زینب کے غم زدہ باپ نے انصاف کے لیے فریاد کی تو فوج کے سربراہ سے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور اس آواز پر لبیک کہا؟ سوال یہ ہے کہ ایک پریشان حال نے یہ فریاد آرمی چیف ہی سے کیوں کی؟
ریاست کے داخلی معاملات سے فوج کا کوئی سروکار نہیں ہوتا الا یہ کہ حکومت اسے کوئی ذمہ داری سونپے۔ شہریوں کے جان و مال کو اگر داخلی سطح پر کسی خطرے کا سامنا ہے تو یہ کام اصلاً حکومت کا ہے کہ وہ اس کا سدِ باب کرے۔ فوج کی نظر خارجی خطرات پر ہوتی ہے۔ اس کی نگاہیں ہر وقت سرحدوں کا طواف کر تی رہتی ہیں۔ فوج کی آنکھ ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ فوج کی وجہ سے قوم کو احساسِ تحفظ ملتا ہے کہ خارج سے کوئی اس پر حملہ آور نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ کہ جب خطرہ داخلی ہے تو ایک عام شہری فوج کے سر براہ کو کیوں آواز دے رہا ہے؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ عام آدمی سول حکومت سے مایوس ہے۔ اسے انتظامیہ سے کوئی امید نہیں کہ وہ اسے تحفظ فراہم کرے گی۔ حکومت اور پولیس جیسے سویلین اداروں سے اس کی مایوسی اتنی بڑھ چکی کہ اسے فوج ہی نجات دہندہ دکھائی دیتی ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ خیال جڑ پکڑ چکا کہ اس کے مسائل کا مداوا فوج ہی کر سکتی ہے۔ اس لیے وہ مصیبت کی کھڑی میں داد رسی کے لیے آرمی چیف کو پکارتا ہے۔
مجھے یہ جواب مطمئن نہیں کرتا بلکہ مزید سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک یہ کہ عام آدمی تو ڈاکٹر اور حکیم سے بھی مایوس ہے۔ جس سے ملو، طبیبوں کی شکایت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کہ حکیم جعلی ہیں‘ ڈاکٹر لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کرتے‘ پیسے بٹورنے کے لیے ٹیسٹ پہ ٹیسٹ کرواتے چلے جاتے ہیں‘ یہ لیبارٹری والوں سے ملے ہوتے ہیں‘ یہ ادویات ساز کمپنیوں سے پیسے لیتے ہیں۔ ہر آ دمی کم و بیش اسی طرح کی بات کرتا سنائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ طبیبوں سے مایوس ہو کر، وہ دوا کے لیے کسی قصائی یا درزی کے پاس کیوں نہیں جاتا؟ ڈاکٹرز سے مایوسی اسے ایک اور ڈاکٹر ہی کے پاس کیوں لے جاتی ہے؟
دوسرا یہ کہ اس ملک میں برسوں مارشل لا نافذ رہا ہے۔ یہاں سویلین لوگوں سے زیادہ فوج نے حکومت کی ہے۔ کیا فوجی ادوار میں عام آدمی کے سب دکھ درد دور ہو گئے تھے؟ کیا جرائم ختم ہو گئے تھے؟ یہ ہتھوڑا گروپ کس دور میں تھا؟ سو بچوں کا قاتل کس عہد کی یادگار ہے؟ یہ دہشت گردی کا عفریت کس دور میں آیا تھا؟ یہ کس دور کا واقعہ ہے جب دہشت گردوں کے خوف سے ساٹھ فی صد آبادی نفسیاتی مریض قرار پائی تھی؟ اگر فوج ہی قاتلوں سے نجات دلا سکتی ہے تو مارشل لا کے ادوار میں قتل کا جرم ختم کیوں نہیں ہوا؟
یہ سوالات جب میرے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں تو میں اُس جواب پر نظر ثانی کے لیے مجبور ہو جاتا ہوں جو عقل نے بڑی سادگی سے تراشا ہے اور سچ پوچھیں تو جس نے ہر آدمی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ پھر مجھے یہ استدلال کمزور دکھائی دیتا ہے۔ مزید غور و فکر ایک دوسری جانب میری راہنمائی کرتا ہے۔
اس ملک میں بڑی مہارت سے ایک سیاسی بیانیے کو مقبول بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت فوجی حکومت، ایک سیاسی حکومت کا بہتر متبادل ہوتی ہے۔ صدیوں پہلے دنیا میں بادشاہ حکومت کرتے تھے۔ صرف ہمارا نہیں، اہلِ یورپ کا تجربہ بھی یہی ہے۔ ایک فردِ واحد جو تنہا اقتدار کا ماخذ ہے۔ ہماری کہانیوں میں اچھے اور برے بادشاہوں کا ذکر ملتا ہے۔ ہم بچپن ہی سے نیک دل اور ظالم بادشاہ کی کہانیاں پڑھتے ہیں۔ اقتدار کے باب میں یہ ہماری فطرتِ ثانیہ بن گئی ہے کہ ہم کسی نجات دھندہ کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ہم ہیرو کا ایک تصور رکھتے ہیں جو تنِ تنہا ساری دنیا کو بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
