وژن، حسنِ کارکردگی اور تسلسل۔
اگر ادارہ سازی منزل ہے تو پھر زادِ راہ یہی ہے۔ یہ جمہوری ادارے ہوں یا حکومتی و ریاستی، آئے دن کی ا کھاڑ پچھاڑ سے تسلسل نہیں رہتا۔ عدم تسلسل سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ کارکردگی نہ ہو تو وژن کس کام کا؟ پاکستان اگر بحرانوں کی زد میں رہتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ادارے نہیں بنا سکے۔ ہمیں امورِ مملکت چلانے کے لیے، رجالِ کار چاہئیں۔ قدرت یہ فیاضی کم ہی کرتی ہے کہ آئے دن لوگ خداداد صلاحیتوں کے ساتھ جنم لیں۔ افراد عام طور پر اداروں ہی میں ڈھلتے ہیں۔ ادارہ سازی کا ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب افرادکی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ خدوخال تراشنے کا وقت ہوتا ہے۔ ایسے مرحلے پر وژن اہم تر ہوتا ہے۔ جب ایک صورت نمودار ہو جائے تو پھر حسنِ کارکردگی کا کردار بڑھ جاتا ہے۔
قومی تشکیل میں تعلیم سب سے اہم ہوتی ہے۔ یہاں تعلیم کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ قائداعظم زندہ تھے تو پہلی تعلیمی کانفرنس ہوئی۔ انہوں نے کانفرنس کے نام اپنے پیغام میںایک وژن دیا۔ ان کی وفات کے بعد کیا سیاست اور کیا تعلیم، ہر میدان میںان کے وژن کو بے رحمی کے ساتھ نظر انداز کیا گیا۔ جب تعلیم ہماری ترجیح ہی نہ بن سکی تو پھر وژن کیسا؟
میرا احساس ہے کہ قومی تشکیل کے لیے دو باتیں اہم تر تھیں۔ ایک تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو اور دوسرا مقامی ضروریات کے تحت نوکر شاہی کی اصلاح۔ ان دونوں امور میں ہم نے انگریزوں کے ورثے کو گلے لگا لیا۔ انگریزی دور میں ہماری تعلیم دینی اور دنیاوی، دو حصوں میں بٹ گئی۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ درسِ نظامی جو بعد میں دینی تعلیم کے لیے خاص ہو گیا، اصلاً نظامِ مملکت کے لیے رجال کار تیار کرنے کا ایک نظام تھا۔ انگریزوں کے دور میں ریاست کی ضروریات تبدیل ہو گئیں۔ انہوں نے اس کے لیے ایک تعلیمی نظام دیا جس میں مذہب کی تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ مسلم معاشرے نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا اور نجی وسائل سے اس کو زندہ رکھا۔
پاکستان بننے کے بعد دینی اور دنیاوی ضروریات کو یکجا ہو جانا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ تعلیم کے باب میںہم آج تک انگریزی دور میں زندہ ہیں۔ ایک طرف مدرسہ اور دوسری طرف سکول۔ قوم واضح طور پر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہی نہیں، دنیاوی تعلیم بھی تقسیم در تقسیم سے گزرتی رہی۔ یوں قومی وحدت یومِ قائداعظم کی تقریبات کے وعظ تک محدود ہو گئی۔
یہی معاملہ بیورو کریسی کا ہے۔ انگریزوں نے ایک محکوم قو م کے لیے گورننس کا ایک نظام وضع کیا۔ ہم نے آج تک اسے سینے سے لگا رکھا ہے۔ آج بھی ایک سرکاری افسر کا مزاج یہی ہے کہ وہ عوام کا خادم نہیں، مخدوم ہے۔ ایک اچھے افسر کی خوبی یہ ہے کہ اس کے اور عوام کے درمیان ایک ناقابلِ عبور فاصلہ باقی رہے۔ یہ نظام اس طرح جڑ پکڑ چکا ہے کہ ایک منتخب عوامی نمائندہ جب اس کا حصہ بنتا ہے تو وہ کانِ نمک میں نمک بن جاتا ہے۔ عوام میں رہنے والا جب وزیر بنتا ہے تو عوامی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
میں آج تعلیم ہی کی بات کر وں گا۔ تعلیم ہمارے ہاں ہمیشہ بازیچہ اطفال بنی رہی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد، اسے صوبوں کے حوالے کر دیا گیا؛ تاہم اعلیٰ تعلیم کی تنظیم مرکز کے پاس رہی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے نام سے 2002ء میں بننے والے ایک ادارے کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ ادارہ گزشتہ کئی سالوں سے تجربہ گاہ بنا رہا۔ ہر حکومتِ وقت نے، اس کا سربراہ مقرر کرتے وقت، اسے دیگر حکومتی اداروں پر قیاس کیا اور اسے کسی 'اپنے بندے‘ کوخوش کرنے کے لیے ایک منصب جانا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن آئے تو انہوں نے طبیعی علوم کو قومی ترقی کے لیے اہم ترسمجھا۔ سماجی علوم کو یکسر نظر انداز کیا۔ وہ یہ نہیں جان سکے کہ قوموں کو ڈاکٹرز اور انجینئرز سے زیادہ اچھے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں سماجی علوم پر توجہ نہیں دی جائے گی تو ہم صرف روبوٹ تیار کریں گے۔
