تاریخ عبرت کے لیے ہوتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ زیبِ داستاں کے لیے ہے۔ یہ عبارت آرائی کا سامان ہے یاپھر مجلس آرائی کا۔ اگر نہیں ہے تو عبر ت کا۔
شیخ مجیب الرحمن کا قصہ دیکھ لیجیے!نوازشریف صاحب نے بطور تاریخی حوالہ ان کا ذکر کیا۔ مقصود عبرت دلانا تھا کہ جب ایک راہنما کو عوام کی غیر معمولی تائید میسر ہو، جسے ابن خلدون عصبیت کہتے ہیں‘ تو اسے مصنوعی طریقوں سے سیاسی عمل سے الگ کرنا ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اب ہوا یہ کہ اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے لوگ نوازشریف صاحب پر برس پڑے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ وہی طرزِ عمل ہے جو مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے شیخ مجیب الرحمن کے معاملے میں اختیار کیاتھا۔ گویا ہم نے تاریخ سے عبرت نہیں پکڑی۔
پاکستانی اہلِ صحافت میں جو لوگ شیخ مجیب الرحمن کے شدید مخالفین میں شمار ہوتے ہیں، ا ن میں محترم ومکرم الطاف حسن قریشی بھی شامل ہیں۔'چھ نکات کی سچی تصویر‘ اور 'محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘، ان کی وہ مشہور ِ عالم تحریریں ہیں جنہوں نے مغربی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں ایک رائے بنائی جو مثبت نہیں تھی۔جون 1969ء میں قریشی صاحب نے ان کا ایک انٹرویو کیا جو'اردوڈائجسٹ‘ کے جولائی کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس انٹرویو کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرویو نگار شیخ صاحب کے خیالات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میرا تاثر ان سے مختلف ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ 1969 ء تک علیحدگی کی طرف مائل نہیں تھے۔
قریشی صاحب نے مشرقی پاکستان کے عوام کی محبت کا ذکر کیا تو شیخ مجیب الرحمن نے کہا ''ہمارے اور آپ کے عوام ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ پاکستان بر صغیر میں مسلمانوں کی متحدہ کوششوں کے نتیجے میں، دنیا کے نقشے پر ابھرا تھااور ان شاء اللہ اس کا پرچم ہمیشہ سر بلند و سرفراز رہے گا۔ میرے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا ہوں۔ یہ سراسر بہتان اور افترا ہے۔ اگر میرا منصوبہ اسے آزاد کرانے کا ہوتا تو میں 22 فروری 1969ء کو اس کا اعلان کر سکتا تھا، میں جب جیل سے باہر آیا تب لاکھوں انسان میرے گرد جمع تھے۔ میں ریس کورس میدان میں علیحدگی کا اعلان کر سکتا تھا۔ اس وقت مجھے روکنے والا کون تھا؟ میں نے ایسا نہیں کیاکیونکہ میں نے پاکستان کی تشکیل میں اپنا خون دیا ہے اور میں وطن کی سلامتی کے لیے جد وجہد کر تا رہوں گا‘‘۔
اس جواب پر قریشی صاحب نے سوال کیا: ''مگر آپ کے چھ نکات تو کچھ اور کہتے ہیں؟‘‘ اس پر شیخ مجیب الرحمن کا جواب سنیے ''قریشی صاحب !چھ نکات قرآن اور بائبل تو نہیں اور ان پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ میں آپ کو صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ چھ نکات ظالم طبقے کے خلاف مظلوموں کی دلدوز آواز ہے۔ ہمیں مغربی پاکستان کے عوام سے کوئی کد نہیں اور وہاں کی خوش حالی ہماری اپنی خوش حالی ہے۔ ہمیںصرف اس طبقے سے نفرت ہے جس نے کبھی سرکاری افسروں اور کبھی صنعت کاروں کے روپ میں ہمارے حقوق پر ڈاکے ڈالے اور بدقسمتی سے ان سب کا تعلق مغربی پاکستان سے ہے۔‘‘
اسی انٹر ویو میں انہوں نے دوسری بار کہا ''میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ چھ نکات قرآن اور بائبل نہیں۔یہ تو میں نے سیاسی سمجھوتے کے لیے پیش کیے تھے مگر بعض اخبارات اور قائدین انہیں ایک دوسرے رنگ میں پیش کر رہے ہیں۔ گفتگو اور بات چیت کے ذریعے ایک سیاسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘
یہی نہیں وہ مسائل کے حل کی ایک معقول تجویز پیش کرتے ہیں ''اس مقصد کے لیے ماہرینِ اقتصادیات کی ایک کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ دو رکن مشرقی پاکستان کے ہوں اور دو مغربی پاکستان کے۔ ضرورت ہو تو باہر سے بھی کسی بین الاقوامی شہرت کے ماہر کو بلایا جا سکتا ہے۔ یہ کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی ،ہمیں منظور ہو گا۔‘‘ وہ مزید اپنا موقف بیان کرتے ہیں ''میں سچ کہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے لوگ سخت دشواریوں کا شکار ہیںاور صرف ا ن کا مداوا چاہتے ہیں۔ آپ خود ہی سوچیے کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری آبادی 56فی صد ہے۔ مغربی پاکستان علیحدگی کاتصور کر سکتا ہے مگر ہم بالکل نہیں کر سکتے۔‘‘ ان کو گلہ ہے کہ ''میرے صوبے کے چار سو افراد نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لے رکھی ہیں مگران پر اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہیں‘‘۔
اس انٹر ویو سے بالکل واضح ہے کہ وہ مسائل کا ایک سیاسی حل چاہتے تھے۔ وہ چھ نکات سے پیچھے ہٹنے پر بھی آمادہ تھے۔ اگر اس وقت پاکستان کی قیادت جنرل یحییٰ خان کے بجائے کسی ہوش مند شخص کے پاس ہوتی تو اُس بحران سے محفوظ رہا جا سکتا تھا جس کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعد کے ماہ وسال میںشیخ مجیب الرحمن کے اندر مو جود سیاست دان پر ایک باغی غالب آگیا۔ ردِ عمل کی نفسیات اسے وہاں لے گئی کہ اس نے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دیا۔ ہمیں لیکن یہ تسلیم کر ناپڑے گا کہ اس باغی کو ابھارنے میں سب نے بھرپور کردار ادا کیا جن میں حکومت کے ساتھ مغربی پاکستان کے اکثر سیاست دان بھی شریک تھے۔
لوگ ان کے انٹر ویو کا حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے 1972ء میں بی بی سی کو دیا۔ اس میں انہوں نے یہ کہا کہ 'میں 1948ء سے آزاد بنگلہ کے لیے کام کر رہا تھا۔‘‘ میرا خیال ہے یہ ایک روایتی سیاست دان کا بیان ہے جو ایک نئے ملک کی تشکیل پر بابائے قوم بننا چاہتا ہے۔ 1948ء میں ان کی عمرمحض28 سال تھی ۔
اگر ہم شیخ مجیب الرحمن کے اس قصے کو اس زاویے سے دیکھیں تواس میں عبرت کا بہت سامان ہے۔ 1970ء کے انتخابات سے پہلے اگر ان سے معاملہ کر لیا جاتا تو انہیں چھ نکات سے پیچھے لا یا جا سکتا تھا۔ جب انہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی اور پھرا نہیں حکومت بنانے سے روکا گیا تو اس کے بعد وہی ہونا تھا جو ہوا۔ بھارت کی قیادت احمق ہوتی اگر وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاتی۔ شیخ مجیب الرحمن کے بعد بھٹو کے ساتھ بھی کم و بیش یہی معاملہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ہم ان واقعات سے سبق لیتے ہوئے اس سلسلے کو یہاں روکنا چاہتے ہیں یا اسے نوازشریف تک دراز کر نا چاہتے ہیں۔
میرے خیال میں ایک بار پھر لوگ ان کی بات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے بجائے، نواز شریف کو مجیب الرحمن بنانا چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب ، عمران خان اور دوسرے لوگوں کی سیاست آج بھی وہی ہے جو 1969-70 ء میں مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تھی۔ اگر ان میں تاریخی شعور ہوتا تو وہ اپنا وزن ترازو کے دوسرے پلڑے میں ڈالتے۔
تاہم1970ء اور آج کے حالات میں ایک جوہری فرق ہے جو امید کی کرن ہے۔ آج فوج کی قیادت کسی جنرل یحییٰ خان کے پاس ہے اور نہ ہی ملک میں مارشل لا ہے۔ اگر کچھ صاحبان ِخیر آگے بڑھیں تو حالات کو سنبھالا دیاجا سکتا ہے۔ کاش آج ہماری صفوں میں مولانا ظفر احمد انصاری جیسی کوئی شخصیت ہوتی۔ وہ تو نہیں ہیں لیکن جناب مجیب الرحمن شامی جیسے لوگ تو ہیں جنہوں نے مولانا انصاری کو دیکھا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی بحرانی کیفیت میں، وہ کیسے بے لوثی کے ساتھ مفاہمتی کردار ادا کرتے تھے۔
کیا ہماری صفوں میں کوئی ایک مولانا انصاری جیسا رجلِ رشید ہے؟ اگر نہیں تو پھر سب کو مل کے قحط الرجال کا ماتم کرنا چاہیے اور اس نتیجے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو کسی بھی قحط کا ہوسکتا ہے۔