہلو سیاست بھی ہے۔ اگر جماعت سے وابستہ کوئی فرد سیاست کا ذوق رکھتا ہے تو انفرادی حیثیت میں جس جماعت کو چاہے، اس میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔ قومی زندگی میں دو اصول نہضۃ العلما کے پیش نظر رہیں گے؛ ایک انڈونیشیا کی بطور ریپبلک وحدت اور دوسرا پنچ شیلا۔ وہ اصول جو صدر سوئیکارنو نے اختیار کیے تھے۔ ان میں سماجی انصاف اور جمہوریت کو اصول کے طور پر مانا گیا ہے۔
نہضہ نے اس بات کو ایک کلچرل اور تہذیبی قدر کے طور پر مستحکم کیا‘ جس میں بنیادی اہمیت سماج کو حاصل تھی۔ وہ ایک ایسا نظامِ اقدار قائم کرنے کے لیے متحرک ہوئی جس میں مسلم تہذیبی روایت کا غلبہ ہو اور لوگوں کو یاد رہے کہ انہیں خدا کے ہاں جواب دہ بھی ہونا ہے۔ اس کے لیے نہضہ نے عوام کو معاشی، اخلاقی اور سیاسی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے سماجی، کاروباری اور تربیتی ادارے بنائے۔ اس کا اندازہ حج کے موقع پر انڈونیشیا کے مسلمانوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔
2004ء میں جب میں پہلی مرتبہ انڈونیشیا گیا تو میرا قیام دو ماہ کے لیے تھا۔ اس دوران میں، میں نے کوشش کی کہ اس جماعت کے نظام کو سمجھوں۔ میرا ایک مشاہدہ اس عمل کو بہتر طور پر واضح کر دے گا۔ میں نے دیکھا کہ نہضتہ کے ہاں خواتین کے لیے 'المسلمات‘ کے نام سے ایک الگ شعبہ قائم ہے۔ اس شعبے میں خواتین کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان چار اصولوں کی بنیاد پر، جن کا میں نے چند سطور پہلے ذکر کیا۔ جب مسلمان بچیاں شادی کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان کے لیے تربیتی کورسز مرتب کئے جاتے ہیں‘ جن میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ ازدواجی زندگی کے آغاز سے کیا مراد ہے؟ خواتین کو ازدواجی زندگی میں کس نوعیت کی سماجی، نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرنا ہو گا۔ نئے رشتے میں ان کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے؟ قانون اس باب میں کیا کہتا ہے، مذہب کی تعلیم کیا ہے، سماجی ماحول کن باتوں کا متقاضی ہے۔ ان سب امور پر ان کی تربیت کی جاتی ہے۔
جو آدمی اسلام کے معاشرتی نظام اور اس میں خاندان کی اہمیت سے واقف ہے، وہ جان سکتا ہے کہ ایک مسلم سماج کی تشکیل میں اس بات کی کتنی اہمیت ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں‘ جہاں ستر برس سے مذہب کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ اس طرح کا کوئی ادارہ وجود میں نہیں آ سکا۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی نظام میں اخلاقیات کا جس طرح خون ہوتا ہے‘ شاید سیاست میں بھی نہیں ہوتا۔ جب اکائی ہی درست نہ ہو تو پھر نظام کیسے درست ہو سکتا ہے؟
سیاست کو نہضۃ العلما نے اس پہلو سے نظر انداز نہیں کیا کہ لوگوںکی بنیادی تربیت کر دی گئی۔ اب اگر وہ سیاست کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو کسی سیاسی جماعت میں جا سکتے ہیں۔ یوں سیاست بھی نہضہ کے کام سے متاثر ہو رہی ہے لیکن اس جماعت کا اپنا نظام سیاسی مصلحتوں یا چال بازیوں سے پاک ہے۔
انڈونیشیا ایک کثیرالمذاہب معاشرہ ہے۔ ان لوگوں نے سیکھا ہے کہ ایسے معاشرے میں مذہب و سیاست کا باہمی تعلق کیا ہونا چاہیے۔ اسی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نور خالص مجید جیسے اہلِ علم نے اسلامی سیکولرازم کا تصور پیش کیا۔ یہ اسلام کو سیکولرائز کرنا نہیں تھا‘ بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ سیکولرازم کو اسلامائز کرنا ہے۔ اسلام مذہبی آزادی کا جیسا علم بردار ہے، اس کے بعد اسے مزید سیکولرائز کر نے کی ضرورت نہیں؛ تاہم سیکولرازم کو اس کی ضرورت ہے کہ وہ مذہب کی ثقافتی اور تہذیبی قوت کو قبول کرے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے، مذہب و ریاست کے باہمی تعلق کی تشکیلِ نو ہو۔
انڈونیشیا میں انتہا پسندانہ جماعتوں نے جگہ بنانے کوشش کی مگر نہضۃالعلما جیسی جماعتوں کے کام کی وجہ سے وہ معاشرے میں جگہ نہیں بنا سکیں۔ جمہوریت اور ادیان کے باہمی احترام کی روایت کو نہضۃ العلما جیسی جماعتوں اور افراد نے مستحکم کیا۔ اس کی وجہ سے انڈونیشیا سیاسی اور سماجی طور پر مستحکم ہوا جس سے اس کی معیشت میں بھی بہتری آئی۔ انڈونیشیا مذہبی رواداری رکھنے والا ایک ایسا ملک ہے جو کئی پہلوئوں سے باعثِ تقلید ہے۔ میرا احساس ہے کہ اس کی وجہ وہاں کی مذہبی قیادت کی زندہ سوچ ہے جس نے مذہب و ریاست کے باہمی تعلق کو مقامی تناظر میں سمجھا اور مذہب کو اس صورتحال سے دوچار ہونے سے روکا جس کا سامنا اسے یورپ میں کرنا پڑا۔