اس اعتراض کے باوجود بہرحال اسے ایک وژن تو کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں کسی ترجیح کا کوئی سراغ ملتا ہے نہ کسی وژن کا۔ موجودہ حکومت نے اسے ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھا اور پہلی دفعہ چیئرمین ایچ ای سی کے لیے ایک سرچ کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے ڈاکٹر مختار احمد کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر مختار احمد نے ایک وژن کے ساتھ ادارہ سازی کا کام کیا۔ چار سال میں ایچ ای سی کا بجٹ چالیس ارب روپے سے کم و بیش ایک سو سات ارب تک پہنچ گیا۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ان کے چند کام بہت نمایاں ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا۔ تحقیق کے بغیر اعلیٰ تعلیم کا کوئی تصور قابلِ قبول نہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ 'تھامس رائٹر رپورٹ‘ (ستمبر2016ئ) کے مطابق پاکستان میں لکھے گئے تحقیقی مقالے‘ برازیل، روس، بھارت اور چین میں لکھے گئے مقالوں سے زیادہ حوالہ بنے۔ ڈاکٹر مختار صاحب کے دور میں اعلیٰ تعلیم کو ملک کے دور دراز علاقوں تک پھیلانے کے لیے ایک منصوبے کا آغاز ہوا۔ اس کے تحت ضلعی سطح پر بڑی سرکاری جامعات کے سب کیمپسز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اب تک اکیس کیمپس قائم ہو چکے۔ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی زیادہ تعداد بلوچستان اورسندھ میں ہے۔
حال ہی میں انہوں نے اسلامی ترقیاتی بینک کے ساتھ مل کر زراعت، زرعی صنعت، ادویات سازی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سولہ مراکز کی نشاندہی کی ہے جو معاصر مسلم دنیا کے اداروں کے ہمسر ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کے بعد‘ اب پاکستان عالمِ اسلام کا تیسرا ملک ہے جس کی سائنسی ترقی اور اداروںکو قابلِ تقلید اداروں میں شامل کیا گیا ہے۔
حسنِ کارکردگی کے ساتھ، ڈاکٹر مختار احمد کی دیانت بھی مسلمہ ہے۔ سرقہ بازی کے مقدمات میں انہوں نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ میں ایک مرتبہ ایک ذاتی کام کے لیے ان سے ملا۔ میرا خیال تھا کہ شاید ان کا کوئی صوابدیدی اختیار ہو جو میرا کام آسان بنا دے۔ انہوں نے متعلقہ قانون کی وضاحت کی اور بتایا کہ میرے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ وہ اس میں میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ میں نے پھر وہی راستہ اپنایا۔
اسی طرح ایک بار مجھے کسی نے ایک جائز کام کے لیے سفارش کرنے کو کہا کہ عام طور پر ہمارے ہاں جائز کام بھی سفارش سے ہوتے ہیں۔ میں نے ایک دوست، جو ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، سے بات کی کہ ڈاکٹر مختار صاحب کے پاس چلتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایچ ای سی نے یہ کام آن لائن کر دیا ہے اور انہیں بھی اپنے بیٹے کے لیے یہی راستہ اختیار کرنا پڑا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ اگر آپ کو تسلی ہو کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق یکساں معاملہ ہو رہا ہے تو پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں معلوم ہوتی۔
میرا احساس ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام قلبِ ماہیت چاہتا ہے۔ بنیادی اور اعلیٰ، دینی اور دنیاوی یا صوبائی اور مرکزی دائروں میں تعلیم کی تقسیم میرے لیے قابلِ فہم نہیں۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ماحول بھی جوہری تبدیلی چاہتا ہے؛ تاہم جو نظام موجود ہے، اسے کسی حد تک نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے‘ اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔
ڈاکٹر صاحب کی ملازمت کا دورانیہ مکمل ہوا۔ اگر اب بھی، چار سال پہلے کی طرح، میرٹ پر معاملہ ہوتا ہے تو وژن کے ساتھ، حسنِ کارکردگی اور تسلسل کے پہلو کو ضرور پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ ادارہ سازی کے لیے یہی رختِ سفر ہے۔ اس صورت میں اگر کسی سرچ کمیٹی کی نظرِ انتخاب ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب پر پڑتی ہے تو مجھے اس پر حیرت نہیں ہو گی۔ بصورتِ دیگر، ڈاکٹر صاحب کو مطمئن ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنے حصے کا کام بطریقِ احسن کیا۔ اس اطمینان سے بڑ ھ کر کوئی اثاثہ نہیں ہو سکتا۔