فرحت اللہ بابر سینیٹ سے رخصت ہوئے مگر اس شان کے ساتھ کہ پارلیمنٹ کو سر بلند کر گئے۔ قحط الرجال کے اس موسم میں، تا دیر اس رجلِ رشید کی صدا گونجتی رہے گی۔
جان کر من جملہ خاصان مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
یہ پندرہ بیس دن پہلے کی بات ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز (PIPS) نے پارلیمان کے اراکین کے لیے ایک تربیتی نشست کا اہتمام کیا۔ ایک نشست میں بابر صاحب کے ساتھ میں بھی مدعو تھا۔ ورکشاپ کا موضوع تھا 'انتہا پسندی‘۔ یہ معاشرہ کس طرح اس عفریت کا شکار بنا؟ مذہب کیسے استعمال ہوا؟ عالمی طاقتوں نے کیا کھیل کھیلا اور ہمارے ریاستی اداروں نے کیا بیانیہ پیش کیا؟ علاقائی تبدیلیاں کیسے ہم پر اثر انداز ہوئیں؟ یہ میرے لیے پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی ایک موضوع پر فرحت اللہ بابر صاحب کی مربوط گفتگو سنی۔ واقعہ یہ ہے کہ جس علمی گرفت کے ساتھ، ایک شائستہ اسلوب میں اور جرأت کے ساتھ انہوں نے اس موضوع کا احاطہ کیا، وہ بہت متاثر کن تھا۔ ان کے بعد میں نے اظہارِ خیال کیا تو مجھے یہ کہنا پڑا کہ میں ان کے ایک ایک لفظ سے اتفاق کرتا ہوں۔
فرحت اللہ بابر حقیقی معنوں میں ایک 'جمہوری‘ شخصیت ہیں۔ یہی نہیں، وہ پورے شعور کے ساتھ جانتے ہیں کہ ایک جمہوری نظام کی بقا کن عوامل کی مرہونِ منت ہے اور یہ کہ جمہوریت کا تصور اس وقت گہنا جاتا ہے جب پارلیمان پر ریاست کے دیگر ادارے غالب آنے لگیں‘ اور اس کی بالا دستی پر حرف آ جائے۔ انتخابی قوانین میں ترمیم کو جب سپریم کورٹ میں لے جایا گیا اور پیپلز پارٹی اُس میں فریق بنی تو وہ اس کے ناقد تھے۔ انہوں نے ایوانِ بالا میں اس کے خلاف آواز اُٹھائی۔ ان کا مقدمہ بڑا واضح تھا۔ اگر پارلیمان نے کسی کی نظر میں کوئی قانون غلط بنا دیا ہے تو اس کی اصلاح کا فورم بھی پارلیمان ہی ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت پارلیمان کے منظور شدہ قانون کی منسوخی کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی‘ تو یہ اس بات کا اظہار ہو گا کہ وہ عدالت کے اس حق کو تسلیم کر رہی ہے کہ وہ پارلیمان کا منظور شدہ قانون منسوخ کر سکتی ہے۔
یہی فرحت اللہ بابر تھے جنہوں نے پارلیمان میں تمام ریاستی اداروں کے احتساب کی بات کی تھی۔ وہ اس پر ایک قانون لائے مگر ن لیگ اور ان کی اپنی جماعت پیپلز پارٹی سمیت کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ جاتے جاتے انہوں نے اس بات پر اپنی جماعت سے گلہ بھی کیا۔ پیپلز پارٹی کے لیے یقیناً یہ بات باعث شرمندگی ہونی چاہیے کہ فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں جو آخری تقریر کی، پارٹی کے ترجمان نے اس سے اظہارِ لا تعلقی کر دیا۔ آصف زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اپنے لیے آج جس سیاسی کردار کا انتخاب کیا ہے، اس سے یہ خطاب کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ فرحت اللہ بابر سرخرو رہے کہ انہوں اپنے آدرشوں سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔
فرحت اللہ بابر کا مؤقف کیا ہے، جس سے ان کی جماعت نے اظہارِ برأت کیا؟ رضا ربانی کی تقریر بھی کیا انہی کے خطاب کی صدائے بازگشت تھی؟ کیا وہ اپنے موجودہ سیاسی مؤقف کے اعتبار سے ن لیگ کے قریب تر ہیں؟ آج یہ سب سوالات بہت اہم ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کے متقاضی ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ان سوالات کا تناظر کیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ریاست کے اداروں کے مابین ایک تناؤ ہے۔ یہ تناؤ ہماری تاریخ کا مسلسل باب ہے‘ جو آج بھی لکھا جا رہا ہے۔ عدالتوں نے گزشتہ کچھ عرصہ میں کچھ ایسے فیصلے دیے جن پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں تشویش کا اظہار ہوا۔ بنیادی مقدمہ یہی سامنے آیا کہ سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے ہی سے طے کیا جانا چاہیے۔ جمہوریت میں یہ حق چونکہ عوام کے لیے ثابت شدہ ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کر سکتے ہیں، اس لیے ان کو معزول کرنے کا حق بھی عوام ہی کو ملنا چاہیے۔ عمومی جرم و سزا کا معاملہ، حکمرانوں کے عزل و نصب سے الگ ہونا چاہیے۔
