عمران خان، زرداری کے ہاتھ پر بیعت کر کے، خود شکستگی کی عبرتناک مثال بن گئے۔ پاکستانی سیاست کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا احیا دراصل تحریکِ انصاف کا زوال ہے۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف پیپلز پارٹی کے سابقین کے سوا کیا ہے؟ اس وقت مگر میرا سوال دوسرا ہے۔ کیا نواز شریف کا جرم ایسا ناقابلِ معافی ہے کہ انہیں سیاسی عمل سے غیر متعلق کرنے کے لیے سماج، مذہب، سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے؟
جامعہ نعیمیہ کا حادثہ میرے نزدیک منفرد ہے۔ اس واقعے کا جوتم پیزاری کے اس کلچر سے زیادہ تعلق نہیں ہے، جس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھ رہے ہیں۔ اس کا تعلق اس جنونیت سے ہے، جسے اب نواز شریف کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ بتا رہا ہے کہ کس طرح اعتدال کی آوازوں کو کمزور کیا جا رہا ہے اور ہر مذہبی طبقے کی باگ ان ہاتھوں میں تھمائی جا رہی ہے جو انتہا پسند ہیں۔ نواز شریف کو اس کا فائدہ پہنچے یا نقصان، اس کا جو نقصان ہمارے معاشرے کو پہنچ رہا ہے، اس کے نقطہ عروج کے بارے میں سوچ کر ہی بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔
رواداری بریلوی مسلک کی پہچان تھی۔ اس نقطہ نظر نے جب ایک گروہ کی صورت اختیار کی تو ابتدا میں ایسے فتوے سامنے آئے جو مذہبی انتہا پسندی کے مظہر تھے؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسلک کے لوگ صوفیانہ روایت سے قریب تر ہوتے گئے۔ انہوں نے خود کو ان سیاسی اور سماجی قضیوں سے الگ رکھا جو معاشرے میں انتشار کا باعث بن سکتے ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے ہمارے ہاں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کا ذکر ہوتا تھا تو بعض دوسرے مسالک کی بات ہوتی تھی۔ اب صورتِ حال تیزی سے بدل رہی ہے۔
بریلوی مسلک میں بھی جامعہ نعیمیہ مزید اعتدال کی علامت ہے۔ یہ تین نسلوں سے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے بھی سماجی رواداری کا پیغام عام کر رہا ہے۔ مفتی سرفراز نعیمی نے تو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی جان دے دی۔ ان کے صاحبزادے مفتی راغب نعیمی بھی اپنے باپ دادا کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
اس خاندان کے شریف فیملی سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اس میں کوئی بات اچنبھے کی نہیں۔ سندھ کی کئی گدیاں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ تحریکِ انصاف میں عمران خان کے مردِ ثانی شاہ محمود قریشی خود گدی نشین ہیں۔ جامعہ نعیمیہ بطور ادارہ کسی سیاسی جماعت سے متعلق نہیں‘ لیکن شریف خاندان کے قریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اعتدال کی علامت اس مدرسے کو اس حادثے کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟ کیا یہ اُس انتخابی مہم کی تمہید ہے جو نواز شریف کے خلاف منظم کی جا رہی ہے؟
میں اپنی اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ نواز شریف ایک سیاست دان ہیں۔ ان کے مخالفین کو ان کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ان کے طرزِ سیاست، منشور اور عرصہ حکومت کو زیرِ بحث لانا چاہیے۔ عوام میں سیاسی موضوعات کے حوالے سے رائے سازی کرنی چاہیے۔ اگر عام انتخابات میں لوگ نواز شریف مخالف بیانیہ قبول کر لیتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ وہ حکومت بنائیں اور اگر رد کر دیتے ہیں تو نواز شریف کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل پیرا ہوں۔
بدقسمتی سے اب کسی اور راستے پر پیش قدمی ہو رہی ہے۔ بلوچستان سے جس تبدیلی کا آغاز ہوا تھا، اس کا بنیادی ہدف یہی تھا کہ نواز شریف کو سیاسی عمل سے باہر کیا جائے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب تک جو کچھ ہوا، پوری قوم اس کی گواہ ہے۔ سوال یہ نہیںکہ چیئرمین سینیٹ کون بنا، سوال یہ ہے کہ کیسے بنا؟ کیا سب کو دکھائی نہیں دے رہا کہ عمران زرداری اتحاد کیسے وجود میں آیا۔ ایک سیاسی عمل پر غیر سیاسی قوت کا سایہ اتنا گہرا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا وجود اس میں تحلیل ہو گیا ہے۔
