یہ جمعہ کی رات کا واقعہ ہے۔
میرے خالہ زاد کا ڈرائیور سردار خان اچانک بیمار پڑ گیا۔ سردار راولپنڈی میں میرے گھر کے قریب ہی رہتا ہے۔ سردار خان ایک کثیرالعیال آدمی ہے۔ وسائل بہت محدود ہیں۔ بڑا بیٹا پڑھا لکھا نہیں۔ ایک ہنگامی صورتِ حال کا سامنا ہوا۔ خاندان کو سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے۔ خیر کسی طرح سے ایک سرکاری ہسپتال، ہولی فیملی پہنچایا گیا۔ ایمرجنسی میں ڈاکٹرز نے دیکھا تو بتایا کہ دل کا شدید دورہ پڑا ہے اور اسے فوراً امراضِ قلب کے مرکز 'راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، پہنچانا ہو گا۔ یہ ہسپتال خطۂ پوٹھوہار کے لئے شہباز شریف کا ایک تحفہ بلکہ صدقۂ جاریہ ہے۔
غریب آدمی کے پاس ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں تھا۔ ہسپتال نے ایمبولینس کا بندوبست کیا اور آر آئی سی، اس اہتمام کے ساتھ روانہ کیا کہ ایک ڈاکٹر ہمراہ ہوا۔ وہاں پہنچے تو بتایا گیا کہ فوری طور پر ایک انجیکشن لگنا ہے جس کی مالیت پانچ ہزار روپے ہے۔ وہی مسئلہ کہ پانچ ہزار کہاں سے آئیں۔ ڈاکٹرز کو معلوم ہوا تو انہوں نے مطالبہ کیے بغیر انجیکشن لگا دیا۔ مریض کے لیے چوبیس گھنٹے اہم قرار پائے۔ معلوم ہوا کہ ایک شریان بند ہے۔ آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ سٹنٹ ڈال دیا گیا۔ اللہ نے جان بچائی۔ ہسپتال میں اب بھی زیرِ علاج ہے۔ اس علاج پر لاکھوں روپے اٹھتے ہیں۔ سردار خان کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا۔ وہ ایک عام شہری ہے جس کی کوئی سفارش ہے نہ جان پہچان۔
ایک قصہ اور۔ میرے گھر میں برسوں سے ایک لڑکی کام کرتی ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب مسیحی خاندان سے ہے۔ دو ماہ پہلے، ایک رات یہ لڑکی ہمارے گھر آئی اور بتایا کہ اس کے والد شدید بیمار ہو گئے ہیں‘ اور انہیں ہسپتال پہنچانا ہے۔ گھر میں ایک پیسہ نہیں۔ اگلے دن پوری کہانی معلوم ہوئی۔ مریض کو سرکاری بے نظیر ہسپتال لے جایا گیا۔ پتا چلا کہ دل کا عارضہ ہے۔ قصہ کوتاہ، آر آئی سی بھجوا دیا گیا۔ دو آپریشن ہوئے۔ اللہ نے شفا دی۔ تین ماہ سے دوائیاں کھا رہا ہے جو اسی ہسپتال سے مل رہی ہیں۔ اس سارے عمل میں اس کا ایک پیسہ صرف نہیں ہوا۔ اُس کی بیوی ٹی بی کی مریضہ ہے اور اس کا بھی مفت علاج ہو رہا ہے۔
تیسرا قصہ سنیں۔ میری خالہ دو ہفتے بے نظیر ہسپتال میں گزار کر پیر کو واپس لوٹی ہیں۔ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ان کا بیٹا برطانیہ سے آ گیا۔ ہسپتال میں بے شمار ٹیسٹ ہوئے۔ انہیں کوئی پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔ ہسپتال کے ماحول، ڈاکٹرز کے رویے اور علاج کے بارے میں پورا خاندان رطب اللسان ہے۔ بیٹا حیران ہے کہ اس کو تو پنجاب کے ہسپتالوں کے بارے میں کچھ اور بتایا گیا تھا۔ یہ گھرانہ عمران خان کا غالی معتقد ہے اور شریف خاندان سے اتنی ہی نفرت کرتا ہے جتنی عمران خان۔ تاہم ان میں یہ خدا خوفی ضرور موجود ہے کہ آنکھوں دیکھے کو جھٹلاتے نہیں۔
میں نے یہ واقعات اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اور عینی شہادت کے بنیاد پر بیان کیے ہیں۔ راولپنڈی کی سرکاری ہسپتالوں سے میرا اکثر پالا پڑتا ہے۔ میرا تعلق ایک متوسط خاندان سے ہے۔ میرے عزیز و اقارب کی اکثریت علاج کے لیے انہی سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے۔ میں خود علاج کے لیے سرکاری ہسپتال کو ترجیح دیتا ہوں کہ یہ ہزاروںغیر سرکاری ہسپتالوں سے لاکھوں درجے بہتر ہیں۔ جو غیر سرکاری ہسپتال ان سے بہتر ہیں، ان کا علاج میری استطاعت سے باہر ہے۔ میرے بڑے بھائی کو الرجی کی شکایت ہے۔ دو دن پہلے وہ اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال گئے۔ دو دن میں کم و بیش پچاس ہزار کے ٹیسٹ ہوئے۔ علاج اس کے بعد شروع ہونا ہے۔
