مذہب کا سیاسی استعمال ایک دو دھاری تلوار ہے۔ نہیں معلوم کب شمشیر بردار خود اس کی زد میں آ جائے۔
عمران خان کا تیسرا نکاح ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث ہے اور اس بار عدت کے عنوان سے۔ اگر عمران خود اور نکاح کے گواہ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ نکاح عدت کی مدت گزر جانے کے بعد ہوا تو ایک مسلمان کے ساتھ حسنِ ظن کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی بات کو مان لیا جائے۔ اس باب میں غیر ضروری تجسس اور قیاس آرائی سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ اسلامی اخلاقیات ہمیں اسی کی تعلیم دیتی ہیں۔ علما یہ راہنمائی تو ضرور فراہم کریں کہ نکاح کے لیے عدت کا حکم کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے لیکن کسی فرد پر اس کا اطلاق اس طالب علم کی نظر میں حدود سے تجاوز ہے۔
اہلِ علم فتویٰ اور قضا میں فرق کرتے ہیں۔ فتویٰ کس مسئلے میں ایک رائے ہے۔ کسی فرد پر اس کا اطلاق کئی قانونی مضمرات رکھتا ہے۔ اس کا تعین صرف قاضی کر سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بھی شہادتوں کی بنیاد پر۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی کی رائے، محض رائے نہیں ہوتی، فیصلہ ہوتا ہے جس کا نفاذ ہو جاتا ہے۔ علما اس فرق سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے وہ فتویٰ دیتے وقت زید بکر جیسے فرضی نام استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ لکھنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ 'ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب‘۔ یہ میری طرف سے ہے اور صحیح بات کیا ہے، اللہ تعالیٰ کو اس کی زیادہ خبر ہے۔
ہمارے ہاں جب سے مذہب کی بنیاد پر مفاداتی گروہ (Interest groups) وجود میں آئے ہیں، مذہب کا سوئے استعمال بڑھ گیا ہے۔ اس کا سب سے افسوسناک مظاہرہ سیاست میں ہوا۔ ہماری تاریخ میں جب مذہب و سیاست کی یک جائی کا مسئلہ اٹھا تو اس کے ابتدائی علم برداروںکے پیشِ نظر یہ تھا کہ سیاست ان اخلاقی اصولوں کے تابع ہو جو مذہب پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر مذہب کے نظامِ اقدار میں بنیادی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کا احساس ہے۔ سیاست میں اس کے ظہور کا مفہوم یہ تھا کہ حکمران طبقہ اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے وقت اس بات سے صرفِ نظر نہ کرے کہ بطور حکمران، اسے اپنے اعمال کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے۔
اس تصورِ سیاست کے ساتھ جب مذہبی سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں تو تدریجاً ان کی اس طرح قلبِ ماہیت ہوئی کہ وہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش (power politics) میں ایک فریق بن کر رہ گئیں۔ انہوں نے مذہب کو دوسرے فریق کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ میں گزشتہ کئی کالموں میں مذہب کے اس سوئے استعمال کے بہت سے مظاہر کا ذکر کر چکا۔ اس فضا سے دوسری جماعتوں نے بھی حسبِ توفیق فائدہ اٹھایا۔ مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف مذہب اور مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا۔ عمران خان نے بھی ختمِ نبوت کے معاملے میں یہی حربہ ن لیگ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔
اب یہی تلوار عمران خان کے خلاف بھی بے نیام ہے۔ اسی لیے میں اسے دو دھاری تلوار کہتا ہوں۔ یہی مذہب کی تلوار کچھ عرصے سے نواز شریف صاحب کے خلاف چلائی جاتی رہی۔ کبھی قادیانیوں کے مسئلے پر اور کبھی ہولی جیسے تہواروں میں شرکت پر۔ انتہا پسندی جس معاشرے کے رگ و پے سرایت کر چکی ہو، وہاں اس ہتھیار کا استعمال کتنا تباہ کن ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
اس تلوار کو اہلِ مذہب جس طرح ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں، اس کی داستان بھی کم دل خراش نہیں۔ اس میں مزید افسوس کا پہلو یہ ہے کہ یہ محض ماضی کا قصہ نہیں، حال کی کہانی بھی ہے۔ 'فرائیڈے اسپیشل‘ جماعت اسلامی کے حلقے سے وابستہ ایک ہفت روزہ ہے۔ اس کی 9 فروری 2018ء کی اشاعت میں مولانا مفتی امتیاز مروت صاحب کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے۔ مفتی صاحب کے تعارف میں درج ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ اتحصیل ہیں اور بائیس سال تک، ان کا شمار مسلکِ دیوبند کے مرکزی علما میں ہوتا رہا ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے محاسن اور جدوجہد پر 'ضربِ قائد‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ اسی طرح 'کاروانِ حریت‘ میں جمعیت علمائے اسلام کی دینی خدمات کو موضوع بنایا ہے۔