میں پیپلز پارٹی کو وفاق کی مضبوطی کے لیے ضروری سمجھتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اسی وقت وفاق کی علامت بن سکتی ہے جب وہ عوام کی نمائندگی کرے گی۔ اگر اس کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ وہ غیر سیاسی ہاتھوں میں ایک کھلونا ہے تو یہ پیپلز پارٹی کے لیے تباہ کن تو ہے ہی، وفاق کے لیے بھی اچھا شگون نہیں ہے۔ مضبوط وفاق کے لیے پاکستان کو مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں ریاستی اداروں کی یہ سوچ وقت کے ساتھ پختہ ہوئی ہے کہ ایک مقبول لیڈر وفاق کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی سیاسی راہنما مقبولیت کی ایک خاص حد کو پار کرتا ہے، اس کے پر کترنے کے لیے قینچیاں تیار ہو جاتی ہیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اب نواز شریف۔ یہ ایک ہی کہانی کے مختلف عنوان ہیں۔ حادثہ یہ ہے کہ ہر بار یہ قینچی کسی سیاست دان کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔ کبھی یہ نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں تھی۔ آج یہ عمران خان اور زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی اس بات کا تجزیہ کرنے کو تیار نہیں کہ ہر بار ملک و قوم کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔
نواز شریف صاحب کے خلاف ایک ہتھیار اہلِ مذہب کے ہاتھ میں بھی تھما دیا گیا ہے۔ یہ عمران خان ہوں یا خادم رضوی صاحب، دونوں کا میدانِ کار مختلف ہے لیکن دونوں نے سماج پر ایک طرح کے اثرات مرتب کیے ہیں۔ دونوں نے انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ ایک نے سیاسی رویوں کو انتہا پسند بنایا ہے اور دوسرے نے مذہبی رویے کو۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں کا ہدف نواز شریف ہیں؟
نواز شریف صاحب نے 2013ء میں مفاہمت کی سیاست اپنائی۔ انہوں نے مذہب و سیاست میں اعتدال کے رویے کو فروغ دیا۔ ہر سیاسی جماعت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے ساتھ معاملہ کیا۔ مذہبی اقلیتوں کو احساس دلایا کہ بحیثیت پاکستانی، وہ کسی دوسرے سے کم تر نہیں۔ یہ ایک نئے پاکستان کا تصور تھا جس میں سماجی اور سیاسی سطح پر امن اور مثبت مسابقت جیسی اقدار کو بنیاد کی حیثیت حاصل تھی۔ کسی سیاسی سرگرمی پر پابندی نہیں تھی۔ ہر کسی کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی بات عوام کے سامنے رکھے۔ افسوس کو اس کو انتہا پسندی کی نذر کر دیا گیا۔ ایک سیاسی راہنما عمران خان اور ایک مذہبی راہنما طاہرالقادری نے اپنی شعلہ بیانی سے معاشرے کو ایک بار پھر انتہا پسندی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔
چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی صاحب کا نام سامنے لا کر نواز شریف صاحب نے ایک بار پھر سیاسی عمل کو معتدل بنانے کی کوشش کی۔ اس کو بھی رد کر دیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ نواز شریف صاحب کی ہر صورت میں مخالفت مطلوب ہے۔ عمران خان نے اب کوئی ابہام نہیں رہنے دیا کہ ان کا ہدف نواز شریف ہیں، کرپشن نہیں۔ ان کا مسئلہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایک نرگسیت زدہ آدمی انتخابی شکست کو برداشت نہیں کر پا رہا مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان کی اس نفسیاتی کیفیت کو کون استعمال کر رہا ہے؟ کس نے عمران خان کو بھی زرداری صاحب کی بیعت پر مجبور کر دیا؟ اہم تر سوال یہ ہے کہ نواز شریف کا وہ جرم کیا ہے کہ ان کو نیچا دکھانے کے لیے، ہر قدم اٹھایا جا سکتا ہے؟
میں سالوں سے مذہب کا طالب علم ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جب مذہب کو سیاسی اور دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو معاشرے کس طرح برباد ہو جاتے ہیں۔ میری تشویش اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کے خلاف مذہب کو بھی بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے جس کا ایک مظہر جامعہ نعیمیہ کا واقعہ ہے۔ کیا یہ ماحول پیدا کرنے والے جانتے ہیں کہ سماج کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی؟ کیا ہم اس مذہبی انتہا پسندی کے اثرات سے واقف نہیں جو پاکستان تیس سال سے بھگت رہا ہے؟