پوسٹ ماڈرن دنیا میں میڈیا کا کردار کیا ہو گا؟
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی کے زرخیز ذہن میں یہ سوال اُٹھا‘ اور پھر ایک دو روزہ کانفرنس کا عنوان بن گیا۔ ابتدائی سیشن میں شرکت کے لیے گیا تو محترم و مکرم سجاد میر کا عالمانہ خطاب سننے کا موقع مل گیا۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے شعبہ صحافت سے متعلق اساتذہ اور طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری اور ڈاکٹر شفیق جالندھری بھی تشریف فرما تھے۔ ملک کے نامور صحافی اس کانفرنس میں میڈیا کے طالبِ علموں سے ہم کلام ہوں گے۔ اساتذہ اور طالبِ علم بھی اپنے تحقیقی مقالات پیش کریں گے۔
مابعد جدیدیت (Post-modernism) کی اصطلاح نے مغرب میں جنم لیا۔ اس کی درست تفہیم مغرب کے تاریخی پسِ منظر ہی میں ہو سکتی ہے۔ مغرب کی تاریخ کو بالعموم تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قبل از جدیدیت، جدیدیت اور بعد از جدیدیت۔ جدیدیت کے عہد میں حسی اور تجرباتی علم کو معیار مانا گیا۔ یہ کہا گیا کہ حقیقت وہی ہے جس کی تائید انسان کے حواس کریں یا پھر اس کا تجربہ۔ اسے سائنسی تحقیق کا دور کہا گیا۔ اس دور میں حقیقت اور سچ کو ایک معروضی حیثیت دی گئی۔
پوسٹ ماڈرنزم نے حقیقت کے اس تصور کو رد کر دیا۔ اب یہ کہا جانے لگا کہ دنیا میں حقیقت نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ حقیقت ایک ایسا تصور ہے جو سماجی تشکیل کا نتیجہ ہے۔ یہ کلچرل تصور ہے۔ کلچرل کو نیچرل کے بالمقابل سمجھا گیا۔ فطری تصورات آفاقی اور زمان و مکان سے ماورا ہوتے ہیں اور فطرت سے پھوٹتے ہیں۔ کلچرل ایک تشکیلی (constructed) عمل ہے جو فطری طور پر موجود نہیں ہوتا بلکہ پیدا کیا جاتا ہے۔ نظریات اور اقدار سے تاریخی عمل جنم لیتا ہے۔ وہی حقیقت ہے جو اس کلچرل پیمانے پر پوری اُترتی ہے۔
پوسٹ ماڈرن ازم کو ماڈرن ازم کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ سب سے پہلے اس نے آرکیٹیکچر میں ظہور کیا‘ جب آرائش کے ماڈرن تصور کو چیلنج کیا گیا۔ پھر یہ ایک نظریے اور سوچ میں ڈھل گیا‘ جس نے ادب، آرٹ، میڈیا، ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میڈیا پوسٹ ماڈرن ازم میں ایک کلچرل سرگرمی نہیں بلکہ ایک تجارتی عمل ہے۔ اس کی نظر میں ہر شے جنسِ بازار ہے۔ مذہب، سیاست، کلچر، کسی شے کو کوئی استثنا نہیں۔ میڈیا ہمیں حقیقت کی خبر نہیں دیتا۔ میڈیا حقیقت کو تشکیل کرتا ہے۔ یوں تشکیلی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔ ٹی وی کی سکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ حقیقت نہیں ہوتا بلکہ وہ تشکیل شدہ (constructed) حقیقت ہوتی ہے۔ بعض سکالرز اسے ہائپر ریئلیٹی (Hyper reality) کہتے ہیں۔ ہائپر ریئلیٹی حقیقت سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ یہی تصور ہے جسے ایک دوسرے زاویے سے پوسٹ ٹروتھ بھی کہا جاتا ہے۔
مغرب میں پوسٹ ماڈرنزم کا دور جدیدت کے بعد آیا۔ وہاں اس کا جواز کسی حد تک تلاش کیا جا سکتا ہے۔ حسی اور تجرباتی علم کو جب حقیقت تک رسائی کا سیارہ تسلیم کیا گیا تو اپنی محدود قوتِ پرواز کے سبب، یہ علم منزلِ مراد تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ انسان کو اس ناکامی کا اعتراف ہوا تو اس نے پہلے سے قائم شدہ نظریات پر نظرثانی کرنے کے بجائے، مزید آگے بڑھنا چاہا اور اس بات ہی سے انکار کر دیا کہ دنیا میں سچائی یا حقیقت نام کی کوئی شے پائی جاتی ہے۔
انسان نے اپنا سفر مابعد الطبیعیاتی علم سے شروع کیا۔ اگلے مرحلے میں وہ طبیعیات کے دور میں داخل ہوا۔ یہ الہام سے فلسفے کی طرف رجوع تھا۔ فلسفے سے مایوسی نے حقیقت کی وجود ہی کو مشتبہ بنا دیا۔ اہلِ مغرب نے فلسفے سے دوبارہ الہام کی طرف مراجعت سے گریز کیا اور تلاشِ علم کے سفر کو خطِ مستقیم میں آگے بڑھایا۔ میڈیا اس کے ساتھ سفر کرتا ہوا، پوسٹ ماڈرن ازم کے دور میں داخل ہو گیا۔ مغرب میں یہ سارا عمل چونکہ ایک حسنِ ترتیب کے ساتھ آگے بڑھا، اس لیے مربوط ہونے کے ساتھ قابلِ فہم بھی ہے۔
