ہر واقعہ ایک نئی فکری پراگندگی کو جنم دیتا ہے۔ تقسیم کی دراڑ کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے بعد بھی یہی ہوا۔ یہ کب تک ہوتا رہے گا؟ معاشرے کا فکری سرمایہ، کیا تمام ہو چکا؟
اس ملک کے لبرلز کا ایجنڈا کیا ہے؟
اُن کی زبانی سنیے تو اِسے چند عنوانات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے: انسانی حقوق کا احترام، غیر مذہبی ریاست، شخصی آزادی، جمہوریت۔
اہلِ مذہب کا ایجنڈا کیا ہے؟
اسے شاید حصر کے ساتھ بیان نہ کیا جا سکے۔ ہر مذہبی گروہ کا اپنا ایجنڈا ہے۔ تاہم اگر کوشش کی جائے اور ان گروہوں کے مشترکہ نکات کو جمع کیا جائے تو اسے بھی چند عنوانات دیے جا سکتے ہیں: اسلامی نظام کا نفاذ، فحاشی کا خاتمہ، جہاد، جمہوریت۔
بظاہر جمہوریت ایک ایسا نکتہ ہے جسے مشترکہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم جب ہم اس کی تفصیلات میں اترتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتفاق بھی محض لفظی ہے۔ لبرلز کے ہاں جمہوریت سے مراد عوام کا مطلق حقِ اقتدار ہے۔ مذہبی لوگوں کے نزدیک یہ مقید ہے۔ جن امور میں خدا اور رسول فیصلہ دے چکے، ان میں عوام کا حقِ قانون سازی ثابت نہیں۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں گروہوں کے تصورِ حیات میں کوئی بات مشترکہ نہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس اختلافِ رائے کے ساتھ، کیا سب امن اور باہمی احترام کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟ کیا اس اختلاف کے ہوتے ہوئے، ہم سب ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جس میں ہمیں ایک دوسرے سے کوئی خوف نہ ہو؟ پرامن بقائے باہمی کے لیے، کیا کلی اتفاقِ رائے لازم ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس وقت ہمیں سب سے زیاد ہ اسی سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
نظری اعتبار سے میں خود کو دونوں گروہوں سے الگ سمجھتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو مذہبی آدمی کہتا ہوں لیکن ان لوگوں سے بہت کم اتفاق کر پاتا ہوں جو مذہبی تعارف کے ساتھ جیتے ہیں۔ بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ سماجی اعتبار سے، میرے لیے ان لوگوں کا رویہ زیادہ قابلِ قبول ہے جو لبرل کہلاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ میں نے غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس کا تعلق میری تفہیمِ مذہب کے ساتھ ہے، جس میں صحت کے ساتھ غلطی کا پورا امکان ہے۔
لبرلز کے ایجنڈے میں، سوائے ایک نکتے کے، کوئی نکتہ ایسا نہیں ہے جو میرے تصورِ مذہب کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ انسانی حقوق ہوں یا شخصی آزادی، میرا تاثر تو یہ ہے کہ مذہبی روایت ان اقدار کا جتنا احترام کرتی ہے، شاید ہی کوئی فکری روایت کرتی ہو۔ مذہب کا تصورِ انسان ہی یہ ہے کہ عالم کے پروردگار نے آدم کی پوری نسل کو تکریم سے نوازا ہے (بنی اسرائیل17;70)۔ اس نے سماجی سطح پر رشتوں اور تعلقات میں تقسیم کیا تو حقوق کے تعین کے ساتھ۔
رہی شخصی آزادی تو انسان اپنے خالق کے وجود کا انکار کر دے تو بھی مذہب یہ کہتا ہے کہ خالق اپنے بندے سے رشتہ منقطع نہیں کرتا۔ وہ اس پر اپنی کسی نعمت کا دروازہ بند نہیںکرتا۔ وہ بارش برسائے یا رزق عطا کرے، وہ سب بندوں کو ایک ساتھ استفادے کا موقع دیتا ہے۔ تاہم اگر کوئی بندہ جانتے بوجھتے، اپنے رب کے انکار کا مرتکب ہو تو وہ اسے سزا دے سکتا ہے مگر یہاں نہیں، آخرت میں۔ وہاں بھی کوئی سزا اتمامِ حجت اور انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر نہیں دی جائے گی۔ دنیا میں بہرحال انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آزادی کا حق آخری درجے میں استعمال کر سکتا ہے الا یہ کہ وہ سماجی نظم کی بربادی کا باعث بن جائے اور دوسروں کی زندگی پر منفی طور پر اثر انداز ہونے لگے۔
لبرلز سے میرا اختلاف جمہوریت کے اطلاقی پہلو سے ہے۔ اس کا تعلق معاشرے سے ہے اور ریاست سے بھی۔ میرا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کی اکثریت اپنی سماجی تشکیل میں مذہب کو ایک عامل کے طور پر قبول کرتی ہے تو جمہوری اقدار کا یہ تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو قبول کیا جائے۔ ہمارے ہاں مذہب کے باب میں تنوع ہے۔ لوگ ایک سے زیادہ مذہبی تعبیرات کے قائل ہیں۔ اس کا اظہار رسوم و رواج میں ہوتا ہے اور دیگر معاشرتی رویوں میں بھی۔ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔
لبرلز کے ہاں میں نے دیکھا کہ وہ دانستہ اُن سماجی آداب کو مسترد کرتے ہیں جن سے کسی مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتا ہو۔ مثال کے طور پر ہماری روایت یہ ہے کہ ہم اپنی تقریبات کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے کرتے ہیں۔ یا کسی مجلس میں مرد اور خواتین جمع ہوتے ہیں تو خود بخود مرد اور عورتیں‘ الگ ہو جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لبرلز تلاوت کو پسند نہیں کرتے یا مردوں اور عورتوں کو زبردستی ایک ساتھ بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اس نوعیت کا جبر کسی طور مناسب نہیں۔ یہ رویہ لبرل تصورات کی بھی نفی ہے۔ سب لبرل ایسا نہیں کرتے ہوں گے لیکن لبرل حلقے میں یہ رجحان پایا جاتا ہے۔ مذہب کے حوالے سے استہزا بھی، اس حلقے میں عام ہے۔
اسی طرح اگر ریاست کے باب میں لوگوں کی اکثریت اس پر اتفاق کر لیتی ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کی خلاف نہیں بنایا جائے گا تواس پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ جمہوری اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اگر کوئی اس آئینی دفعہ پر کوئی علمی بحث اٹھاتا ہے تو مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ دفعہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں۔ یہ منتخب پارلیمان کا متفقہ فیصلہ ہے اور جب تک یہ آئین کا حصہ ہے، اس کا احترام ہر اس شخص پر لازم ہے جو جمہوریت کو مانتا ہے۔
مذہبی لوگوں کا معاملہ بدقسمتی سے ایسا ہو گیا ہے کہ اپنے آپ کو مذہبی سمجھتے ہوئے بھی، مجھے ان کے تصورِ ریاست و معاشرت سے بہت کم اتفاق ہوتا ہے۔ ان میں ایک طبقہ وہ ہے جو معاشرتی سطح پر سرگرم ہے۔ وہ مذہب کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جس کی، میرے خیال میں، قرآن و سنت سے بہت کم تائید ہوتی ہے۔ یہ تصورِ مذہب کبھی ایک چھوٹی خطا کی بڑی سزا بیان کرتا ہے اور کبھی ایک چھوٹی نیکی پر کروڑوں حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ کبھی ولی اللہ کی طرف عقیدت کے نگاہ ڈالنے کے بدلے میں جنت عطا کر دیتا ہے۔ آدمی سوچتا ہے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ نے جو دین بیان کیا ہے، وہ کہاں ہے؟ وہ حسنِ توازن ان تعلیمات سے کیسے حاصل ہو سکتا ہے جو پیغمبرانہ سیرت کا ایک روشن باب ہے؟ تزکیہ نفس کا یہ کون سا نصاب ہے جس سے اللہ کے رسولﷺ کی سیرت خالی ہے؟
دوسرا گروہ وہ ہے جو ریاستی سطح پر متحرک ہے۔ یہ مذہب کو نفاذ کا معاملہ سمجھتا ہے جو خارج سے ہوتا ہے۔ اس کی تگ و دو کا محور یہ ہے کہ شرعی قوانین نافذ ہو جائیں۔ اسے زیادہ دلچسپی دوسروں کے کفر و اسلام کے تعین سے ہے۔ اس میں مذہبی انتہا پسندی اتنی رچ بس گئی ہے کہ وہ اب اس کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ یہ فہمِ دین کے باب میں کسی دوسری رائے کو گوارا نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ مکالمہ کم و بیش ناممکن ہو گیا ہے۔ یہ گروہ دوسروں کو وہ شخصی آزادی بھی دینے کے لیے تیار نہیں جو اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہے۔ انسانی حقوق اس کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ وہ اہلِ اسلام کو دنیا کے ساتھ ہمیشہ مصروفِ تصادم رکھنا چاہتا ہے۔
اگر ہم نے اس معاشرے کو ایک ایسی جائے قیام بنانا ہے جہاں انسان کا فکری اور تہذیبی ارتقا ممکن ہو سکے اور جہاں سب کو جان و مال کا تحفظ ملے تو لوگوں کو اپنے اپنے دائرے سے نکل کر ایک نئے اجتماعی شعور کو فروغ دینا ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں مذہب کی سچائیوں کو سماجی رویوں سے ہم آہنگ بنانا ہو گا۔ میرے نزدیک اس کا مطلب ہے مذہب کی اعلیٰ روحانی تعلیمات کی روشنی میں لبرل اقدار کا فروغ۔ نظری بنیادوں پر تو شاید یہ ممکن نہ ہو لیکن سماجی سطح پر، میرا خیال ہے کہ اسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