اس میں پیچیدگی آئین کی دفعات 62اور 63 سے پیدا ہوئی۔ اس میں مزید اضافہ دفعہ 184 کے اطلاق سے ہوا۔ گزشتہ چند مہینوں میں یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ اداروں کے مابین تناؤ میں، اب ایک نئے انداز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدالتی عمل اور فیصلے گلی بازار کا اس طرح موضوع بن گئے کہ عوام عدالت کو ایک فریق شمار کرنے لگے۔ فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی جیسے لوگ اس قضیے میں پارلیمان کی بالا دستی کے قائل رہے ہیں۔ وہ اس مؤقف کے حامی ہیں کہ حکمرانوں کے انتخاب سے لے کر قانون سازی تک، پارلیمان کے حقوق پر کوئی ادارہ قدغن نہیں لگا سکتا۔ انہیں اس پر تشویش ہے کہ یہ بحث آج گلی بازار کا موضوع بن چکی ہے اور ایک سیاسی فریق اسے انتخابی مہم کا سرنامہ بنا رہا ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات اس باب میں ریفرنڈم قرار پائیں۔
فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی صاحب کے خیالات اس سوچ کے ترجمان ہیں، پیپلز پارٹی جن کے ساتھ وابستگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ تاہم اس وقت سیاسی جماعتوں کے کردار جوہری طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ تاریخ یہ ہے کہ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی حامی اور پیپلز پارٹی مخالف رہی ہے۔ چند سال پہلے ن لیگ کا کردار تحریکِ انصاف نے اپنا لیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی سیاست میں غیر موثر ہو چکی تھی۔ عمران خان کی مقبولیت، نواز شریف کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ عمران خان اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ میلہ دراصل ان کو لیڈر بنانے کے لیے سجایا گیا ہے۔
عمران خان نے ایک حد تک اپنا کام دکھا دیا۔ نواز شریف کمزور ہو گئے۔ تاہم ان کے مخالفین کو ان کی غیر معمولی مزاحمت اور ان کے خلاف عدالتی فیصلوں کا صحیح اندازہ نہ ہو سکا۔ نواز شریف کمزور ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ توانا ہو گئے۔ اگلا مرحلہ یہ تھا کہ سینیٹ جیسے اہم ادارے میں نواز شریف کو مزید موثر بنانے سے روکا جائے۔ یہ کام عمران خان کے بس کا نہیں تھا۔ اس کے لیے آصف زرداری صاحب جیسے کسی 'جہاں دیدہ‘ آدمی کی ضرورت تھی جو جوڑ توڑ کا ماہر ہو۔ زرداری صاحب بھی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جب وہ جاری سیاسی عمل کا حصہ بن سکیں۔ دو فریقوں کی ضرورت نے انہیں جمع کر دیا۔ اب عمران خان کی جگہ زرداری صاحب کو مل گئی۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی صلاحیتوں کا کامیاب مظاہرہ بلوچستان میں کیا۔ وہ نادیدہ قوتوں کی توقعات پر پورا اترے۔ اگلا مرحلہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے‘ جہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ان کے معتمدِ خاص ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو سرگرم ہو چکے ہیں۔
ان تبدیل ہوتی سیاسی حرکیات میں، نواز شریف کی مقبولیت کا کوئی توڑ ابھی سامنے نہیں آ سکا۔ عمرن خان، دکھائی یہ دیتا ہے کہ اپنی اننگز کھیل چکے۔ انہوں نے اپنی قوت 'گو نوازگو‘ پر صرف کر دی۔ آج وہ سرپرستی سے بھی محروم ہیں اور عوام کا رجحان بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ فضا پیشِ نظر ہو تو فرحت اللہ بابر کا یہ کہنا قابلِ فہم ہے کہ اگلے عام انتخابات عدلیہ کے کردار کے حوالے سے ریفرنڈم ہو سکتے ہیں۔ اپنی جماعت کے بارے میں ان کی مایوسی پوری طرح عیاں ہے۔ ایک جمہوریت پسند اپنی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بنتے کیسے دیکھ سکتا ہے؟
فرحت اللہ بابر جیسے لوگ معاشرے کی آنکھ ہیں۔ انہوں نے خبردار کر دیا ہے کہ ریاستی ادارے، اگر سیاسی کشمکش میں فریق سمجھے جانے لگیں تو یہ ریاست کے لیے نیک شگون نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جو بات ہم تاریخ کی زبانی نہیں سمجھ سکے، کیا فرحت اللہ بابر کی زبانی سمجھ پائیں گے؟