میں اِس لمحے کی چاپ مسلسل سن رہا تھا جو دبے پاؤں قریب سے قریب تر آتا جا رہا تھا۔
وہ لمحہ‘ جب کسی کے لیے یہ ممکن نہ رہے کہ وہ تحریر و تقریر میں کوئی مذہبی حوالہ دے سکے۔ یہ مذہبی انتہاپسندی کا ناگزیر نتیجہ ہے جب لوگ اپنی تاویل پر اصرارکرتے اور اسے واحد تعبیر سمجھتے ہیں۔ اس سے مختلف کوئی تاویل ان کے نزدیک تجدد، الحاد، فتنہ یا پھر توہینِ مذہب ہے۔ یا لوگ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے اورعوام کو مذہبی ہیجان میں مبتلا کرتے ہیں۔ میرا یہ خدشہ جن طبقات کی طرف سے تھا‘ وہ ظاہر و باہر ہیں۔ مجھے یہ گمان تک نہیں تھا کہ یہ اندازِ نظر ان ذہنوں تک بھی سرایت کر جا ئے گا جنہیں میں اعتدال، توسع، علم اور حسنِ خلق کی علامت جانتا ہوں۔کیا کسی فرد، خاندان یا گروہ سے نفرت ہمیں اس منزل تک لا سکتی ہے کہ ہم سوئے ظن کے آخری درجے تک جا پہنچیںاور اسے توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دے دیں؟ جب معاملہ یہاں تک آ پہنچے تو پھر امید کے سب چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ شاید وہ وقت آ پہنچا۔
میں ایک صاحب کے علم کا قدر دان تھا۔ ان کی ایک تحریر نے مجھے پریشان کر دیا۔ لکھا کہ غلامی کو برا کہنا مذہب پر اعتراض ہے۔ میں پڑھ کر حیران و ششدر رہ گیا۔ دلیل یہ دی کہ جو کام اللہ کے رسول یا صحابہ نے کیا ہو، اس پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ اپنی تائیدمیں انہوں نے فقہا کو بھی لا کھڑا کیا۔ اس فتوے کا شانِ نزول یہ تھا کہ ان کا اپنے استاد سے اختلاف ہو گیا۔ انہوں نے استاد کے افکار کے ابطال کو اپنی زندگی کا مشن قرار دے دیا۔ یہ جملہ استاد کے زیر نگرانی چھپنے والے رسالے میں شائع ہوا تو انہوں نے اسے غنیمت جانا اور استاد کے خلاف مذہبی تعلیمات کی مخالفت کا مقدمہ کھڑا کردیا۔ یہ تحریر پڑھتے وقت‘ میں نے اس لمحے کی چاپ بہت قریب سے سنی۔
قدموں کی یہ آہٹ مجھے ماضی میں لے گئی جب انتہا پسندانہ مذہبی رویے نے خود مسلمانوںکی تکفیر کا دروازہ کھولا۔ اس کا باضابطہ آغاز شاہ اسماعیل شہید کے ایک جملے سے ہوا۔ دین کے ساتھ ان کی وابستگی اور دینی حمیت کے ان گنت مظاہر کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ ان کے ایک جملے کو وہ معنی پہنائے گئے جو مصنف کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ یوں انہیں مسلمانوں کی صفوں سے نکال دیا گیا۔ برصغیر میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ آنے والے دنوں میں یہ رویہ زندہ رہا مگر اہداف بدلتے رہے۔ سرسید، اقبال، شبلی... ہماری تاریخ کا کون سا نامور ہے جس نے دینی موضوعات پر کلام کیا ہو اور اس رویہ کا شکار نہ ہوا ہو۔
پاکستان بننے کے بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس طرزِعمل کا بطورِ خاص نشانہ بنے۔ مذہبی مخالفین نے توہینِ صحابہ اور تجدد کا ملزم ٹھہرایا۔ سیاسی مخالفین نے امریکہ کا ایجنٹ کہا۔ 'فتنۂ مودودیت‘ جیسے عنوانات کے ساتھ کتابیں لکھی گئیں۔ ان کے جملوں کو ایسے ایسے معنی پہنائے گئے جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھے۔ قربِ قیامت کے باب میں پیش کی جانے والی بعض روایات کی انہوں نے خاص تعبیر کی تو کہا گیا کہ یہ مہدی ہونے کا اعلان کر نے والے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی زندگی میں ہوا۔ بار ہا ان الزامات کی تردیدکی مگرکسی نے مان کر نہیں دیا۔ یہ سب الزامات آج بھی اُسی طرح دہرائے جاتے ہیں۔
آج ہم پھر اس رویے کی زد میں ہیں۔ اب تو یہ ممکن نہیں رہا کہ کسی عصری واقعے پر اسلامی تاریخ سے استدلال کیا جائے۔ کسی اچھی قدر کے بارے میں یہ کہا جا ئے کہ اسے فلاں برگزیدہ ہستی سے نسبت ہے۔ آج اقبال ہوتے تو ''قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں‘‘ جیسے بے شمار مصرعوں سے اعلانِ برأت کرتے۔ انہوں نے نانک کو توحید کی صدا اور 'مردِ کامل‘ کہا۔ انہیں اس سے بھی رجوع کرنا پڑتا۔ بصورتِ دیگر کسی مذہبی عدالت میںکھڑے توہینِ مذہب کا مقدمہ بھگت رہے ہوتے۔ اب تو لکھنے والوں کو صبرِ ایوب اور حسنِ یوسف جیسی تشبیہات سے بھی بچنا ہو گا۔
