یہ سماج ہے یا مے خانہ؟
ہم نے تو یہی پڑھا ہے کہ جہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے مے خانہ کہتے ہیں۔ مے خانہ جہاں ہر چیز نیلام ہوتی ہے۔ ایک جامِ مے کے بدلے، بسا اوقات عزتِ سادات بھی۔ ذوق نے کہا تھا:
کل جو اک پگڑی ہوئی تھی میکدے میں رہنِ مے
ذوق وہ تیری ہی دستارِ فضیلت ہو تو ہو
کہانی کا ایک ایک ورق، اب کھول دیا گیا ہے۔ خرم حسین جیسے معاشی تجزیہ نگاروں نے ہر پردہ اٹھا دیا۔ معلوم یہ ہوا کہ 4.9 بلین ڈالر کی رقم تصوراتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں پہلے یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ تمام افراد جنہوں نے انڈیا سے پاکستان ہجرت کی، ایسے ہی مہاجر ہیں جیسے ملازمت کے لیے پاکستان سے سعودی عرب یا خلیجی ممالک کو جانے والے۔ انہیں معاشی مہاجر (Economic migrants) کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جو معاشی ضروریات کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ پھر یہ فرض کیا گیا ہے کہ اگر یہ پاکستان میں ملازمت کر کے پیسے کمائیں اور اپنی کمائی کا ایک حصہ انڈیا میں اپنے خاندانوں کو بھیجیں تو اندازاً یہ رقم 4.9 بلین کے مساوی ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی بینک نے اسی رپورٹ میں یہ بھی بتا دیا کہ یہ ایک اندازہ (estimated outflows) ہے۔
تین ماہ پہلے ایک اخبار میں محمد توصیف الحق صدیقی نام کے ایک صاحب کا مضمون شائع ہوا جسے کالم بتایا جا رہا ہے۔ میں کم و بیش بائیس سال سے اخبارات کے لیے کالم لکھ رہا ہوں۔ اخبارات کے ادارتی صفحات پر چھپنے والا سب رطب و یابس، بڑی حد تک، نظر سے گزرتا ہے۔ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں اس نام کے کسی کالم نگار سے واقف نہیں۔ یہ اس کہانی کی کل کائنات ہے جو دو سال پرانی ہے اور اب جس پر ایک ہنگامہ برپا کر دیا گیا ہے۔
چند روز پہلے، جب اس کہانی کو ایک بار پھر زندہ کیا گیا، میں اتفاق سے ''دنیا‘‘ پر مجیب الرحمٰن شامی صاحب کا ''نقطہ نظر‘‘ سن رہا تھا۔ اس پروگرام میں بتایا جا رہا تھا کہ سٹیٹ بینک اور عالمی بینک‘ دونوں اس کہانی کی تردید کر چکے۔ پروگرام کے دوران میں چینل بدلا تو ایک بہت تجربہ کار کالم نگار اور مبصر بتا رہے تھے کہ کیسے نواز شریف کی کرپشن طشت از بام ہو رہی ہے اور دلیل کے طور پر 4.9 بلین ڈالر کا حوالہ دیا جا رہا تھا‘ جو ان کے خیال میں نواز شریف صاحب نے بھارت بھجوایا تھا۔ ان کا تجزیہ تھا کہ آگے آگے دیکھیے کس طرح یہ مزید بے نقاب ہوں گے اور ان کی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔ جس معاشرے میں تحقیق اور جستجو کا یہ عالم ہو، کیا وہ سماج کہلوانے کا مستحق ہے؟ کیا اسے مے خانہ نہیں کہنا چاہیے؟
پگڑی اچھالنا، اس ملک میں لوگوں کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔ وہ خواتین و حضرات جن کی گواہی پر عوام اعتبار کرتے ہیں، اس باب میں ان کی تساہل پسندی کا یہ عالم ہے کہ کاتا اور لے دوڑی، الا ماشااللہ۔ انہیں اس بات کی رتی برابر پروا نہیں کہ اس کے نتیجے میں کس کی پگڑی سرِ بازار اچھلتی ہے۔ محض سنی سنائی باتوں کو بنیاد بنا کر ایک مقدمہ کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر اس پر کرپشن کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ میں نے تو کالموں میں ایسے جملے بھی پڑھے ہیں کہ ''اطلاع یہ ہے، اگرچہ ابھی تصدیق نہیں ہو سکی کہ...‘‘ اطلاع نے ذہنوں میں جو زہر گھولنا تھا، وہ تو گُھل گیا۔ اب کس کو پڑی کہ وہ تصدیق کرتا پھرے۔
اسلامی اخلاقیات کا معاملہ تو اتنا ارفع ہے کہ ان معاملات میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اسلام کے مطابق اس رویے میں دو اخلاقی رذائل الزام تراشی اور بد گمانی جمع ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات بہتان بھی۔ یوں اسے سہ آتشہ بنا دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے بد گمانی کو گناہ کہا۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا: ''بدگمانی سے بچو۔ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ تم دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو۔ اور نہ ایک دوسرے سے بڑھنے کی بے جا ہوس کرو...‘‘ (بخاری و مسلم)۔
