آج قومی سیاست کا ایک ہی بیانیہ ہے:نوازشریف کا بیانیہ۔اس کے سوا جو کچھ ہے،گروہی مفادات ہیں یا شخصی اقتدار کی بے لگام خواہش۔
مثال کے طور پر شہباز شریف مکتبِ فکر اس کے سوا کیا ہے کہ اقتدار کے اصل مراکز کے ساتھ مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو جا ئے۔انہیں باور کرا دیا جا ئے کہ اقتدار کے کھیل میں ،وہ ان کے حلیف ہیں،حریف نہیں۔وہ تو حکومت میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ چاہتے ہیں، کلی اقتدار نہیں۔حصہ بھی وہی ہے جو پہلے سے متعین ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی آوازصدا بصحرا ہے۔عدالت انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق،بھائیوں میں امتیاز پر آمادہ نہیں۔کیا معلوم یہی بات انہیں صاحبان ِ عزیمت کی صف میں لا کھڑا کرے؟
عمران خان کا 'بیانیہ‘ بھی واضح ہے: شخصی اقتدار۔چونکہ اس راہ میں نوازشریف حائل ہیں،اس لیے بطور حکمتِ عملی ان کاا ستیصال۔عمران خان کی زیر ِقیادت کرپشن کا تصور جس ارتقا سے گزرا، ماہرین ِ سماجیات کے لیے،اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔پہلے یہ معاشی امورکے لیے خاص ہوا۔اخلاقیات کا وہ حصہ جس کا تعلق شخصی پاکیزگی سے ہے،وہ کرپشن کے دائرے سے باہر ہوگیا۔پھر معاشی معاملات میں بھی سماجی کرپشن کو استثنا دے دیا گیا۔جیسے خانقاہی نظام۔پیروں کا ایک پورا طبقہ جو نسل در نسل عوام کا معاشی استحصال کر رہاہے، وہ اس میں شامل نہیں۔بلکہ ایسے لوگ تحریکِ انصاف میں عمران خان کے بعد اہم ترین منصب پر فائزہیں۔یا پھر جاگیر داری جو کرپشن ہی نہیں، ظلم کا بھی مظہرہے۔معاشی کرپشن کے یہ تمام مظاہر'سلطانی وملائی وپیری‘ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھاکہ مسلمان ان کا کشتہ بن چکا،اس تصور کے تحت کرپشن کی تعریف میں نہیں آتے۔
تو کیا کرپشن وہی ہے جو سرکاری حیثیت کے ناجائز استعمال سے جنم لیتی ہے؟معلوم ہوا کہ یہ بھی غلط فہمی تھی۔آہستہ آستہ راز کھلتا گیاکہ کرپشن صرف وہ ہوتی ہے جو نوازشریف سے منسوب ہو۔اس کے لیے بھی ثبوت کی ضرورت نہیں،صرف الزام کافی ہے۔اگر کوئی دوسرا یہ سب کچھ کرے تو یہ کرپشن میں نہیں آتا۔اگر نذر گوندل صاحب کے بھائی پر نیب میں چالیس ارب روپے کی کرپشن کے مقدمات ہوں تواس سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے اور گوندل برادران کو کرپشن کے خلاف جدو جہد میں رفیق بھی بنایا جاسکتا ہے۔
رہی مذہبی جماعتیں توان کا 'بیانیہ‘ یک نکاتی ہے: سیاسی بقا ۔اگر یہ کسی بڑی سیاسی جماعت کی ہم سفری سے حاصل ہوتواسے بھی قبول کیا جا سکتاہے۔گزشتہ پانچ سال جمعیت علمائے اسلام نے ن لیگ اور جماعت اسلامی نے تحریک ِ انصاف کی صحبت اسی لیے اختیارکیے رکھی۔اب انہیں خیال ہوا کہ بقا کی اس جنگ میں ایک دوسرے سے مل کر دیکھ لینا چاہیے۔چنانچہ مجلس ِ عمل کا احیا ہوگیا۔ زیبِ داستان کے لیے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن واقعات کی اپنی بھی ایک زبان ہو تی ہے۔
اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ بیانیہ صرف نوازشریف کا ہے۔یہ بیانیہ اس ملک کے اصل مسئلے کو مخاطب بناتا ہے۔اس میں ان تضادات کا حل ہے، جن سے ہمارا سیاسی نظام ایک مدت سے دوچار ہے۔طاقت کے مراکز میں ایک کشمکش ہے جو ایک طرف داخلی استحکام کے لیے خطرہ ہے ا ور دوسری طرف خارجہ پالیسی بھی اس کی زد میں ہے۔نہ عوام جانتے ہیں اورنہ دنیا کہ اس ملک میں کون سا ڈاکٹرائن رائج ہے؟یہ ڈاکٹرائن صادر کہاں سے ہوتا ہے؟ہمارے نظمِ اجتماعی کاتعارف اب یہ بن چکا کہ 'میں خیال ہوں کسی اور کا ،مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘۔
نوازشریف کا بیانیہ ہمیں اس کشمکش سے نجات دلاتا ہے۔یہ متوجہ کرتا ہے کہ اس ملک میں ایک آئین ہے جو اداروں کے کردار کا تعین کر رہا ہے۔پھر یہ ملک جمہوریہ ہے۔اس کا نظم جمہور کی رائے ہی سے قائم رہنا چاہیے۔جمہور کی نمائندگی پارلیمان کر تی ہے۔روحِ آئین کا تقاضا ہے کہ اسے ایک پارلیمانی نظام کے ساتھ چلنے دیا جائے۔آئین میں واضح ہے کہ ڈاکٹرائن کہاں سے آئے گا۔خارجہ امور کیسے طے ہوں گے۔علی ہٰذ القیاس۔
