آج علامہ اقبال ہوتے تو یقینا ایک بار پھر صدا دیتے:
اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش!
شام میں ظلم کا بازار گرم ہے۔ بشار الاسد اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ 1982ء میں حماہ کے شہریوں نے حافظ الاسد کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس جرم پر پورے شہرکو قبرستان بنا دیا گیا۔ ستائیس دن شہر کا محاصرہ رہا۔ بشار الاسد کے چچا رفعت الاسد فوج کے سربراہ تھے۔ دونوں بھائیوں نے بستی کو اجاڑ دیا۔ رابرٹ فسک کے مطابق بیس ہزار افرادکو قتل کیا گیا۔ شامی انسانی حقوق کی کمیٹی یہ تعداد چالیس ہزار بتاتی ہے۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ افسوس کہ اس وقت اہلِ اسلام نے اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی کہ گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات‘ ظلم کو ظلم کہنے میں حائل ہو گئے تھے۔
آج بشار الاسد کی حکومت ہے۔ وہی اقتدار کی نسل در نسل منتقل ہوتی ہوس اور وہی مظلوم عوام۔ افسوس کہ تعصبات بھی وہی ہیں۔ ایران کی قیادت میں ایک فرقے کے لوگ بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ہیں اور دوسرے فرقے کے سعودی عرب کی قیادت میں ان کے خلاف۔ جناب خامنہ ای نے ڈنکے کی چوٹ پر بشار الاسدکی حمایت کی ہے۔ جیسے حماہ ہو یا غوطہ، ان شہروں کے مکین امت یا انسانیت کا حصہ نہیں۔ دوسرا گروہ صرف ان مقتولوں کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے جن کا تعلق ان کے فرقے سے ہے۔ جیسے شیعہ امت اور انسانیت کا حصہ نہیں۔ ایک عام مسلمان حیران ہے کہ وہ کہاں جائے؟کسے ظالم سمجھے اور کسے مظلوم؟
میری تشویش یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے مؤقف کے حق میں دینی دلائل پیش کر رہے ہیں۔ جس کو جو روایت ملتی ہے، اپنی تائید میں لا رہا ہے۔ مصدقہ‘ غیر مصدقہ کی کوئی تقسیم نہیں۔ اقتدار کی جنگ میں دینِ اسلام کو اپنی اپنی حمایت میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ حسبِ عادت یا حسبِ ضرورت، اس جنگ کو پاکستان تک پھیلانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مہم زوروں پر ہے۔ اللہ نہ کرے کہ یہ سطحِ زمین پر منتقل ہو جائے۔
اقتدار کی اس جنگ میں سب سے اہم 'کتاب الفتن‘ کی روایات کا واقعاتی اطلاق ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس باب کی بہت سی روایات فنِ حدیث کے اصولوں پر پورا نہیں اترتیں۔ دوسری یہ کہ بیان کردہ روایات کو جس طرح اپنے عہد پر منطبق کیا جاتا ہے، وہ اس سے زیادہ پریشان کن ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اقتدار کی جنگ سے بھری ہوئی ہے۔ اختلاف کا آغاز دور اول سے ہی ہو گیا تھا۔ سیدنا عثمانؓ کے عہد میں یہ اختلاف اقتدار کی جنگ میں بدل گیا۔ بصرہ، مصر اور کوفہ 'حزبِ اختلاف‘ کے مراکز بنے۔ سیدنا عثمانؓ کے خلاف جس طرح ایک سیاسی مہم جوئی کی گئی، تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے جن کا تعلق مذہب سے نہیں تھا‘ دیگر سیاسی معاملات سے تھا۔
غالباً جنگِ صفین میں پہلی بار بعض لوگوں نے اپنے اپنے حق میں روایات کو بیان کر نا شروع کیا۔ سانحہ کربلا کے بعد تو سیاسی نقطۂ نظر کے ساتھ وجود میں آنے والے گروہوں نے اپنی تائید میں دینی استدلال مرتب کرنا شروع کئے۔ یوں سیاسی اختلاف کو مذہبی بنا دیا گیا۔ اس سارے سفر میں دوکام کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ اپنے اپنے مؤقف کے حق میں احادیث گھڑی گئیں۔ قولِ رسولؐ کی حفاظت کے لئے محدثین نے جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا‘ اس کا ایک بڑا باب وضع حدیت سے متعلق ہے۔ سیاسی گروہ بندی کو محدثین نے وضع حدیث کے بڑے محرکات میں شمار کیا ہے۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ قربِ قیامت کے باب میں جو روایات آئی ہیں‘ ان کا اطلاق اپنے عہد کے واقعات پر کیا گیا۔ کل کے کوفہ و دمشق سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج کے غوطہ تک پھیلا ہوا ہے۔