یورپ ایک بڑی فکری اور سماجی تبدیلی سے گزرا۔ وہاں ایک شعوری تبدیلی آئی۔ اس کے نتیجے میں بادشاہت کی جگہ جمہوریت آ گئی۔ چونکہ یہ ایک فطری اور شعوری تبدیلی کا نتیجہ تھا، اس لیے ایک مسلسل فکری تربیت کے بعد، اجتماعی نفسیات سے بادشاہت کا تصور بڑی تک ختم ہو گیا۔ اب وہاں لوگ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نجات کا راستہ اجتماعی دانش ہی تجویز کر سکتی ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے ہاں جمہوریت کا تصور پختہ نہیں ہو سکا۔ ہم مغل اور پھر انگریز بادشاہوں کے دور سے نکلے تو چند سال بعد ہی مارشل لا کے دور میں داخل ہو گئے۔
مارشل لا کو اپنے جواز کے حق میں دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دوران میں ایک منظم طریقے سے سیاست دانوں کے نقائص بیان کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ کیسے فردِ واحد کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو اس سے عوامی مسائل بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں۔ ضیاالحق صاحب پر اسلام کا غلبہ تھا، اس لیے وہ یہ ثابت کرنے میں مصروف رہے کہ اسلام کی نظر میں سیاسی جماعتیں حرام ہیں۔ مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم نے اسی دور میں کتاب لکھی اور یہ بتایا کہ کیسے اسلام میں سیاسی جماعتوں کا قیام ممنوع ہے۔
مارشل لا کو جواز بخشنے کے لیے یہ بتایا جاتا ہے کہ فوجی حکومت سول حکومت سے بہتر ہوتی ہے۔ آج بھی حیلوں بہانوں سے لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور میں معیشت ترقی کر رہی تھی۔ مشرف دور میں آج سے زیادہ امن تھا۔ آج بھی مسلسل یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ خارجہ امور اور معیشت کے باب میں فوجی قیادت سویلین قیادت سے بہتر وژن رکھتی ہے۔ یہ کام برسوں محنت اور تسلسل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ اب لوگوں کی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔
یہ خیال کیسے غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتا ہے، اس کا ایک مظاہرہ میں نے کل دیکھا۔ بھارت کے آرمی چیف نے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا۔ اس پر پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے ردِ عمل کا اظہارکیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی۔ ایک ٹی وی چینل پر میں نے ہیڈ لائنز دیکھیں۔ چینل نے ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان پہلے چلایا اور وزیر خارجہ کا بعد میں۔ جہاں تک پروٹوکول کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ وزیر خارجہ کا درجہ کہیں زیادہ ہے۔ اب جو نیوز ایڈیٹر چینل میں بیٹھا ہوا ہے، اس کے خیال میں فوج کے ترجمان کی اہمیت وزیر خارجہ سے زیادہ ہے۔ یہ ہے وہ نفسیات جو پروپیگنڈے کے نتیجے میں بن چکی ہے۔
ایڈیٹر کی نفسیاتی ساخت یہ بن گئی ہے تو عام آدمی کا ذہن اس کے مقابلے میں زیادہ اثر قبول کرتا ہے۔ اب اگر زینب کا باپ انصاف کے لیے آرمی چیف کو پکارتا ہے تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ وہ اگر پولیس سے یا سول انتظامیہ سے مایوس ہوتا ہے تو اس کی نظر فوج ہی پر پڑتی ہے۔ اسے کوئی اور متبادل دکھائی نہیں دیتا۔ اگر ایک عام آدمی سے پوچھیں تو اس کی نظر میں کرپشن بڑا جرم ہے اور آئین توڑنا کوئی جرم ہی نہیں۔
جمہوریت کی کامیابی کے لیے ہمیں اس نفسیاتی ساخت (mindset) کو بدلنا ہے۔ ہمیں عام آدمی کو یہ باور کرانا پڑے گا کہ جس طرح وہ ایک ڈاکٹر سے مایوسی کے بعد کسی درزی کے طرف نہیں، کسی دوسرے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے، اسی طرح اگر وہ ایک سیاسی جماعت سے مایوس ہوتا ہے تو اسے کسی دوسری سیاسی جماعت کی طرف رخ کرنا چاہیے، فوج کی طرف نہیں۔ فوج سیاسی جماعت نہیں ہے، وہ ایک قومی ادارہ ہے جس کا کام ملک کا دفاع ہے۔
جو لوگ فوج کو سیاسی حکومت کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہ دراصل اس کو متنازع بناتے ہیں۔ یہ لوگ فوج کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ ایک پاکستانی کا تعلق جس بھی سیاسی جماعت سے ہو، فوج اس کے لیے یکساں محترم ہے۔ فوج کسی کا متبادل ہے نہ فوج کا کوئی متبادل ہے۔