میری یہ رائے دن بدن پختہ ہوتی جا تی ہے کہ ہماری حکومت مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے باب میں شدید فکری پراگندگی میں مبتلاہے اوریہ بدقسمتی سے روز افزوں ہے۔ 'نیکٹا‘نا م سے ایک ادارہ تشکیل دیاگیا جس کو یہ ذمہ دار سونپی گئی کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک قومی بیانیہ تیار کرے۔ دو سال سے یہ کام نہیں ہو سکا۔ اس دوران میں بہت سے غیر سرکاری ادارے کئی بیانیے دے چکے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ ''پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے سامنے آنے والی دستاویز ہے ۔
اس کی اہمیت یہ ہے کہ اسے ادارہ تحقیقات ِ اسلامی نے تیار کیامگر اسے صدرمملکت نے جاری کیا۔ اجرا کے موقع پر وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے ساتھ تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علما موجود تھے۔ اس کی اساس ایک فتویٰ ہے جو تمام مکاتبِ فکر کے راہنماؤں نے جاری کیا۔ مئی 2017ء میں علما کو جمع کیا گیا۔ انہوں نے ایک فتویٰ دیا۔ پھر اس فتوے کے حق میں مزید تائید حاصل کی گئی اور ساتھ ہی اسے ایک بیانیے میں ڈھالا گیا‘ جسے اس وقت 1829 علما اور سکالرز کی تائید حاصل ہے۔
بطور فتویٰ اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ تمام مسالک کے علما نے ایک متفقہ موقف اپنا یا ہے جس میں مسلح جہاد اور قتال کو ریاست کی ذمہ داری اور نجی جہاد کو ریاست کے خلاف بغاوت قرار دیا گیا ہے۔ بزور دوسروں پر اپنے خیالات کو مسلط کرنا، ان علما کے نزدیک فساد فی الارض ہے جس کی قرآن مجید نے عبرت ناک سزا تجویز کی ہے۔ دینی شعائر اور نعروں کو نجی عسکری مقاصداورمسلح طاقت کے حصول کے لیے استعمال کوبھی قرآن وسنت کے منافی کہا گیا ہے۔ اس بیانیے میں یہ کہا گیا ہے کہ عالم یا مفتی کسی معاملے میں یہ رائے تو دے گا کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے یا غیر اسلامی ہے لیکن وہ کسی فرد یا گروہ کو کافر یا غیر مسلم نہیں قرار دے سکتا۔ یہ کام ریاست کا ہے۔
میرے لیے یہ ذاتی خوشی کا موقع ہے کہ میں گزشتہ کئی سالوں سے قومی صحافت میں تنہا یہ آواز اٹھاتا رہا۔ اہلِ علم میں میرے استاد جاوید احمد صاحب غامدی نے جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ موقف پیش کیا اور اس کی پاداش میں انہیں پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی۔ مولانا حسن جان کو شہید کیا گیا۔ اسی کا آوازہ بلند کرتے کرتے میرے دوست ڈاکٹر فاروق خان نے جامِ شہادت نوش کیا۔ مفتی محمد سرفراز نعیمی بھی شہید ہوئے۔
آج علما کی طرف سے بھی اسی موقف کا اظہارکیا گیاہے توبہت خوش آئند ہے اور اس کا خیرمقدم کر نا چاہیے۔ کوئی کام جب بھی اورجس سطح پر بھی خیر کو فروغ دے ،اس کا خیر مقدم کر نا چاہیے۔ اجرا کی تقریب میں بعض علما نے بتایا کہ وہ انفرادی اور گروہی سطح پر پہلے بھی خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے ہیں تاہم اجتماعی سطح پر شاید یہ پہلی کوشش ہے جس میں دیگر امور کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کاوش کو سراہنے کے ساتھ ساتھ، میرا کہنا یہ بھی ہے کہ اگرادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تھا توبہتر ہوتا کہ اس میں وہ سب امور شامل کیے جاتے جن سے فساد فی الارض یاانتہا پسندی کے پیدا ہونے کا امکان مو جود ہے۔
میرے نزدیک تین اہم باتوں کو اگلے مرحلے میںمتفقہ فتوے اور بیانیے کا حصہ ہونا چاہیے۔
1 ۔ جن ممالک کے ساتھ ریاست پاکستان کے سفارتی تعلقات اور معاہدے موجود ہیں،ان کے خلاف،پاکستان کے شہریوں کی طرف سے کوئی مسلح اقدام، کیا جائز ہے؟ پاکستان کو عالمی سطح پر جس دباؤ کا سامنا ہے، اس کے پس منظر میں، اس سوال کی اہمیت بنیادی ہے۔ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جب ایک مسلم ریاست کسی دوسری ریاست کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتی ہے تو اس مسلم ریاست کے تما م شہری شرعاً اس معاہدے کے پابند ہوتے ہیں۔لازم ہے کہ اس باب میں پاکستان کے شہریوں کو دین کا نقطہ نظر واضح طور پر بتایا جائے۔
