"KNC" (space) message & send to 7575

مسلکی سیاست… (مذہب وسیاست6)

دیوبندی اور بریلوی مسالک کا اختلاف میرے لیے ہمیشہ ایک معمہ رہا۔
دونوں ایک ہی دینی روایت کے علم بردار ہیں۔ دونوں کلام و عقیدہ میں اشعری و ماتریدی نظریات کو ماننے والے ہیں۔ حقیقتِ دین کے باب میں دونوں تصوف کے قائل ہیں۔ دونوں ایک ہی طرح کے صوفی سلاسل سے وابستہ ہیں۔ فقہ میں دونوں حنفی ہیں۔ اخبارات کے مذہبی سوالات کے کالموں میں، دونوں مسالک کے علما ایک ہی طرح کی فقہی کتب کا حوالہ دیتے ہیں۔ مذہب بالعموم انہی تینوں دائروں میں بیان ہوتا ہے۔ دونوں کی ممدوح شخصیات بھی ایک ہیں۔ تاریخ کے باب میں بھی دونوں کا نقطہ نظر ایک ہے۔ دونوں کے مدارس میں کم و بیش ایک ہی طرح کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ جب بنیاد ایک ہے تو پھر یہ اختلاف کیوں ہے؟
ہمارے ہاں جب اِس اختلاف کا ذکر ہوتا ہے تو عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بریلوی مسلک کے لوگ مزاروں اور بزرگوں کو ماننے والے ہیں‘ اور دیوبندی اس کا انکار کرتے ہیں۔ بریلوی بزرگوں کے وسیلے سے مانگتے ہیں اور دیوبندی اسے ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ بات بھی خلافِ واقعہ ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی ماہ و سال میں بھی یہ بحث اٹھی تھی۔ میں اس کے تاریخی سیاق و سباق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، یہ عرض کرتا ہوں کہ اُس دور میں علمائے مدینہ نے چھبیس سوالات علمائے دیوبند کو بھجوائے اور ان کے عقائد براہ راست ان سے جانے۔ یہ جوابات مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے لکھے اور ''المہند علیٰ المفند‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔
ان میں ایک سوال نبیﷺ اور بزرگوں کے توسل (وسیلے) کے بارے میں بھی تھا۔ مولانا سہارن پوری نے تمام علمائے دیوبند کی ترجمانی کرتے ہوئے جواب میں لکھا: ''ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیا، صلحا، اولیا، شہدا اور صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی۔ یعنی کوئی یہ کہے کہ اے اللہ! بوسیلہ فلاں بزرگ تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت روائی چاہتا ہوں تو یہ جائز ہے اور مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہ نے اپنے فتاویٰ میں اس کو بیان کیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اس ہم آہنگی کے باوجود، یہ اختلاف کیوں دکھائی دیتا ہے؟
تاریخی اعتبار سے دیوبندی اور اہلِ حدیث مسالک جس روایت سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں‘ وہ اصلاح پسند (Reformist) کہلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب باربرا مٹکاف نے دیوبندی تحریک کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا تو اس کا عنوان باندھا: ''برطانوی ہند میں اسلام کا احیائ‘‘ (Islamic Revival in British India)۔ ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ اس روایت کی دو بڑی علامتیں ہیں۔ اہلِ دیوبند کا کہنا ہے کہ وہ شاہ اسماعیل شہید کی روایت کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ روایت علمی ہے اور عملی بھی۔
شاہ اسماعیل شہید، سید احمد بریلوی کے ساتھی اور شاہ ولی اللہ کے پوتے تھے۔ شاہ صاحب کی تحریروں میں اپنے دادا کی طرح کے خیالات ملتے ہیں۔ ایک طرف جب عامۃالناس کے لیے دین بیان کرتے ہیں تو اس میں ابن تیمیہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ایسا دین جس میں انہیںکسی عجمی ملاوٹ کا شائبہ بھی برداشت نہیں۔ اس باب میں ان کا لہجہ بھی بہت سخت ہوتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی 'حجۃ اللہ البالغہ‘ اور شاہ اسماعیل کی ''تقویۃ الایمان‘‘ میں اس کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف جب وہ تصوف کی دنیا میں قدم رکھتے اور خواص کا دین بیان کرتے ہیں تو پوری طرح مقامی روایت میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں شاہ ولی اللہ کی فیوض الحرمین، سطعات سمیت متعدد کتب اور شاہ اسماعیل شہید کی ''عبقات‘‘ کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس تضاد کو اپنے معرکہ آرا رسالے 'تجدید و احیائے دین‘‘ میں بیان کیا ہے۔ 
شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ''تقویۃ الایمان‘‘ شائع ہوئی تو ہندوستان میں ایک مذہبی بحث کا آغاز ہو گیا۔ شاہ صاحب کے لہجے میں شدت تھی جس کا ردِ عمل ہوا۔ ایک مسئلہ جس نے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیوبندی بریلوی تقسیم کی بنیاد رکھ دی، ''نظریہ امتناعِ نظیر‘‘ تھا۔ 
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے والد مولانا تقی علی خان نے 'تقویۃ الایمان‘ کے رد میں ایک کتاب لکھی۔ وہ مولانا خیر آبادی کے مؤقف کے قائل تھے۔ بعد میں مولانا احمد رضا خان بریلوی اس بحث کا حصہ بنے۔ چونکہ علمائے دیوبند اپنی نسبت شاہ اسماعیل شہید سے جوڑتے تھے، اس لیے وہ مولانا بیلوی کی تنقید کی زد میں آئے۔ اس تنقید میں بلا کی شدت تھی۔ اس سے پورے برصغیر میں دو نقطہ ہائے نظر پیدا ہو گئے اور اختلافی مباحث کا دائرہ بھی پھیلتا چلا گیا۔ تاہم باربرا مٹکاف کی تحقیق کے مطابق، انیسویں صدی کے آخر تک ہمیں بریلوی مکتبِ فکر کے عنوان سے مدارس کا وجود نہیں ملتا‘ اگرچہ مولانا احمد رضا خان کے والدِ گرامی نے ایک مدرسہ قائم کر رکھا تھا۔ دارالعلوم دیوبند 1866ء میں قائم ہو چکا تھا۔
جیسے جیسے اختلافی نقطہ ہائے نظر کو پذیرائی ملتی گئی، ان کے حاملین کی تعداد بڑھتی گئی اور یوں تدریجاً ایسے مدارس پیدا ہو گئے‘ جنہوں نے بریلوی شناخت اختیار کر لی۔ جیسے بریلی کا مدرسہ، لاہور کا دارالعلوم نعمانیہ جو 1887ء میں قائم ہوا تھا اور بعد میں بریلوی مسلک سے منسوب ہوا۔ اسی طرح لاہور ہی میں 1920ء میں مولانا بریلوی کے شاگروں نے دارالعلوم حزب الاحناف قائم کیا۔ ان مدارس میں ان مسائل پر زیادہ توجہ دی جانے لگی جو اختلافی تھے۔ جیسے مسئلہ علمِ غیب، حاضر و ناظر، نور بشر۔
نقطہ ہائے نظر کے اس اختلاف کا سبب، میرا خیال ہے کہ دین کے دائرے میں مقامی تہذیبی اقدار کا تعین ہے۔ اصلاح پسند تحریکوں میں عام طور پر اصرار ہوتا ہے کہ دین کے باب میں جزئیات تک اصل ماخذ ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس سے انحراف کو بدعت کہا جاتا ہے۔ اس اصرار کے نتیجے میں عرب رواج کو بھی دین کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ عرب کلچر کو بھی دین ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسی کے زیرِ اثر اہل حدیث اور دیو بندی روایت میں عجمی رسوم و رواج کو غیر اسلامی قرار دینے کا رجحان عام ہے۔
اس کے برخلاف دوسری تعبیر میں مقامی تہذیبی رنگ کو قبول کیا جاتا ہے۔ صوفی روایت اسی کا مظہر ہے۔ بریلوی چونکہ صوفی روایت کو قبول کرتے ہیں، اسی لیے ان کے ہاں ایسی بہت سی روایات کو اختیار کر لیا گیا ہے جن کا ماخذ مقامی تہذیب ہے، جسے اصلاح پسند بدعات کے دائرے میں شمار کرتے ہیں۔ کوئی مسئلہ جب افراط و تفریط کی نذر ہو جائے تو پھر انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ اسی نے، ایک بنیاد ہونے کے باوجود، دیوبندیوں اور بریلویوں کو دو مسالک میں تقسیم کر دیا۔ 
مولانا احمد رضا خان کی دلچسپی کے میدان متنوع تھے مگر وہ زیادہ تر مذہبی اور علمی دائرے ہی میں رہے۔ عملی سیاست سے انہیں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ انہوں نے بعض سیاسی معاملات میں کوئی موقف اختیار کیا تو وہ علمی رائے کی حد تک تھا۔ تاہم بعد میں جب بریلوی ایک باضابطہ جماعت بن گئے تو انہوں نے گروہی حیثیت میں سیاسی مؤقف بھی اختیار کیا۔ اس کے برخلاف علمائے دیوبند نے آغاز ہی سے عملی سیاست میں بھرپورحصہ لیا۔ 
سیاست میں دیوبندی اور بریلوی مسالک کا موقف کیا رہا؟ اس سوال کے جواب کے لیے اُس فکری پس منظر کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے جو آج کے کالم میں بیان ہوا۔ بعد کے کالموں میں انشااللہ اس سوال کا براہ راست جواب تلاش کیا جائے گا۔ جب تک یہ تاریخی سیاق و سباق سامنے نہ ہو، آج کی مسلکی سیاست کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہے۔ 






 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں