تقویم نظمِ حیات کے لیے لازم ہے یا تصورِ حیات کے لیے؟
وقت کی تفہیم آسان نہیں۔ انسان نے اس کو اپنی گرفت میں لینا چاہا تو مظاہرِ کائنات سے اکتساب کیا اورکچھ پیمانے اختیار کر لیے۔ زمین کی گردش نے صبح و شام کا تصور دیا۔ زمین چکر کاٹتی آفتاب سے دور ہوئی تو کہا: رات آ گئی۔ اس کا چہرہ سورج کی طر ف ہوا تو بکھرتی روشنی کو دن کا نام دے دیا۔ لیل و نہار وقت کے پیمانے بن گئے۔ بدلتے موسموں کو تشخص دینا پڑا تو سردی اور گرمی انسانی لغت کا حصہ بنے۔
وقت مگر اتنی آسان سے کہاں گرفت میں آتا ہے۔ عالم کے پروردگار نے تغیرکو زندگی کے سرشت میں شامل کر دیا۔ واقعات قطرہ قطرہ وقت کی صراحی سے ٹپکنے لگے تو سوچ کے نئے زاویے پیدا ہوئے۔ یہ لمحے کا تصور تھا۔ لمحوں نے غور و فکر کے نئے دریچے وا کیے تو وقت ماضی، حال اور مستقبل کے پیمانوں سے ناپا جانے لگا۔ وقت جو گزر گیا، وقت جو لمحہ بھر کے لیے ٹھہر گیا یا جسے انسان نے ثابت گمان کیا۔ پھر وہ وقت جو آنے والا ہے۔
بات مگر یہاں رکی نہیں۔ وقت حیاتِ انسانی پر ایک اور طرح سے اثر انداز ہوا۔ معلوم ہوا کہ زندگی مراحل میں منقسم ہے۔ انسان اس عالمِ رنگ و بو میں آیا۔ کچھ قیام کیا اور پھر رخصت ہو گیا۔ ایک محتاج وجود سے ایک بااختیارمخلوق بنا۔ دھیرے دھیرے اسے ایک بارپھر محتاجی نے آ لیا۔ وقت کی اس کارگزاری کو بھی کوئی نام دینا تھا کہ اس کے بغیر بھی تنظیمِ حیات مشکل تھی۔ یوں بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے تصورات قائم ہوئے۔
کیا اس کے بعد وقت گرفت میں آ گیا؟ اندازہ ہوا کہ شب و روز کی تقسیم کافی نہیں۔ دوپہر، سہ پہر یا شام و سحر سے بھی بات نہیں بنے گی۔ تصورِ وقت کو مزید شکست و ریخت کے عمل سے گزارنا ہو گا کہ اس کے بغیر نظمِ حیات کو وجود میں لانا مشکل ہے۔ اس طرح دن رات چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو گئے۔ گھنٹے منٹوں میں اور منٹ سیکنڈوں میں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی مگر ہم یہاں ٹھہر جاتے ہیں کہ اس کے بعد جو کچھ ہے، اسی تصور کے تحت وقت کی مزید تقسیم ہے۔
وقت کی یہ تمام تر تفہیم عقلی ہے۔ انسان اب محض عقل تو نہیں۔ یہ جذبات بھی رکھتا ہے۔ ان جذبات نے محبت اور انسانی رشتوں کو تخلیق کیا۔ جذبات نے وقت کی اس قید میں رہنے سے انکار کیا۔ لمحہ و ساعت تو کیا، جذبات نے تو زندگی اور موت کی تقسیم کو بھی قبول نہیں کیا۔ محبت نے زمین و آسمان سے لے کر شب و روزتک، وقت کے ہر موجود تصور کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا۔ محبت نے بتایا کہ عقل جس وقت کو اپنی گرفت میں لانا چاہتی ہے، وہ خود انسان کے تصورِ زمان کا اسیر ہے۔ زمانہ ایک نہیں متعدد ہیں: اقبال نے مسجدِ قرطبہ کے شِکوہ کو اس زمانی گرفت سے آزاد ہوتے دیکھا، جو ان کے نزدیک عشق کا مظہر ہے، تو پکار اٹھے:
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
یہاں پہنچ کر وقت طبیعیات کے دائرے سے نکل جا تا ہے۔ اب اس کا ایک نیا تصور ہمارے سامنے ہے، مگر ٹھہریے! وقت اتنی آسانی سے طبیعیات کے دائرے سے کہاں نکلتا ہے۔ تصورِ اضافیت (Theory of Relativity) نے اس تعبیر کو طبیعیات کے دائرے میں قید رکھنے کی کوشش کی۔ آئن سٹائن نے زمان و مکان کی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے، ان کی وحدت کا تصور دیا تو وقت کی ایک نئی تفہیم سامنے آئی۔ سٹیفن ہاکنگ نے وقت کی کہانی لکھی تو انہوں نے وقت کی داستان کوطبیعیاتی پہلو سے بیان کیا۔ میں فزکس کا سطحی علم رکھتا ہوں، اس لیے تفصیل میں جائے بغیر مابعد الطبیعیات کی طرف لوٹتا ہوں۔