اس بیانیے کے خدو خال واضح ہیں۔اس سے شاید ہی کوئی اختلاف کر سکے۔اختلاف اس امر میں ہے کہ نوازشریف اس بیانیے کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟کہا جاتا ہے کہ ان کا اصل دکھ اقتدار کا چھن جا نا ہے۔انہیں پارلیمان سے اگر دلچسپی ہو تی تواپنے دورِ اقتدار میں پارلیمان کو توقیر دیتے۔انہوں نے کون سے فیصلے پارلیمان سے پوچھ کر کیے ؟جب کرپشن کے الزامات میں انہیں نکالا گیا تو انہیں جمہوریت یاد آگئی اور وہ نظریاتی بھی ہو گئے۔ان کا مطمح نظر اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنا مال اور اقتدار بچایا جا ئے۔
اس مقدمے میں بہت سی باتیں واقعاتی طور پر درست ہیں۔پارلیمنٹ کوان کے دورِ اقتدار میں بھی وہ تعظیم نہیں ملی،وہ جس کی مستحق تھی۔ان کے دور میں لوگوں کو کم ہی شریکِ مشاورت کیا جاتا تھا۔ان کا رجحان شخصی اورخاندانی اقتدار ہی کی طرف رہا۔تاہم یہ مقدمہ صرف اتنی بات سے ثابت نہیں ہوتا۔کوئی حتمی رائے قائم کر تے وقت،بعض دیگر باتوں کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
2013ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد،انہوں نے ایک روادار سیاسی کلچر کو فروغ دیا۔انہوںنے کسی صوبائی حکومت کے خلاف کوئی سازش کی نہ اسے غیر مستحکم کر نے کے لیے کوئی اقدام ہی کیا۔دوسری طرف میڈیا سمیت تمام سماجی اور ریاستی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں آزاد رہے۔اس کے ساتھ معاشی اصلاحات کا ایک عمل شروع ہوا۔اب لازم تھا کہ ان کو گورننس کا پورا موقع ملتا اور پھرعوام یہ فیصلہ کرتے کہ انہیں ایک بار پھر اقتدار میںآنا چاہیے یا نہیں۔
اب ہوا کیا؟سب جانتے ہیں کہ 2014ء ہی میں انہیں اقتدار سے الگ کر نے کی سازش کی گئی۔یہ اتنا زور دار حملہ تھا کہ وہ سخت جان نہ ہوتے تو سہہ نہ سکتے۔یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں،ایک ناکام کوشش کے بعد دوسری اور تیسری کوشش ہوئی۔عوامی محاذ پر ناکامی ہوئی تو دوسرے محاذکھول دیے گئے۔ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں حوادث کے آگ میں پھینک دیا گیا۔آج نوازشریف کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے وقت،اس سب کچھ کو فراموش کر دینا،انصاف نہیں۔ نوازشریف کا بیانیہ اس پس ِنظر کونظر انداز کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ان کاذاتی دکھ اپنی جگہ، مگر ان کے بیانیے کی صحت اس سے ماورا ہے۔پھر یہ کہ ان کے اخلاص کا تعین بھی عوام ہی کو کرنا ہے۔اگر وہ اس سے منحرف ہوتے ہیںتوانہیں اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
آج عوام میں اس بیانیے کا پوری طرح ابلاغ ہو چکا۔ کردار کشی کی گرد مسلسل اڑ رہی ہے۔ انتخابات سے پہلے سدھائے ہوئے پرندوں کو نئے آشیانے فراہم کیے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود،عوام میںاس بیانیے کی پزیرائی بڑھتی جا رہی ہے۔عام آدمی کو یقین ہو چلاہے کہ نوازشریف کو اقتدار ہی سے نہیں،انصاف سے بھی محروم کیا گیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ن لیگ احتجاج کی صلاحیت سے محروم ہے۔یہ بات درست ہو سکتی ہے۔مگر لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ سب سے بڑی انتخابی قوت ہے۔یہ نوازشریف کی خوش بختی ہے کہ اس وقت ن لیگ نے خود کو احتجاجی نہیں، انتخابی قوت ثابت کرنا ہے۔اس و قت اسے اپنے احتجاج کا اظہارووٹ کے ذریعے کر نا ہے۔یہ احتجاج کا نہیں،انتخابی مہم کا وقت ہے۔
ایک وجہ سے احتجاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ن لیگ کی کامیابی کے آثار دکھائی دینے کے بعد ، انتخابی عمل ہی کو سبو تاژ کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔رائے عامہ کے سامنے بند باندھنا ایک عذاب کو دعوت دینا ہے۔یہ بند انتخابات کو ملتوی کر کے باندھا جائے یا ن لیگ کے مضبوط امیداروں کو انتخابی عمل سے باہر کر کے۔
نوازشریف کے بیانیے کا ابلاغ ہوچکا۔اس بیانیے کی کامیابی کے لیے یہی بہت ہے کہ اس کے بالمقابل کوئی بیانیہ موجودہی نہیں۔نوازشریف کابیانیہ بلا مقابلہ جیت چکا۔