پنجاب کے دوسرے علاقوں کی صورتِ حال کیا ہے، میرے پاس اس کی کوئی براہ راست گواہی نہیں۔ میں نے صرف وہ کچھ بیان کیا، جو میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ ایک ایسے وقت پر جب چاروں طرف بے بنیاد خبروں کا غبار ہو۔ پروپیگنڈے کا دھواں اس طرح پھیلا ہو کہ حق کی تلاش مشکل کر دی جائے، ہم پر لازم ہے کہ ہم سچ کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ اگر کسی کا مشاہدہ مجھ سے مختلف ہے تو اسے بھی صحتِ واقعہ کے ساتھ اسے بیان کر دینا چاہیے؛ تاہم واقعات کے بیان میں سیاسی اور سماجی سیاق و سباق کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی راولپنڈی کے ہسپتالوں میں جائے تو وہ چند باتیں بغیر کسی تردد کے جان لیتا ہے۔ ایک یہ کہ مریضوں کی بڑی تعداد کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ ایک بڑی تعداد وہ ہے جو آزاد کشمیر سے یہاں کا رخ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کے پی اور کشمیر میں صحت کی سہولتیں بہتر ہو جائیں تو یہاں کے ہسپتالوں میں رش کم ہو جائے گا۔ اسی طرح آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کوئی حکمتِ عملی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ ڈرائیور سردار خان کے ماشااللہ دس بچے ہیں۔و ہ اب بھی 'امید سے ہے‘ کہ خدا کے کارخانے میں کوئی کمی نہیں۔
آج سیاسی حکومتوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنے کاموں کی تشہیر نہیں کر سکتیں۔ مجھ پر اس پابندی کی حکمت کبھی واضح نہیں ہو سکی۔ یہ سیاسی حکومتوں کا حق ہے کہ وہ عوام کو اپنی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کریں۔ یہ عوام کا بھی حق ہے کہ وہ حکومتوں کے کاموں سے باخبر رہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عوام نے جن کا انتخاب کیا، انہوں نے ملک اور عوام کے لیے کیا کیا؟ اس کے بعد ہی وہ درست طور پر فیصلہ کر سکیں گے کہ وہ کسے ووٹ دیں۔ میں یہ بھی نہیں جان سکا کہ حکومتوں کو ترقیاتی کاموں سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ آئین انہیں پانچ سال کے لیے کام کی اجازت دیتا ہے۔ اس عرصے میں انہیں ترقیاتی کاموں سے کیسے منع کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیسی جمہوری ریاست ہے کہ جہاں جھوٹے پروپیگنڈے پر کوئی پابندی نہیں‘ مگر اپنے کاموں کی تشہیر پر قدغن ہے۔ اگر پنجاب حکومت پر کوئی سیاست دان یہ الزام لگاتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں کوئی ہسپتال نہیں بنایا تو کیا حکومت کو جواباً یہ تشہیر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ اس نے فلاں فلاں مقام پر ہسپتال بنایا ہے؟
مثبت سیاسی ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ سیاست کا ایجنڈا تبدیل ہو۔ یہ الزام تراشی کے بجائے کارکردگی ہو۔ سیاسی جماعتوں میں مثبت مسابقت ہو کہ کس نے عوام کے ساتھ کیے وعدے پورے کیے ہیں؟ کون صلاحیت اور اخلاق کے اعتبار سے بہتر ہے؟ کون زیادہ دیانت دار اور شفاف ہے؟ میڈیا بھی کارکردگی کا موازنہ پیش کرے۔ اس وقت ساری سیاست مفروضوں اور الزامات کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہمارے میڈیا سے متعلق اکثر رائے ساز ماشااللہ آسودہ حال ہیں۔ ان کا شاید ہی سرکاری ہسپتالوں یا تعلیمی اداروں سے پالا پڑا ہو۔ یوں بھی ہمارے ہاں اچھی خبر کوئی خبر نہیں ہوتی۔
صحیح فیصلہ صرف عوام کر سکتے ہیں جن کا آئے دن ہسپتالوں اور سکولوں سے واسطہ پڑتا ہے؛ تاہم راولپنڈی میں بیٹھا یہ نہیں جانتا کہ چیچہ وطنی کے ہسپتال کا حال کیسا ہے۔ اب میڈیا اسے جو بتا دے، وہ اس کی بنیاد پر ایک رائے بناتا ہے۔ اگر حکومتیں اپنی کارکردگی کی تشہیر نہیں کر سکتیں اور میڈیا کا کردار مشتبہ ہے تو سچ تک رسائی کا متبادل ذریعہ کیا ہے؟ شاید سوشل میڈیا؟
میرا خیال ہے کہ سب سے موثر ذریعہ عوام کی آنکھیں اور مقامی تناظر ہے۔ ہر کسی کو اپنے ارد گرد نگاہ دوڑانا چاہیے۔ سکول پہلے سے بہتر ہیں یا خراب؟ ہسپتالوں کی حالت میں، کیا کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے؟ سڑکیں پہلے سے بہتر ہیں یا ابتر؟ لوڈ شیڈنگ پہلے سے زیادہ ہے یا کم؟ گزشتہ پانچ سال میں کس نے تعمیر کی بات کی اور کس نے تخریب کی؟ ہسپتالوں کے باب میں، میں نے اپنی شہادت آپ کے سامنے رکھی ہے۔ آپ بھی اپنے ارد گرد دیکھیں اور ان سوالات کے جواب تلاش کریں۔ درست وہی ہے جس کی گواہی آپ کی آنکھ اور دل دیتا ہے۔ اس باب میں تقابل بھی ضروری ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہر سیاسی جماعت حکومت میں رہی ہے۔
مکرر عرض ہے کہ اہلِ سیاست سے عوام کا تعلق رومانوی نہیں حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ مذہبی یا سماجی رومان، سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ عوام کو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ کون ان کے مسائل بہتر طور پر حل کر سکتا ہے؟ آئیڈیل کہیں نہیں پایا جاتا۔ آئیڈیل کے پیچھے بھاگنے کے بجائے حقیقت پسندی سے لیڈر کا انتخاب کرنا چاہیے۔