انڈونیشیا کی مسلم قیادت نے برسوں پہلے جو موقف اختیار کیا، تیونیسیا کے راشدالغنوشی اور ان کی جماعت النہضہ بھی آج اس کی تائید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ مذہب و سیاست کو ایک ساتھ نہیں چلایا جا سکتا۔
راشد غنوشی نے برسوں جدوجہد کی کہ تیونیسیا کو ایک اسلامی ریاست بنایا جائے۔ اخوان اور سید قطب کے افکار نے انہیں طویل عرصہ اپنی گرفت میں رکھا۔ تجربے نے انہیں سکھایا کہ اس سے مذہب کی کوئی خدمت ہو سکی اور نہ سیاست کی۔ 2016ء میں جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ تیونیسیا کی سیاست میں اب 'سیاسی اسلام‘ کی کوئی جگہ نہیں تو اس نتیجۂ فکر کے دلائل بھی بیان کیے۔ اس موضوع پر ان کے متعدد مضامین موجود ہیں۔
النہضہ نے جب یہ فیصلہ کیا تو غنوشی نے پارٹی اجلاس کے بعد ایک فرنچ اخبار کو ایک انٹرویو دیا۔ اس میں انہوں نے اس فیصلے کی حکمت بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اعلان کے بعد سیاست دان اس الزام سے بچ جائیں گے کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مذہب بھی سیاست کی مصلحتوں سے آزاد ہو جائے گا۔ 'الجزیزہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے واضح کیا کہ انہیں طالبان یا ایران کے بجائے ترکی کی جماعت اے کے پی سے قریب تر سمجھا جائے۔ غنوشی نے 'مسلم ڈیموکریٹس‘ کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنائی جس کا مذہبی سرگرمیوں سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہو گا‘ مسجد کو کسی طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ نہ کوئی دینی عالم سیاسی راہنما بن پائے گا۔
ترکی کی اے کے پی اور تیونیسا کی النہضہ، دونوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ انتہا پسندانہ رویوں کی مخالفت ہے۔ راشد غنوشی صاحب کا کہنا ہے کہ سیکولر انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسندی، دونوں معاشرے کے لیے مضر ہیں۔ ترکی میں اے کے پی کی مقبولیت دراصل کمال ازم کی انتہا پسندی کے خلاف صدائے احتجاج تھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں نے انڈونیشیا کی نہضۃالعلما کے تجربات سے سیکھا ہے۔
سیاسی اسلام سے ایک اور انحراف سوڈان کے ڈاکٹر حسن ترابی کا بھی تھا۔ انہوں نے بہت سے سیاسی و سماجی مسائل میں غور و فکر کا دروازہ کھولا۔ انہوں نے حجاب، خواتین کے سیاسی حقوق اور ارتدا کی سزا جیسے مسائل پر روایتی آرا سے مختلف موقف اختیار کیا۔ انہوں نے عمر عبدالبشیر سے بہت سے توقعات وابستہ کیں مگر اس کا نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہ نکل سکا۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے یہی جانا کہ ایک رائگاں سفر میں عمر بیت گئی۔
ترکی معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ گزشتہ دنوں استنبول میں او آئی سی کی کانفرنس ہوئی۔ 13 دسمبر کو ہمارے ممدوح طیب اردوان صاحب نے اسرائیل کے خلاف ہمارے جذبات کو الفاظ کا پیرہن عطا کیا اور ایک ولولہ انگیز خطاب کیا۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے اسرائیل کے ایک ادارے نے ترکی سے بسوں کی خریداری کا ایک بڑا معاہدہ کیا۔ اس کی مالیت 18.6 ملین یورو ہے۔ ایک طرف تجارت اور سفارتی تعلقات برقرار ہیں‘ اور دوسری طرف جذبات بھی متلاطم ہیں۔
ان تجربات کی دو تاویلات ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اسے امریکہ کی سازش قرار دیا جائے جو مسلم دنیا میں 'موڈریٹ اسلام‘ کو پھیلانا چاہتا ہے۔ کسی رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ بھی بطور حوالہ پیش کی جائے جس سے اپنے تئیں، یہ مقدمہ آخری درجے میں ثابت کر دیا جائے کہ کس طرح امریکہ جہاد اور اس طرح کے تصورات کے خلاف مسلم دنیا کا اندازِ نظر تبدیل کر رہا ہے۔ یہ مان لینے کے بعد، پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ طیب اردوان، راشد غنوشی، نہضۃ العلما اور ہما شما کو الگ الگ کیا جائے۔ پھر سب کو ایک ساتھ امریکی ایجنٹ تسلیم کرنا پڑے گا۔