2۔ مسلح جہاد یا قتال کی طرح مجرموں کو سزادینا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی شہری اپنے طور پر کسی کو مجرم قرار دیتا اور اور پھر خودہی سزا بھی نافذ کر دیتا ہے تو اس کی سزا کیا ہے؟ اگر کچھ لوگ ایسے مجرموں کے پشت بان بن جائیں تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟ اگر نجی طور پر مسلح جہاد ،ریاست کے خلاف بغاوت ہے تو کیایہ فعل بغاوت نہیں ہو گا؟ معاشرے کو اس حوالے سے راہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
3۔ کچھ مذہبی‘ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی بیانیوں میں مخالفین کے لیے بے تکلف دینی اصطلاحوں کو استعمال کرتی ہیں۔ جیسے سیاسی اختلاف کو یزیدی اور حسینی قوتوں کے اختلاف کی صورت میں بیان کیا جا تا ہے۔ یہ بھی خلفشار کا ایک سبب ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو جس بے دردی سے استعمال کیا جا تا ہے، لازم ہے کہ اس کے تدارک کا بھی اہتمام ہو۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس بیانیے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اس کا باضابطہ اجرا صدرِ مملکت کی طرف سے ہوا۔ وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے اس کی تائید کی۔ گویا ریاست نے اسے اختیار کر لیا۔ ہمارے آئین کے مطابق قانون سازی کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو اس دستاویز کی ایک اخلاقی حیثیت تو ہو سکتی ہے، قانونی نہیں۔ اب اس کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسا آئینی ادارہ اس دستاویز کو اختیار کر لے اور اسے بطور سفارش پارلیمان کو بھیجے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے 'پیغامِ پاکستان‘ کی توثیق کی ہے لیکن اس باب میں ایک قدم مزید اٹھانا چاہیے۔
یہ بیانیہ اُسی وقت ایک سماجی تبدیلی کی ا ساس بن سکتا ہے‘ جب یہ مدارس کے نصاب اور ماحول کا حصہ بن جائے۔ اسے طالب علموں کو پڑھایا جائے۔ اس کی روشنی میںاساتذہ کی تربیت کی جائے۔ اس کی عملی شہادت یہ ہوگی کہ محراب و منبر سے وہ دین بیان کیا جا ئے جس کا اظہار اس فتوے اوربیانے میں ہوا ہے۔ یہ بھی ضروری ہو گا کہ اس وقت جو آئمہ اور خطبا ہیں،ان کے لیے بھی 'پیغامِ پاکستان‘کی روشنی میں تربیتی ورکشاپس منعقد کی جائیں۔
یہ بھی لازم تھا کہ اس بیانیے میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا الگ سے ذکر ہوتا۔ اجرا کی تقریب میںمفتی منیب الرحمٰن صاحب نے اپنی تقریر میں اس پہلو کو بہت مؤثر انداز سے بیان کیا۔ اگر ان کی بات فتوے اور بیانیے میں اس وضاحت کے ساتھ موجود ہوتی تو زیادہ بہتر تھا۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ اقلیت کی اصطلاح کو اب ترک کر دینا چاہیے۔ اگر کہیں مذہب کی تقسیم کا تذکرہ ناگزیر ہو توہمیں مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی بات کر نی چاہیے۔
آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دینی مدارس سے وابستہ لوگ اس فتوے اور بیانیے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس سے اہم تر یہ کہ کیا یہ فتویٰ ہمارے روایتی دینی نظام کی روح میں سرایت کر سکے گا؟ میرے نزدیک اس وقت جو علم دیا جا رہا ہے، یہ اس فتوے کی پشت پر نہیں کھڑا ۔مجھے خدشہ ہے کہ محض ریاستی دباؤ سے اگر کوئی اتفاقِ رائے قائم ہو بھی گیا تو وہ مؤثر نہیں ہو گا۔
میں نے ان مسائل اور خدشات کا ،اس لیے ذکر کیا ہے کہ اخلاص اور نیک نیتی سے کی گئی اس کوشش کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ اس میں اگر کوئی کمی رہ گئی تواسے دور کیا جائے اور اس کے بعد جو اقدامات ناگزیر ہیں،وہ کئے جائیں۔ اس بیانیے کے لیے دوسرے طبقات کی تائید حاصل کی جائے۔ ہر دستاویزکو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک قابلِ عمل حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی نتیجہ خیزی کا مطلب ایسا پاکستان ہے جس میں کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسی کوششوں کو کامیاب کرے اور ان لوگوں کو اجر عطا کرے جنہوں نے خلقِ خدا کو خوف اور بد امنی سے نکانے کی کوشش کی ہے۔