اسلام کا تنہا ماخذ رسالت مآبﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ قیامت کی صبح تک وہی چیز دین قرار پائے گی جس پر آپؐ کی مہرِ تصدیق ثبت ہو گی۔ آپؐ نے جو دین اس امت کو منتقل کیا، اس کو تین صورتوں میں محفوظ کر دیا گیا۔ قرآن مجید، سنت اور اسوہ حسنہ۔ قرآن مجید اللہ کتاب ہے جو آپؐ پر نازل ہوئی۔ سنت انبیاؑ کا وہ طریقہ ہے جس کو اپنی تجدید، اضافے اور اصلاح کے بعد، آپﷺ نے اس امت میں جاری فرمایا۔ صحابہ کرامؓ کا اجماع اور تواتر اس پر فیصلہ کن شہادت ہے۔ تیسری چیز آپؐ کا اسوہ حسنہ ہے۔ قرآن و سنت میں جو دین بیان ہوا، آپؐ نے اس پر عمل کرتے ہوئے، اس کو آئیڈیل صورت میں ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب حسنِ عمل کا واحد معیار یہ ہے کہ کون اس آئیڈیل سے قریب تر ہے۔
اس دین کا پوری طرح ابلاغ ہو چکا اور اس کا کوئی جزو ایسا نہیں جو روزِ روشن کی طرح عیاں نہ ہو۔ یہ دین اتنا واضح ہے کہ آپﷺ کے بعد اب کسی پیغمبر اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آپؐ نے کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی اور نہ ہی اس دین کا کوئی حصہ ایسا ہے جس کو آپؐ نے صرف مخصوص لوگوں کو بتایا ہو اور اس کا ابلاغِ عام نہ کیا۔ آپؐ کا منصب، قرآن مجید نے یہ بتایا کہ جو کچھ آپؐ پر نازل ہو رہا ہے، آپؐ اس کا ابلاغِ عام کریں۔ اور اگر آپؐ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپؐ نے منصبِ رسالت کا حق ادا نہیں کیا (المائدہ5:67)۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کے اجتماع کو گواہ بنا کر پوچھا کہ کیا میں نے دین تم تک پہنچا دیا۔ سب نے گواہی دی کہ آپؐ نے دین پہنچا دیا۔ اس کے بعد آپؐ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا: اے اللہ تو بھی گواہ ہو کہ میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔ اس لیے اس دین کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے، چاہے وہ سماجی زندگی سے متعلق ہو یا روحانیت سے، جس کا آپؐ نے ابلاغِ عام نہ کیا ہو۔
یہ دین جس روحانیت کی بات کرتا ہے، وہ کوئی پُراسرار واقعہ نہیں۔ یہ ایک شفاف اور قابلِ فہم تصور ہے۔ یہ قرآن و سنت میں بیان ہو گیا اور آپؐ نے اپنے اسوہ حسنہ سے اسے مجسم کر دیا۔ یہ دین جس توحید کی بات کرتا ہے، وہ قرآن مجید میں بیان کر دی گئی۔ یہی عوام کی توحید ہے اور یہی خواص کی توحید بھی ہے۔ اس میں کوئی ابہام ہے‘ نہ اس کا کوئی حصہ پوشیدہ۔ یہ توحید وہی ہے‘ جسے تمام انبیاؑ نے بیان کیا۔ اس کا خلاصہ سورہ اخلاص میں بیان ہوا اور سورہ حشر میں بھی۔ (59:22-24)۔ اس توحید کو اس امت کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ اہلِ روحانیت توحید کے جو مراتب بیان کرتے ہیں، قرآن مجید ان کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔
اس دین میں اللہ تعالیٰ معبود اور انسان عبد ہے۔ وہ بندہ اور غلام ہے۔ وہ خالق اور یہ مخلوق ہے۔ قرآن مجید کل اور جزو یا سمندر اور قطرے کے کسی تعلق کو تسلیم نہیں کرتا۔ انسان مرتے دم تک اس کا بندہ ہے اور اسی حیثیت میں روزِ قیامت اٹھایا جائے گا۔ اسی حیثیت میں وہ جنت یا جہنم کا مستحق ہو گا اور یہ اس کا ابدی ٹھکانہ ہو گا۔ اسلام فنا فی التوحید کے کسی ایسے تصور کو نہیں مانتا‘ جس میں انسان کا وجود باقی نہیں رہتا۔ نبیﷺ نے اپنے بارے میں یہی فرمایا کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے ہم جو شہادت دیتے ہیں، اس میں اللہ کے معبود ہونے اور رسالت مآبﷺ کے اللہ کے بندے اور رسول ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے انسان کا مقصدِ حیات طے کر دیا ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔ عبادت کے لیے لازم ہے کہ انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو‘ لیکن یہ معرفت کوئی پراسرار عمل نہیں‘ جس کے لیے سلوک کی منازل طے کرنا پڑیں یا برسوں جنگلوں کی خاک چھاننا پڑے۔ اس کے لیے صرف ایک ریاضت کی ضرورت ہے اور وہ ذہنی ہے۔ قرآن مجید اس کے لیے تفکر، تدبر اور تعقل جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ وہ انسان کو اللہ کی آیات (نشانیوں) پر غور اور تفکر کی دعوت دیتا ہے۔