کیا وقت کی مابعد الطبیعیاتی تعبیر انسان کی صرف ایک جذباتی ضرورت ہے؟ وقت کی بحث اس موڑ پر‘ اس بنیادی سوال سے جڑ جاتی ہے جو اس کالم کے آغاز میں اٹھایا گیا تھا: تقویم نظمِ حیات کے لیے لازم ہے یا تصورِ حیات کے لیے؟ میرا احساس ہے کہ یہ صرف تنظیمی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ وقت کو محض تنظیمی ضرورت کے پیمانے سے نہیں، ایک تصورِ حیات کے زاویے سے دیکھے۔ یہ کوشش فلسفہ و تصوف نے کی اور مذہب نے بھی۔ فلسفے اور تصوف نے حقیقت مطلقہ کا اصول دیتے ہوئے‘ زمان و مکان کو اس حقیقت کے تنزلات میں شمار کیا۔
تصوف کے مطابق‘ کائنات اور اس کے تصورات اس کے سوا کچھ نہیں کہ نظر کا دھوکہ ہیں۔ ایک عکس جو سرِ آئینہ دکھائی دے رہا ہے۔ نظر تو آتا ہے مگر اپنا وجود نہیں رکھتا۔ انسان کو سلوک کے درجے طے کرتے ہوئے‘ اس حقیقت سے متصل ہو جانا ہے کہ یہی اس کی کامیابی ہے۔ یوں وہ زمان و مکان کی قید سے رہائی پا لے گا۔ اس کے بعد وقت اس کے لیے بے معنی ہے۔ پھر وہ خود وقت ہے۔ رجال الغیب اسی تصورکی دَین ہیں، خضر جس کا استعارہ ہیں۔ یہاں وقت محض ایک تنظیمی ضرورت نہیں کہ معمولاتِ زندگی کو طے کرنے کے لیے لازم تھا۔ وہ ایک تصورِحیات ہے جو مقصدِ حیات بھی طے کرتا ہے۔
مذہب بھی وقت کو اسی طرح دیکھتا ہے مگر اس کا نتیجۂ فکر بالکل مختلف ہے۔ وہ وقت کے دو تصورات دیتا ہے۔ خالق کے لیے وقت کا حوالہ (Frame of Reference) اور ہے اور مخلوق یعنی انسان کے لیے اور۔ انسان کا خالق ہی وقت کا خالق بھی ہے۔ یوں وہ وقت کے تابع نہیں، وقت اس کے تابع ہے۔ مخلوق کا خالق سے اتصال ممکن نہیں۔ اس کی مجبوری ہے کہ اس نے وقت کے اسی تناظر میں جینا اور سوچنا ہے جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا۔ یہ تناظر کیا ہے؟
پیغمبروں نے بتایا کہ یہ دنیا اور آخرت کا تناظر ہے۔ وقت اس کے لیے چار ادوار میں منقسم ہے۔ ایک عالمِ ارواح سے اس زمین پر قدم رکھنے تک ہے۔ دوسرا وہ جو وہ اس زمین کی پشت پر گزارتا ہے۔ تیسرا وہ جوعالمِ برزخ میں گزرتا ہے۔ یہ دوسرے اور چوتھے کے مابین ایک وقفہ ہے۔ چوتھا وہ جب وہ اٹھایا جائے گا، اپنے رب کے حضور میں پیش ہو گا اور دوسرے دور کے اعمال کی بنیاد پر اس کے رہنے کاایک مقام طے کر دیا جائے گا۔ یہ جنت ہو سکتا ہے اور جہنم بھی۔
اس آ خری دور میں دوام ہے۔ پیغمبر بستی بستی صدا دیتے اور اس کی خبر سناتے ہیں۔ کبھی خبردار کرتے اور کبھی بشارتیں دیتے ہیں۔ لوگ انہیں یروشلم کی گلیوں میں دیکھتے ہیں اور کبھی مکہ کے محلوں میں۔ یہ صدا آخری بار مکہ میں گونجی اور پھر مدینہ میں۔ یہ اس شان اور اس یقین کے ساتھ بلند ہوئی کہ قیامت کی صبح تک اس کی صدائے بازگشت سنی جا تی رہے گی۔ یہ آواز قرآن مجید کی سورتوں اور آیات میں محفوظ رہے گی اور آخری رسولﷺ کی سنت کی صورت میں بھی، جس پر صدیوں سے اہلِ ایمان کا عملی تواتر گواہی دے رہا ہے۔
قرآن مجید کا کہنا ہے کہ وقت کا یہ دوسرا دور تمام ہونے کو ہے۔ لوگوں کا یومِ حساب قریب آ چکا مگر وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے ہیں (الانبیا21:1)۔ ختمِ نبوت پر سیاست تو بہت ہوتی ہے مگر کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ لوگو! ختمِ نبوت دراصل قربِ قیامت کی خبر ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے اپنی دو مبارک انگلیاں ہوا میں بلند کیں اور فرمایا: لوگو! میرے اور قیامت کے درمیاں بس اتنا فاصلہ ہے جتنا ان انگلیوں کے درمیان۔
کالم کا عنوان باندھا تو خیال تھا کہ نئے سال کا ذکر کروں گا، جس کا آج سے آغاز ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے۔ سوچا تھا کہ سب کو نئے سال کی مبار کباد دوں گا۔ لوگ بتا رہے ہیں کہ وہ نئے سال میں کیا کیا کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔ خیال تھا کہ سب کو کامیابی کی دعا دوں گا مگر بات کسی اور طرف نکل گئی۔ نیا سال اور ہماری تقویم ایک تصورِ حیات کے تابع ہے، جس کا ایک مظہر نئے سال کا جشن ہے۔ میرا تصورِ حیات مگر مجھے کسی اور طرف لے گیا۔ آپ اسے میری خود کلامی سمجھ کر معاف کیجیے۔ سب کو نیا سال مبارک!