چند سال پہلے جب شام میں یہ معرکہ آرائی شروع ہوئی تھی تو اس وقت بھی ان واقعات پر روایات کا انطباق کیا گیا۔کالے جھنڈوں کی روایات کو داعش سے متعلق بیان کیا گیا۔ اس سے پہلے یہ کام افغانستان میں ہوا۔ یہی عراق ایران جنگ میں ہوا۔ آج کے شام پر پھر ان روایات کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔ ایک محقق محترم حافظ محمد زبیر صاحب کی ایک تحریر ان دنوں گردش میں ہے۔ اس میں مسند احمدکی ایک روایت کا تذکرہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ''فتنوں کے وقت ایمان شام کی سرزمین میں ہو گا‘‘۔
سنن ابوداؤد کی ایک روایت بھی حافظ صاحب نے نقل کی ہے کہ ''تم لشکروں کی صورت میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام، ایک عراق اور ایک یمن میں ہو گا‘‘۔ راوی نے پوچھا کہ اگر میں اس دور میں ہوں تو کس کا ساتھ دوں۔ کہا گیا ''شام کو پکڑ لے کہ وہ اللہ کی زمینوں میں بہتر سرزمین ہے۔ اللہ کے بندے اس کی طرف کھنچے چلے جائیں گے‘‘۔ صحتِ روایت کی بحث سے قطع نظر‘ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات آج کے شام کے بارے میں کہی گئی ہے؟
آج کے شام میں ایک گروہ بشار الاسد کا ہے۔ ایران اور روس اس کے ساتھ ہیں۔ ایک گروہ سعودی عرب کا حمایتی ہے۔ ایک گروہ کی نصرت قطر کر رہا ہے۔ داعش بھی ہے اور القاعدہ بھی۔ اب ان میں سے کس گروہ کا ساتھ دیا جائے؟ کیا آج کے شام کو بہترین سرزمین کہا جا سکتا ہے؟ ایسی روایت جس کا تعلق آنے والے واقعات سے ہے، اگر محدثین کے معیار پر پورا اترتی ہو تو بھی یہ طے کرنا ایک اجتہادی امر ہے کہ اس سے کون سا دور مراد ہے؟ مجھے تشویش یہ ہے کہ ان سوالات پر غور کیے بغیر روایات کو بیان کیا جا رہا ہے اور اپنے عہد پر ان کا اطلاق بھی کیا جا رہا ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اگر کوئی پیش گوئی فرمائی ہے تو اس کا پورا ہونا اسی طرح یقینی ہے جیسے کل کے دن کا طلوع ہونا۔ ان روایات میں صرف علامتوں کا ذکر ہے۔ علامتوں کا واقعاتی اطلاق لوگوں کا اجتہاد ہے۔ اجتہاد سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق روایت سے نہیں ہے۔ جب ہم اپنے اجتہاد کو دین قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں تو در اصل لوگوںسے ایک ایسا مطالبہ کرتے ہیں جس کاہمیں کوئی حق نہیں۔
آج شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں شامی عوام کے مظلوم ہو نے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ شام کے عوام اس ظلم کا اس لیے شکار ہوئے کہ وہاں حقِ اقتدار کے تعین کے لیے کوئی اصول یا قانون موجود نہیں۔ بادشاہت ہے‘ باپ کے بعد بیٹا مسلط ہے اور کوئی اسے ہٹانے پر قادر نہیں۔ وہاںایک گروہ سے دوسرے گروہ کو اقتدار کی منتقلی کا کوئی پرامن ذریعہ یا طریقہ نہیں۔ جو بشار الاسد کے خلاف کھڑا ہے‘ اس نے بھی بندرق اٹھا رکھی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شام کی سرزمین فساد اور فتنوں کا گھر بن گئی ہے۔
یہ خوبی صرف جمہوریت میں ہے کہ وہ اقتدار کی تبدیلی کا ایک پرامن طریقہ بتاتی ہے۔ جمہوریت کسی معاشرے کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ آج پاکستان میں اختلاف شدید ہے لیکن اس کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان شام نہیں بنا۔ یہ افغانستان ہو یا شام، جہاں جمہوریت نہیں ہے وہاں ایسے فساد کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ شام میں امن کی صرف ایک صورت ہے کہ وہاں ایک جمہوری حل پر اتفاق کر لیا جائے۔ مسلمان ممالک اس حل کو بطور قرارداد اقوامِ متحدہ کے سامنے پیش کریں۔ اس کے لیے بشار الاسد کا معزول ہونا اور دوسرے گروہوں کا غیر مسلح ہونا لازم ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ سرِ دست ممکن نہیں۔ علاقائی اور عالمی قوتوں کے مفادات ایسا نہیں ہو نے دیں گے۔ اس صورت میں ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو اس قضیے سے عملاً الگ رکھیں اور محض اجتہادی آرا کی روشنی میں، اسے ایک مذہبی جھگڑا بناکر ،پاکستان کو شام بنانے کی کوشش نہ کریں۔علامہ اقبال آج ہوتے تو وہ بھی اسی بات کی نصیحت کرتے۔