ہمارے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ سماجی سطح پر ماڈرن دور میں داخل ہوئے بغیر، ہمارا میڈیا ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پوسٹ ماڈرن دور میں داخل ہو گیا۔ ڈیجیٹل عہد میں داخل ہونے کے بعد ہمیں بالجبر پوسٹ ماڈرن دور میں داخل ہونا پڑا۔ اب ماڈرن دور سے گزرے بغیر پوسٹ ماڈرن دور میں جانا ایسا ہی ہے جیسے آٹھویں جماعت کے کسی طالب علم کو میٹرک کیے بغیر ایف اے کے امتحان میں بٹھا دیا جائے۔ اب یہ طالب علم جس انتشارِ فکر، پراگندگی اور ابہام کا شکار ہو سکتا ہے، ہم بطور معاشرہ اسی ابہام اور پراگندگی کا شکار ہیں۔
میڈیا کو اس کا کوئی شعور نہیں ہے۔ وہ سماجی ساخت سے واقف ہے‘ نہ اسے یہ خبر ہے کہ ہمارا معاشرہ کس تاریخی حادثے کا شکار ہو چکا۔ آج وہ ابہام پھیلانے اور معاشرے کو آلودہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا۔ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ میڈیا سے مطمئن نہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ درست نہیں۔ تاہم وہ اپنے طور پر تجزیے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیے اس حادثے کو محسوس کرنے کے باوجود، اس کی ماہیت سے ناواقف ہیں۔ عوام سے کیا شکایت کہ خواص کو بھی اس کا ادراک نہیں۔
آج میڈیا معاشرے کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے، اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ میڈیا پر ہمیں اگر کچھ اچھی چیزیں دکھائی دیتی ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ میڈیا کے ذمہ دار شعوری کوشش سے ایسا کرتے ہیں۔ میڈیا چونکہ سر تا پا ایک تجارتی عمل ہے، اس لیے اس کے نزدیک ہر شے جنسِ بازار ہے۔ معاملہ کاروباری اور تجارتی ہو تو لازم ہے کہ فیصلے کا اختیار مارکیٹنگ کے شعبے کے پاس ہو۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ابھی مذہب یا اس طرح کی بعض مثبت باتوں کی مارکیٹ موجود ہے، اس لیے اسی تناسب سے یہ ہمیں ٹی وی سکرین یا اخبارات کے صفحات پر دکھائی دیتے ہیں۔ جس روز معاشرہ مذہب بیزار ہو گیا، میڈیا سے بھی اسی دن غائب ہو جائے گا۔
پوسٹ ماڈرن ازم، اس طرح ہمارے لیے دُہرا عذاب ہے۔ ایک اس لیے کہ یہ کسی حقیقتِ مطلقہ سے انکار کرتا ہے۔ ہم جس تصورِ حیات کے ساتھ اپنی تہذیبی و مذہبی شناخت پر اصرار کرتے ہیں، اس کی اساس اللہ پر ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نزدیک اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم میں ایسے مابعدالطبیعیاتی تصورات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دوسرا عذاب یہ ہے کہ میڈیا سماج کی صورتِ حال سے الگ، لاشعوری طور پر پوسٹ مادڑن دور میں داخل ہو چکا اور معاشرہ ابھی قبل ازم جدیدت کے دور میں کھڑا یا کسی حد تک جدیدت کو سمجھنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ یوں میڈیا نے معاشرے میں اقدار کا ایک فساد برپا کر دیا ہے اور اسے اس بات کا کوئی ادراک بھی نہیں۔
ہمارا نوجوان طبقہ، جو میڈیا کی دنیا میں قدم رکھنے والا ہے، اگر پہلے ہی سے خبردار ہو جائے‘ اور اسے معلوم ہو کہ پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج کیا ہے‘ تو یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ سماج کو فکری پراگندگی سے بچانے کی کوئی تدبیر تلاش کر سکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہماری جامعات کے ذمہ داروں کو اس چیلنج کی سنگینی کا احساس ہو‘ جہاں سے پڑھ کر نوجوان میڈیا کا حصہ بنیں گے۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اگر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اس کانفرنس کا اہتمام کیا تو یہ امید کی ایک کرن ہے۔ برادرم وجاہت مسعود جیسے لوگ اس کانفرنس میں مدعو ہیں جو باخبر ہیں کہ انسان کے علمی و فکری ارتقا نے ہمارے روایتی سماج کو کن چیلنجوں کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ کاش میڈیا ہاؤسز کے ذمہ داران میں ایسے لوگ موجود ہوں جو صحافت کے میدان میں موجود رجالِ کار کی، اس پہلو سے تربیت کے بارے میں سوچ سکیں۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان اداروں کی قیادت صاحبانِ علم کے پاس ہو۔ مارکیٹنگ کا شعبہ تو صرف پوسٹ ماڈرن کے ایک رضا کار اور خادم کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ جس کے نزدیک دنیا کی ہر شے جنسِ بازار ہے۔