کل ہی میں ایک بہت محترم تجزیہ کار اور مستند صحافی کو سن رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی کسی شق کا مفہوم اخذ کرتے وقت‘ آئین کی دیگر شقوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ بطور مثال انہوں نے ایسے اصولوں کا حوالہ دیا جو مذہبی متنوں کی تفسیر و تفہیم کے لئے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ میں ان سے رابطہ کروں اور انہیں بتاؤں کی ایسی تشبیہ سے گریز کریں۔ اگر کوئی آپ کو اس کا مجرم ٹھہرا دے کہ آپ نے ایک انسانی تحریر کا موازنہ، الہامی کلام سے کیا ہے تو آپ کس کس کو بتاتے رہیں گے کہ آپ کا یہ مطلب نہیں تھا۔ پھر آپ کا وہی مطلب مراد لیا جائے گا جو لوگ بیان کریں گے۔
میں خود بار ہا اس رویے کا شکار ہوا۔ اب تو یہ کیفیت ہے کہ مذہب کے باب میں کوئی جملہ لکھتا ہوں تو اسے بار بار پڑھتا ہوں۔ نہیں معلوم کون اس سے کیا مفہوم اخذ کرے۔ کسی کو مذہبی معاملات میںکوئی مشورہ یا رائے دینے سے بھی گریز کرتا ہوںکہ کل نہ جانے وہ اسے کس طرح بیان کرے اور میں کسی ایسی بات کا مجرم ٹھہرایا جاؤں جو میرے گمان میں بھی نہ تھی۔ عملاً یہ ممکن نہیں کہ آپ ہر بات کی تردید کریں یا آپ کی تردید ان لوگوں تک پہنچ سکے جن تک آپ کی بات کسی دوسرے مفہوم میں پہنچائی گئی ہے۔ یہ معاملہ صرف لکھنے والے تک محدود نہیں، شائع کرنے والا بھی مسلسل خوف میں رہتا ہے۔ اسی خوف کے پیشِ نظر مجھے بار ہا اپنے کالم کے جملے تبدیل کرنا پڑتے ہیں کہ شائع کرنے والے کی تشویش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انسا ن کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تادیر خوف کی فضا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ مذہب کے معاملے میںجو خوف پیدا کر دیا گیا ہے، اس کے دو نتائج متوقع ہیں۔ ایک یہ لوگ تحریر اور تقریر میں مذہبی حوالے سے گریز کرنے لگیں۔ کوئی سیاسی راہنما یہ نہ کہے کہ اس نے فلاں پیغمبر کے اسوہ کو اپنایا ہے یا وہ فلاں صحابی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ کوئی کالم یا مضمون نگار مذہبی حوالہ نہ دے اور اگر دے تو اخبار اسے شائع کرنے سے معذرت کر لے۔ اس کا انجام یہ ہے کہ مذہب معاشرے سے غیر متعلق ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لوگ مذہب ہی سے بیزار ہو جائیں اور اہلِ یورپ کی طرح اس نتیجے تک پہنچ جائیں کہ مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے‘ اس کا معاشرے یا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔
اب تو یہ عالم ہو چکا کہ قائداعظم سے نسبت بھی نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔ گویا دھیرے دھیرے انہیں بھی مذہبی تقدس دیا جا رہا ہے۔ مذہبی تقدس دینے کا مطلب انہیں عصری بیانیے سے غیر متعلق کرنا ہے۔ کوئی سیرت سے مثال تلاش کر سکتا ہے اور نہ کوئی قائداعظم ثانی بننے کی خواہش کر سکتا ہے۔ گویا نبوت کے ساتھ قیادت کا باب بھی بند ہو گیا۔ عمران خان ایک سے زیادہ بار اپنی جدوجہد کے لئے مذہبی تاریخ کا حوالہ دے چکے ہیں۔ مریم نواز نے بھی اپنی مشکلات کے لئے مذہبی تاریخ کا ذکر کیا۔ ان دونوں کو مستقبل میں ایسی مثالوں سے گریز کر نا ہو گا۔ شہباز شریف صاحب قائداعظم کے ثانی کی تلاش میں ہیں۔ انہیں بھی ایسی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔
کیا قومیں اپنے مذہب، تاریخ اور مشاہیر کی اسی طرح عزت کرتی ہیں؟ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ اندھی محبت اور نفرت ہمیں کہاں لے جا رہی ہے؟ جن سے ہم ادب، تہذیب اور کلام کے انداز سیکھتے ہیں‘ ادب اور کلام کے شائستہ اسالیب سے آگاہ ہوتے ہیں‘ حسنِ ظن کا درس لیتے ہیں، اگر وہ بھی اسی رو میں بہہ نکلیں تو پھر یہ معاشرہ کہاں جائے گا؟
میں ایک مدت سے جس لمحے کے چاپ سن رہا تھا، شاید وہ آ پہنچا! اب شاید ہی کوئی مذہب کا حوالہ دے پائے۔