کرسمس کی تقریبات میں مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کی گرم جوش شرکت،میرے لیے خوش گوار حیرت کا باعث تھی۔ مختلف تقریبات میں ان جماعتوں کے قائدین نے جن خیالات کا اظہار کیا، اس میں غور و فکر کا بہت سا مان ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم صاحب نے اسلام آباد کے کئی کلیساؤں کا دورہ کیا۔مسیحی مذہبی شخصیات سے ملاقات کی۔انہیں کرسمس کی مبارک باد دی اور یہ کہا کہ پاکستان اکثریت اور اقلیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ ''ہماری خوشی اور غم سانجھے ہیں‘‘۔ جمعیت علمائے اسلام کی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر صاحبہ نے ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں اس خواہش کا اظہارکیا کہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو نا چاہیے۔ ان کے خیال میں قائداعظم نے واضح کر دیا تھا کہ اقلیتیں برابر کی شہری ہیں‘ قائد کی اس تقریرکو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔
اقلیتوں کے باب میں ان جماعتوں کی یہ گرم جوشی، بظاہر اس آئینی ترمیم کا نتیجہ ہے جس میں مخلوط انتخابات کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اب ایک غیر مسلم کے ووٹ کی وہی قدر و منزلت ہے جوایک مسلمان کے ووٹ کی ہے۔ گنتی میں دونوں برابر شمار ہوں گے۔اس ترمیم سے پہلے مذہبی سیاسی جماعتوں میں، اقلیتوں کے لیے یہ گرم جوشی کبھی دکھائی نہیں دی۔ میں اسے ایک خوش آئند تبدیلی سمجھتا ہوں؛ تاہم میری خواہش یہ ہے کہ یہ تبدیلی کسی سیاسی مفاد یا خارجی جبر کا نتیجہ نہیں ہونی چاہیے۔ ان جماعتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان باتوں کا مفہوم کیا ہے اور ان کا یہ طرزِ عمل انہیں کسی فکری تبدیلی کی دعوت دے رہا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے مروجہ تصور میں مسلم اور غیر مسلم برابر نہیں ہیں۔ ایک نظریاتی ریاست میں وہی شہری ریاست کا مکمل شہری سمجھا جاتا ہے جواس کے نظریے کا بھی وفادار ہو۔ اگر کوئی ریاست کے نظریے کا قائل نہیں ہے تو ریاست کے بنیادی مفادات کے باب میں‘ وہ قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کے اس تصور کے تحت، ایک غیر مسلم ریاست کا سربراہ ہو سکتا ہے اور نہ اسے کسی کلیدی منصب پر فائز کیا جا سکتا ہے۔
جب ارتداد کی سزا موت بتائی جاتی ہے تواس کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ مذہب کی تبدیلی دراصل اسلامی ریاست کے ساتھ غداری ہے اور غداری کی سزا ہر ریاست میں موت ہوتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی لکھ دیا گیا ہے کہ غیر مسلم ملک کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ جو اسلامی ریاست کے اس مقدمے کو علمی دلائل کے ساتھ سمجھنا چاہتا ہے، اسے مو لانا مودودی کے مجموعۂ مضامین ''اسلامی ریاست‘‘ اور ان کے رسالے ''ارتداد کی سزا‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب 'اسلامی ریاست‘ بھی بڑی حد تک اسی مقدمے کو بیان کر تی ہے۔
آسیہ ناصر صاحبہ کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے۔ وہ اسی آئینی ترمیم کی برکت سے پارلیمنٹ کی رکن ہیں جس نے ووٹ کے معاملے میں اقلیتوں کو مساوی حیثیت دی ہے۔ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، میرے علم کی حد تک، جمعیت علمائے اسلام ان کی حامل نہیں ہے۔ قائداعظم کے افکار کو جمعیت نے کبھی اپنا راہنما نہیں مانا۔ وہ خود کو جمعیت علمائے ہند کا وارث سمجھتی ہے۔ مجھے یہ ماننے میںبھی تردّد ہے کہ وہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کو نصاب کا حصہ بنانے کے اس مطالبے کی حمایت کرے گی۔
جماعت اسلامی، اسلامی ریاست کے اس تصور کی نہ صرف حامی بلکہ علم بردارہے۔ اسی کے پاس ایک نظریاتی ریاست کا مکمل خاکہ اور اس کا دینی و عقلی استدلال موجود ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ زیادہ تر مو لانا مودودی کے افکار کی خوشہ چینی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا تاریخی ا ور فکری پس منظر میںعرض کر چکا۔ اس سیاق و سباق میں‘ جب ان مذہبی جماعتوں کی طرف سے اقلیتوں کو مساوی شہری قرار دینے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے کیا مراد ہے؟
اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ انہیں اپنی اس بات کے مضمرات کا اندازہ نہیں ہے۔ انہیں احساس نہیں ہے کہ وہ ایک قومی ریاست کے تصور کی تائید کر رہے ہیں جو اسلامی ریاست کے تصور سے متصادم ہے۔ قومی ریاست کے پس منظر میں جب اقلیت اور اکثریت کو مساوی درجہ دیا جاتا ہے تو یہ کلی مفہوم میں ہوتا ہے جزوی طور پر نہیں۔ قومی ریاست میں ممکن نہیں ہوتا کہ شہری حقوق طے کرتے وقت لوگوں میں امتیاز برتا جائے۔ قومی ریاست اور جمہوریت کا تصور لازم و ملزوم ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ جس ملک میں ستانوے فیصد آبادی مسلم ہو، وہاں ریاست اور سماج کی ہیئت میں اکثریت کے خیالات ہی کی عکاسی ہو گی لیکن اس کا سبب جمہوریت کی پاس داری ہو گا۔
مثال کے طورپر مسلم اکثریت پر مبنی ایک ریاست میں جب قانون سازی ہو گی تو یہ ممکن نہیں کہ قرآن مجید کی کوئی نص موجود ہو اور اس کو نظر انداز کر دیا جا ئے۔ لیکن اس اصول کی بنیاد یہ نہیں ہو گی کہ یہ قرآن مجید پر ایمان کا ناگزیر تقاضا ہے، بلکہ اس کی بنیاد یہ ہو گی کہ اکثریت قرآن مجید کے بر خلاف کوئی مؤقف اختیار نہیں کر رہی۔ یوں ریاست کا سیاسی نظم اصولی طور پر اکثریت کی رائے کا پابند ہوگا نہ کہ کسی خاص مذہب کا۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے اس مؤقف کی بابت، دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ ان خیالات کے مضمرات سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی‘ تاریخی جبر کے تحت انہیں ماننے پر مجبور ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ وقت کا گھوڑا ایک خاص سمت میں بھاگ رہا ہے اور اس کی باگ ان کے ہاتھ میں نہیں۔ ان کو انتخاب کرنا ہے کہ وہ اس پر سوار ہوکر دوڑ میں شریک ہو جائیں یا اس کی سواری سے انکار کرتے ہوئے‘ گردِ راہ میں کھو جائیں۔ مجھے دوسرا امکان ہی غالب دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے بعض مذہبی طبقات نے اس سے پہلے بھی بہت سے معاملات میں تاریخی جبر کے تحت فیصلے کیے اور پھر حیلے کا راستہ اپناتے ہوئے، اس کے لیے جواز تلاش کیے۔ لاؤڈ سپیکر سے لے کر تصویر کی حرمت تک، جس طرح حیلوں بہانوں سے بہت کچھ جائز قرار دیا گیا، اس میں لوگوں کے لیے عبرت کا بہت سامان ہے۔ فتویٰ مانگیں تو تصویر آج بھی حرام ہے۔ طرزِ عمل دیکھیں تو تصویر کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھایا جا تا۔ چند سال پہلے میں ایک نجی ٹیلی وژن کے ایک علمی ٹاک شو کا میزبان تھا۔ ایک پروگرام میں ایک دینی عالم کو شرکت کی دعوت دی گئی تو انہوں نے اس بنیاد پر شرکت سے انکار کیا کہ تصویر حرام ہے۔ وہ اس شرط پر پروگرام میں شریک ہوئے کہ ان کی تصویر نہیں دکھائی جائے گی۔ وہ پروگرام اس طرح نشر ہوا کہ ان کی گفتگو کے دوران میں سکرین کالی ہو جاتی تھی تاکہ ان کے خدوخال دکھائی نہ دیں۔ آج ان کا با تصویر کالم اخبار میں شائع ہو تا ہے۔
سیاسی امور میں خواتین کی شرکت اور شہریوں کے حقوق و فرائض کے تعین میں ان کے مذہب کی رعایت سمیت بہت سے مسائل ہیں جن پر اہلِ مذہب کا عمل ان کے مذہبی تصورات سے متصادم ہے۔ لوگ اپنی دینی تعبیر کے برخلاف طرزِ عمل اختیارکرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ اللہ کا دین آفاقی ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی عہد کے ان مطالبات کو پورا نہ کر سکے جن کوتسلیم کرنا بقا کا تقاضا ہو۔ اگر کہیں ایسا دکھائی دینا ہے تو اسے انسانی فہم کا قصور ماننا چاہیے۔
ختم نبوت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے نبی کریمﷺ کے بعد آنے والوں کو وہ درجہ نہ دے دیا جائے کہ ان کی آرا حجت بن جائیں۔ کرسمس کی تقریبات میں شرکت ایک قابلِ تحسین قدم ہے لیکن مجھے زیادہ خوشی ہوگی اگر یہ شرکت مذہب و سیاست کے تعلق کی تفہیمِ نو کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہو۔