یہ نشانیاں انفس میں بھی اور آفاق میں بھی۔ انسان کے اندر بھی اور باہر بھی۔ یہ نشانیاں قرآن مجید میں بھی، یہ نشانیاں رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں بھی ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ ان نشانیوں پر غور و فکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس عالم کا کوئی پروردگار اور خالق ہے اور اس نے یہ سب کچھ عبث پیدا نہیں کیا۔ یہی تدبر ہے جس کا قرآن مجید نے انبیاؑ کے زندگیوں کے حوالے سے بیان کیا ہے، جیسے سیدنا ابراہیمؑ۔
اللہ کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ انسان پورے یقین کے ساتھ یہ جان لیتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک ہے اور یہ بھی کہ یہ نظام کسی حکمت پر مبنی ہے‘ جو اس کی دلیل ہے کہ اس کا خالق واحد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ معرفت کے کسی درجے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا وصال ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید نے واضح کیا کہ انسانی آنکھیں اس کو پا نہیں سکتیں۔ تاہم قیامت میں اہلِ ایمان اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔ اس کی نوعیت کیا ہو گی، ہم واقف نہیں۔ رسالت مآبﷺ نے ہمیں بتایا کہ اس روز ردائے کبریائی کے سوا کوئی چیز درمیان میں حائل نہیں رہے گی (بخاری و مسلم)۔
انفس و آفاق پر غور و فکر سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا شعور یا معرفت ہوتی ہے۔ اس کی نوعیت بھی دراصل یاد دہانی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ یہ نشانیاں اس شعور کو بیدار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غور و فکر کرنے والوں کو پیغمبروں کی دعوت اجنبی محسوس نہیں ہوتی اور ان کے داخل سے اس کی تائید میں آواز اٹھتی ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال سیدنا ابوبکرؓ صدیق ہیں‘ جنہیں رسول اللہﷺ پر ایمان لانے میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوا۔
خدا کا یہ تصور جب اس کی صفات کے ادراک کے ساتھ، انسانی شعور کا حصہ بنتا ہے تو اس کے اندر اپنے رب سے ہم کلام ہونے، اس کا شکر ادا کرنے، اس کی کبریائی کا اعلان کر نے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ پھر سجدے اس کی جبین میں مچلنے لگتے ہیں۔ یہ عبادت کا شعور ہے۔ اس مرحلے پر اسے پیغمبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہی بتاتے ہیں کہ اس کا پروردگار اس سے کیا چاہتا ہے۔ پیغمبر اسے عبادت کے آداب سکھاتے ہیں۔ اس لیے انسان کبھی پیغمبر کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ کسی غیر پیغمبر کا یہ دعویٰ قابلِ قبول نہیں کہ وہ خدا سے براہ راست راہنمائی حاصل کرتا ہے اور گویا پیغمبر کی ضرورت سے بے نیاز ہو گیا ہے۔
قرآن مجید نے بتایا کہ اس کائنات کے نظام کے لیے اس نے اپنے فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں‘ جو اس کے حکموں کے تابع ہیں۔ انسانوں میں سے وہ اپنے خاص بندوں کا انتخاب کرتا ہے جنہیں وہ منصبِ رسالت و نبوت پر فائز کرتا ہے۔ قرآن مجید اور صحاح ستہ رجال الغیب کے کسی تصور سے بھی خالی ہیں۔ مسند احمد ابن حنبل میں دو روایات ہیں جن میں ابدال کا ذکر ہے۔ انہیں بھی امام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ جیسے اہلِ علم نے قبول نہیں کیا۔
اسلام انسان کا اخلاقی تزکیہ کرتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس میں بہتری آتی ہے اور اس کا سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے جسے حدیث جبریل میں 'احسان‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس روایت میں ایمان، اسلام اور احسان کے عنوانات سے پورا دین بیان ہو گیا۔
یہ ہے وہ روحانیت جسے اللہ کا دین بیان کرتا ہے۔ اس میں کوئی چیز پُراسرار نہیں۔ ہر شے واضح اور روشن ہے۔ روحانیت کا دوسرا تصور وہ ہے جو پچھلے کالم میں بیان ہوا ہے۔ اب ہر آدمی دونوں کے مابین تقابل کر سکتا ہے۔ یہ اصول بہر صورت واضح ہونا چاہیے کہ دین کے باب میں معیار قرآن و سنت ہیں‘ افراد نہیں۔