دوسرا یہ کہ حسنِ ظن کے ساتھ اس تبدیلی پر غور کیا جائے؟ راشد غنوشی اس قلبِ ماہیت پر جو دلائل دیتے ہیں، ان کی صحت کا جائزہ لیا جائے۔ اس بات کو سمجھا جائے کہ طیب اردوان جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ وہ ان کے حقیقی احساسات ہیں۔ یہ ان اقدامات سے متصادم نہیں جو بطور ریاست ترکی اپنے معاشی و دیگر مفادات کے لیے اٹھاتا ہے۔ آپ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتے ہوئے بھی فلسطینیوں کے دوست ہو سکتے ہیں۔ اس پر بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ روزمرہ سیاست کے مطالبات کو کسی مذہبی پیمانے سے ناپنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذہب و سیاست کو ہر معاملے میں خلط ملط کرنا لازم نہیں۔
میں دوسرے پہلو کو ترجیح دیتا ہوں۔ مجھے کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ میں اس باب میں راشد غنوشی یا طیب اردوان کی نیت پر شک کروں۔ میں جب مذہب و سیاست کے مباحث کو جذبات اور عصبیت سے الگ ہو کر سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے اس میں کسی سازش کی بو آتی ہے‘ نہ کسی تضاد کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یہ میری بالکل ذاتی رائے ہے۔ یہ ان صاحبانِ بصیرت کے تجربات کا حاصل ہے جنہیں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار ہے لیکن وہ اس کے ساتھ یہ بھی جان رہے ہیں کہ کہاں لوگ مذہب کے سوئے استعمال کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
میں بھی اسی عمل سے گزر رہا ہوں۔ میں نے اس باب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ اس فکری عمل کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ فی الوقت کسی ایک نقطہ نظر کی تائید کر رہا ہوں نہ تردید؛ تاہم میں اس بات کا پوری طرح قائل ہو چکا کہ مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کو نئے سرے سے سمجھنا ناگزیر ہے۔ بیسویں صدی کے اہلِ علم نے اس تعلق کو جس طرح بیان کیا، ان کی علمی عظمت اور فکری دیانت کے اعتراف کے باوجود، اس سے اتفاق ممکن نہیں۔ ان آرا پر اصرار نہ صرف مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کو پیچیدہ بنا رہا ہے‘ بلکہ اس نے ہمیں اس راہ پر ڈال دیا ہے جس نے خود مذہب کے سماجی و سیاسی کردار کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
مجھے اصطلاحوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ میری دلچسپی مغز سے ہے پوست سے نہیں۔ بعض اوقات تصورات پہلے جنم لیتے ہیں اور پھر لوگ انہیں کسی اصطلاح سے بیان کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات تصور اور اصطلاح ایک ساتھ جنم لیتے ہیں۔ اصطلاح لازم نہیں کہ ہمیشہ لغت میں بیان کردہ مفہوم کی قید میں رہے۔ وہ جب معاشرے سے متعلق ہوتی ہے تو خود کو اس کے مطابق ڈھالتی چلی جاتی ہے۔ اس صورت میں لغت صرف تاریخی حوالے کا کام دیتی ہے۔
پاکستان ان مسلم ممالک میں سر فہرست ہے جہاں مذہب سیاسی معاملات میں ایک موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے کچھ نتائج نکل چکے اور کچھ ابھی نکلیں گے۔ اس سارے عمل کا جائزہ لازم ہے۔ میرا احساس ہے کہ اس عمل کا براہ راست تعلق ہماری سماجی اور سیاسی بقا کے ساتھ ہے۔ بطور سماج اور بطور ریاست ہماری زندگی کا انحصار مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کی درست تفہیم سے ہے۔
میرے علم کی حد تک جاوید احمد صاحب غامدی، اس وقت تک واحد علمی شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان میں اس مسئلے کو ایک سنجیدہ فکری کاوش کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے جواب میں جو کچھ لکھا گیا، اس کا غالب حصہ علمی سے زیادہ مناظرانہ ہے۔ جاوید صاحب کے ساتھ اتفاق لازم نہیں، لیکن یہ لازم ہے کہ اس موقع پر ایک سنجیدہ مکالمہ ہو۔ مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کو اس وقت جس طرح بیان کیا جا رہا ہے، اس سے فتنہ پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی روک تھام خود مذہب کے لیے ضروری ہے۔
ہندوستان میں کاغذ کا نوٹ آیا تو ایک عالم سے فرمائش کی گئی کہ وہ اس کے خلاف فتویٰ دیں۔ عالم کی نظر حالات پر بھی تھی۔ ان کا جواب تھا: فتویٰ نہیں چلے گا، نوٹ چل جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ مذہب کا مقدمہ جذبات یا فتووں سے نہیں لڑا جا سکتا۔ اسے اپنے عہد کی سب سے بڑی علمی اور عملی حقیقت تسلیم کروانا پڑتا ہے۔ افسوس کہ یہی بات اہلِ مذہب کی نظر سے اوجھل ہے۔