عاصمہ جہانگیر رخصت ہوئیں۔ ایک ہنگامہ خیز دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ ایک بے تاب وجود، جو اپنے آدرشوں کے تعاقب میں مسلسل سرگرم رہا، بالآخر مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔ میں ان کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو علامہ اقبال یاد آتے ہیں:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
وہ عمر بھر اس تضادات آمیز رویے کے خلاف لڑتی رہیں جو انفرادی اور اجتماعی دائروں میں ہماری فطرت ثانیہ بن چکا ہے۔ ہم ایک طرف فخر سے کہتے ہیں کہ 'اسلام نے اقلیتوں کو جو حقوق دیے، دنیا میں کسی نے نہیں دیے‘۔ دوسری طرف اقلیتیں ہم سے اپنی جان کی بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔ ایک طرف ہم اعلان کرتے ہیں 'ہم عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے محافظ ہیں‘ اور دوسری طرف ہر روز ہمارے ہاتھوں کبھی عورت کا جسم پامال ہوتا ہے اور کبھی عزتِ نفس۔ ہم ایک طرف جمہوریت پر غیر متزلزل ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف آمروں کی آمد پر مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ ہم ایک طرف 'پیغامِ پاکستان‘ پر دستخط کرتے ہیں اور دوسری طرف انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کیسا اتفاق ہے کہ ان کی موت کے بعد کا منظر بھی، ہمارے ایسے ہی تضادات کی نشان دہی کر رہا ہے۔
کہنے کو ہم یہی کہتے ہیں کہ موت کے بعد کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کا دائمی ٹھکانہ کیا ہے۔ ظاہر پر دنیا میں تو حکم لگایا جا سکتا ہے، لیکن آخرت کے بارے میں نہیں۔ آخرت کا فیصلہ وہی کر سکتا ہے جو لوگوں کے دلوں کا حال جانتا ہو۔ علیم بالذات الصدور تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ آخرت میں کس کے ساتھ کیا ہو گا، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دوسری طرف آج ہم عاصمہ جہانگیر کی آخرت کے فیصلے سنا رہے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ مخالفت زندگی تک ہوتی ہے۔ مرنے والوں کے ساتھ دشمنی سمیت سب رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ پسِ مرگ دشمنی کو باقی رکھنا اعلیٰ ظرفی نہیں ہے۔ ہمیں ہر مخالفت کو بھلا دینا چاہیے جب کوئی مر جا ئے۔ عاصمہ جہانگیر کے قصے میں ہم ایسا نہیں کر سکے۔ اب ان کی خرابیوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ ہم ان کے ساتھ اپنے اختلافات کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کو کوس رہے ہیں جو ان کے بارے میں کلمہ خیر کہتے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو روایتی کہتے ہیں۔ ہماری روایت یہ ہے کہ مرنے والے کے لیے ہم مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ ہم یہ خواہش نہیں کرتے کہ مرنے والا لازماً جہنم میں جائے۔ افسوس آج ہم عاصمہ کو جہنم رسید کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم زبانِ قال سے یہ نہیں کہتے تو زبانِ حال سے یہی کہہ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا کہ ہم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم اُن کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے۔ کیا ہمیں ڈر ہے کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا مغفرت کا کوئی جملہ، کہیں قبول نہ ہو جائے؟
مجھے عاصمہ جہانگیر کے بنیادی تصورِ سیاست سے اتفاق نہیں رہا۔ میرے نزدیک ان کا یہ تصور اس قوم کی اجتماعی نفسیات سے بھی متصادم تھا۔ وہ مذہب کے کسی سیاسی یا سماجی کردار کے حق میں نہیں تھیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ مذہب خیر کی قوت ہے جو کسی سماج کی فطری ضرورت ہے۔ بایں ہمہ یہ معاشرہ اپنی بنیادی ساخت میں مذہبی ہے۔ اگر اس کے لیے کوئی ایسا حل تجویز کیا جائے گا‘ جو مذہب سے متصادم یا بیگانہ ہو گا تو اجتماعی نفسیات اسے اگل دے گی۔ اسی وجہ سے میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے کو ایک خاص حد سے زیادہ غیر مذہبی نہیں بنایا جا سکتا۔ تاہم مجھے اس کا اعتراف ہے کہ عاصمہ نے جو کچھ کیا، وہ معاشرتی سطح پر خیر کے فروغ کا باعث بنا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی علامت تھیں۔