مفتی صاحب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی اس تحریری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے، مولانا فضل الرحمٰن نے انہیں یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مولانا مودودی پر بھی ایک تنقیدی کتاب لکھیں۔ انہوں نے جب اس مقصد کے لیے مولانا کی کتابوں کا براہ راست مطالعہ کیا تو ان کے بقول، انہیں یہ اندازہ ہوا کہ مولانا کے خلاف کیسا بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ یہ مطالعہ ان کے لیے مولانا مودودی کے ساتھ فکری قرب کا باعث بنا اور وہ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے۔
مفتی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام میں رہتے ہوئے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے بارے میں ان کے خیالات کیا تھے تو جواباً ان کا کہنا تھا ''[ہماری] سوچ یہ تھی کہ جماعت اسلامی ایک گمراہ جماعت ہے۔ مولانا مودودی یہودی ایجنٹ ہیں اور وہ تجدیدِ دین کے نام پر تخریبِ دین چاہتے ہیں‘‘۔ میں یہ انٹرویو پڑھ کر قدرت کی ستم ظریفی پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ تاریخ اپنے آپ کو اس طرح دھرا رہی ہے کہ جماعت اسلامی کے چند دوست آج کسی اور کے بارے میں انہی خیالات کا چرچا کر رہے ہیں۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ ہے، بتانا یہ ہے کہ دین جب دنیاوی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگے تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ اہلِ مذہب باہم دست و گریباں ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی حسنِ ظن باقی نہیں رہتا۔ دین بے زار لوگ اس صورتِ حال کو مذہب کے خلاف ہتھیار بنا لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک عرصے سے سیاسی و دنیاوی مفادات کے لیے مذہب کا ستعمال بڑھ رہا ہے، جس پر متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔ مذہب کا جوہر خود احتسابی ہے۔ تزکیہ نفس اس کا ہدف ہے۔ وہ عمر بھر اپنی اصلاح کی فکر میں رہتا ہے۔ ہمارا معاملہ ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی مذہبی ہو جاتا ہے تو وہ اپنا تزکیہ کرنے کے بجائے، دوسروں کی دین داری پر زیادہ نظر رکھتا ہے۔ اس کی زیادہ دلچسپی دوسروں کے کفر و ایمان سے ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے اسلام پر نگاہ رکھتا ہے اور اپنے آپ سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ وہی رویہ جس کی نشاندہی سیدنا مسیحؑ نے کی تھی کہ لوگ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو دیکھ لیتے ہیں مگر انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
عمران خان اس باب میں بہت سخی ہیں کہ وہ دوسروں کو سیاسی تنقید کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ان پر تنقید کے لیے ضروری نہیں کہ ان پر مذہبی حملے کیے جائیں۔ سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے۔ اس کو مذہبی بنانے کا مطلب اسے ان اخلاقی آداب کے تابع کرنا ہے، مذہب جن کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں سب سے اہم دوسروں پر تہمت لگانے سے گریز ہے۔ تنقید نقطہ نظر پر ہوتی ہے۔ سیاسی رویوں پر ہوتی ہے۔ دوسروں کے دین و ایمان کا فیصلہ ہمارا کام نہیں۔ ایک تحقیقی رپورٹر اگر کوئی ایسی خبر سامنے لاتا ہے جس پر پردہ ڈالا جا رہا ہے تو یہ اس کے فرائضِ منصبی میں سے ہے۔ اس کا کام بس اتنا ہے۔ خبر پر ایسے تبصرے جس کا مقصد کسی کی کردار کشی ہو اور اس کے لیے مذہب کو استعمال کیا جائے، ایک قابلِ مذمت فعل ہے۔
یہ ایک تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج لوگ سیاست و صحافت میں مذہبی ہتھیار کا بے دریغ استعمال کرنے لگے ہیں۔ مذہب کی بنیاد خوفِ خدا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر کہی گئی کوئی بات ذاتی تعصب اور جذبات تو ہو سکتے ہیں، ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب کو دنیاوی و سیاسی معرکوں کے لیے ہتھیار بنانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ سب اس کی زد میں آئیں گے۔ شمشیر زن بھی بچ نہیں پائیں گے۔