الزام تراشی اور عیب جوئی کو ہم اخلاقی رذائل میں شامل نہیں کرتے۔ سیاست اور صحافت میں بالخصوص اسے کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ چند ماہ پہلے ایک بڑی جماعت کے ایک بڑے راہنما سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ فریقِ مخالف کے مقابلے میں انہیں بہتر اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ وہ اگر الفاظ کے انتخاب میں غیر محتاط ہیں تو آپ کی جماعت کے لوگوںکو محتاط ہونا چاہیے۔ ان کا جواب تھا: ''ہم ایک سیاسی جماعت ہیں، اصلاحِ اخلاق کی کوئی تنظیم نہیں‘‘۔ اس برہانِ قاطع کے بعد، مجھے تو کلام کا یارا نہیں رہا۔
ایک محترم اور سینئر کالم نگار نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا؛ 'یہ تم کیا ہومیوپیتھک قسم کے کالم لکھتے ہو۔ وہ کیا کالم ہوا جس میں کاٹ نہ ہو۔ جس پر تنقید ہو، اسے پتہ تو چلے‘۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس نصیحت پر عمل نہیں کر سکا۔ اسلوب میں کاٹ کا ہونا کوئی اخلاقی عیب نہیں بلکہ یہ زورِ بیان کا اظہار ہو سکتا ہے۔ وہ شاید مجھے اسی جانب متوجہ کر رہے ہوں مگر اس 'کاٹ‘ کے جو مظاہر بالعموم سامنے آتے ہیں، ان میں عیب جوئی ہے اور الزام تراشی۔ پھر یہ کہ اصلاح کی نیت سے لکھا جانے والا کالم یا مضمون ایک حد تک ہی کاٹ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اسلوب کا تعین جذبۂ تحریر کے تابع ہے۔ اصلاح کا جذبہ کسی اور اسلوب کا متقاضی ہے اور پگڑی اچھالنے کا جذبہ کسی اور اسلوب کا۔ ہر جذبہ الفاظ اپنے ساتھ لاتا ہے۔
سیاست میں بھی محبت اور جنگ کی طرح سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ 'پوسٹ ٹروتھ‘ کا دور ہے۔ اس میں سچ اہم نہیں، سچ کا تاثر دیتا موقف اہم ہے۔ اس کے مظاہر دنیا بھر میں پھیلے ہیں۔ جب کالموں اور ٹی وی شوز میں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں کوئی محکمہ صحیح کام نہیں کر رہا۔ ہر طرف ظلم کا بازار گرم ہے، کرپشن ہی کرپشن ہے تو یہ پڑھ اور سن کر میرا دھیان 'پوسٹ ٹروتھ‘ کی طرف جاتا ہے۔ امریکہ کے بارے میں اشتراکی حلقوں کی تحریریں پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ سے زیادہ غربت، ظلم اور استحصال دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔
چین کے بارے میں مغربی میڈیا کو دیکھیں تو بتایا جاتا ہے کہ کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بد ترین مظاہر چین میں پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 'نظریاتی اشتراکی‘ بھی چین کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ وہاں غربت پھیل رہی ہے۔ اسی 'پوسٹ ٹروتھ‘ کی تیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے، ٹرمپ نے الیکشن جیتا اور اب پاکستان میں بھی لوگ اسی کو بطور انتخابی حکمتِ عملی استعمال کر رہے ہیں۔
'پوسٹ ٹروتھ‘ تحریکِ انصاف کی مہم کا مرکزی خیال ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ ان کے دست و بازو بن چکے ہیں۔ اس کا تازہ ترین مظہر 4.9 بلین کی کہانی ہے۔ اس کہانی کے نام پر کئی دن 'پوسٹ ٹروتھ‘‘ گردش کرتا رہا۔ اصل بات سامنے آنے کے بعد، کیا کوئی رجوع کرے گا؟ اس کا کوئی امکان مجھے تو دکھائی نہیں دیتا۔
سماج اگر مے خانہ بن جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظامِ اقدار برباد ہو گیا۔ سیاسی انجینئرنگ کے علم برداروں نے ہمیشہ وقتی سیاسی مقاصد کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم بنوا دی مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ معاشرے کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ پوری قوم کو افغانستان کے معرکے میں جھونک دیا اور یہ نہیں جانا کہ سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ایک جیسے نتائج مرتب کر رہا ہے‘ مگر حکمتِ عملی پر کوئی نظر ثانی کے لیے آمادہ نہیں۔
یہ فیصلہ اب قوم کو کرنا ہو گا: مے خانہ یا سماج؟ انتخابات اس کا سب سے اچھا موقع ہے کہ قوم اپنا فیصلہ سنا دے۔