عاصمہ جہانگیر اس قافلے کی سرخیل تھیں جس نے اس ملک میں مثبت سماجی تبدیلی کو اپنا ہدف بنایا۔ ان سے پہلے، ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ معاشرہ انسانی حقوق کے بارے میں کبھی اتنا حساس نہیں تھا۔ مجھے کوئی ایسا تاریخی حوالہ نہیں ملا کہ کسی مذہبی یا غیر مذہبی جماعت کی طرف سے اس باب میں معاشرے کو حساس بنانے کی کوشش کی گئی ہو۔ یہاں عورت کو کبھی مرد کی طرح انسان نہیں سمجھا گیا۔ یہاں اقلیتوں کے بارے میں عوام کبھی حساس نہیں تھے۔ اسے قدرت کا فیصلہ سمجھا جا تا تھا کہ وہ کم تر ہیں اور کم تر ہی رہیں گے۔
عاصمہ جہانگیر نے بلند آہنگ ہو کر انسانی حقوق کا تصور پیش کیا۔ جب ہمارے تمام مصلحین ریاست کی اصلاح کے لیے یک سو تھے، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے معاشرے کو مخاطب بنایا اور سماجی اقدار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سب سے نمایاں عاصمہ جہانگیر تھیں۔ سیاست میں بھی عاصمہ نے اِس آواز سے آواز ملائی کہ جمہوریت کے بغیر سیاسی اصلاح کا کوئی امکان نہیں۔ آمریت کی موجودگی خود ایک ایسی برائی ہے جس کے ہوتے ہوئے اصلاح نہیں ہو سکتی۔ یوں انہوں نے ریاست کو نظر انداز نہیں کیا۔ تاہم ان کا اصل میدان سماجی تبدیلی تھا۔
عاصمہ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے ہم سب کو انسانی حقوق کے بارے میں حساس بنایا۔ آج میڈیا،علما اور کسی حد تک حکومت بھی ہمیں بیدار دکھائی دیتے ہیں تو یہ عاصمہ ہی کا صدقہ جاریہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب بھی اس ملک میں انسانی حقوق کی بات ہو گی، اس کے اجر میں عاصمہ بھی شریک ہوں گی۔ جو کسی نیکی کا بیج بوتا ہے، اللہ کے ہاں اس کے پھل میں اس کا حصہ ہوتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کی زندگی اور موت نے ہمارے جن سماجی تضادات کو نمایاں کیا ہے، اگر ہم ان کو محسوس کر سکیں تو ان کا ازالہ کرکے، خود کو ایک بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ ہر سماج میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا وجود معاشرے کے لیے مجموعی طور پر تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں اگر دنیا کلمہ خیر کہتی ہے تو اس کا اثر ہر فرد کی شہرت پر پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سماجی اثاثہ سمجھنا چاہیے۔ اس کے لیے کسی کلّی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہم ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنا اثاثہ کہتے ہیں تو یہ لازم نہیں کہ ان کے مذہبی خیالات سے بھی اتفاق کریں۔
آج ہم ایک گہری تقسیم کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے کلی اتفاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک مولانا مودودی بھی ہمارا قومی اثاثہ ہیں اور فیض احمد فیض بھی۔ بطور عالمِ دین، مولانا مودودی کا احترام ساری دنیا میں پایا جا تا ہے۔ میرے لیے باعثِ اعزاز ہے کہ ان کا تعلق میرے ملک سے تھا۔ اسی طرح فیض کی شاعرانہ عظمت کی ایک دنیا معترف ہے۔ کیا مولانا مودودی کے احترام کے لیے فیض کا انکار لازم ہے‘ یا فیض کی عظمت کا اعتراف، مولانا مودودی کے انکار سے مشروط ہے؟
میرا احساس ہے کہ ان سب نے پاکستانی معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مولانا مودودی اور فیض صاحب نے اس معاشرے کو شائستہ بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ صادقین اور خورشید انور جیسے لوگوں نے ہمارے جمالیاتی ذوق کو بہتر بنایا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے ہمیں سکھایا ہے کہ انسانی حقوق کے باب میں لا پروائی کا مظاہرہ کرنے والا معاشرہ مہذب کہلوانے کا مستحق نہیں۔ میرے لیے یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ ان سب کا تعلق میرے معاشرے سے تھا۔
میں بطور پاکستانی عاصمہ جہانگیر کا احساس مند ہوں۔ انہوں نے میرے معاشرے میں خیر کو فروغ دیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی اس خدمت کو قبول کرے اور انہیں اپنی مغفرت سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس تقسیم اور تعصب سے بھی نکالے جو کسی خیر کے اعتراف میں حجاب بن جاتا ہے۔