سنگین اخلاقی جرائم میں سزا یافتہ ایک شخص کی پارٹی میں شمولیت پر، تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے جس ردِ عمل کا اظہار کیا ، اس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔ عمران خان صاحب نے جس طرح فوری اقدام کرتے ہوئے انہیں پارٹی سے نکالا، وہ بھی سزاوار ہیں کہ اس اقدام پر ان کی تعریف کی جائے۔
عمران خان اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے فیصلے کر چکے ہیں جو پارٹی کے کم از کم اس حلقے میں مقبول نہیں ہوئے، جو ان سے ایک رومان وابستہ کیے ہوئے ہے۔ میں راولپنڈی شہر میں رہتا ہوں۔ میں اپنی براہِ راست معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ تحریکِ انصاف کا کوئی ایک کارکن ایسا نہیں ہے جس نے شیخ رشید صاحب کے ساتھ عمران خان کی قربت کو پسند کیا ہو۔ یہی معاملہ عامر لیاقت صاحب کا ہے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے جسے ایک کالم میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ عمران خان نے اس کے باوجود پارٹی کے اس حلقے کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ فاروق بندیال کے باب میں مگر ان کا ردِ عمل ماضی سے مختلف ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟
میرے خیال میں اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ آنے والے کا پسِ منظر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اگر کسی ''بڑے گھر‘‘ کا فرستادہ ہے تو پھر بادلِ نخواستہ ہی سہی، اسے قبول کر لیا جائے گا۔ اس سے پہلے جو آتے رہے ان میں سے اکثر کا معاملہ یہی تھا کہ آئے نہیں، بھیجے گئے تھے۔ دلیل یہ ہے کہ وہ غیر سیاسی حلقوں کے ''گشتی سفیر‘‘ ہیں۔ ان کی تاریخ یہی ہے کہ وہ بلا تکلف سیاسی جماعتوں میں آتے جاتے ہیں اور ہر جگہ قبول کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں میں آنے والے کا صاحبِ سرمایہ ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے کہ سرمایے کے بغیر دنیا کا کوئی کام نہیں ہو سکتا، سیاست کیسے ہو گی۔ اس لیے تحریکِ انصاف میں ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہا گیا‘ اور تاخیر سے آنے کے باوجود صفِ اوّل میں جگہ دی گئی۔
دوسرا سبب ساکھ کا بحران ہے۔ عمران خان جس طرح ایک رومان پرست سے ایک حقیقت پسند سیاست دان میں تبدیل ہوئے ہیں، اس نے تحریکِ انصاف کے ایک بڑے حلقے میں اضطراب پیدا کیا ہے۔ اس میں اُس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب کسی سیاسی خانہ بدوش کے گلے میں تحریکِ انصاف کا ''گلوبند‘‘ ڈالا جاتا۔ فوزیہ قصوری جیسے لوگ ایک حد تک ہی یہ سب کچھ برداشت کر سکتے تھے۔ پھر عامۃ الناس میں بھی عمران خان کی ساکھ دم توڑ رہی تھی۔ میرا احساس ہے کہ فاروق بندیال کا معاملہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ اگر عمران خان اس کو بھی نظر انداز کر دیتے تو شاید ان کے کارکنوں کے لیے یہ مشکل ہو جاتا کہ وہ عوام کے سامنے اپنی جماعت کا دفاع کر سکتے۔ ان کی گرم جوشی اس کے بعد شاید باقی نہ رہتی۔
اختلاف کے باب میں ہماری جماعتوں کا رویہ فی الجملہ قابلِ رشک نہیں ہے۔ جمہوری کلچر سے وابستگی کا کوئی قابلِ رشک مظہر کم ہی سامنے آتا ہے۔ قیادت کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف آواز اُٹھانا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اُٹھائے تو پھر پارٹی میں نہیں رہ سکتا۔ عمران خان بھی اس سے پہلے جسٹس وجیہ الحسن جیسے لوگوں سے دامن چھڑا چکے۔ اس پسِ منظر میں، ان کو ایک کریڈٹ جاتا ہے کہ اس مرتبہ انہوں نے جماعت کے کارکنوں کے اضطراب کو محسوس کیا اور اس فیصلے پر نظر ثانی کی۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے بھی سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا اور جو بات ان کے ضمیر کے لیے ناقابلِ قبول تھی، اس کے خلاف برملا آواز اُٹھائی۔ اگر وہ اس روش کو برقرار رکھ پائے تو یہ بیداری وہ بنیاد فراہم کر سکتی ہے جو تحریکِ انصاف کو ایک سیاسی جماعت میں بدل دے۔
اگر نون لیگ کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا تو کیا اس کے کارکن بھی اس ردِ عمل کا اظہار کرتے؟ اگر کرتے تو کیا پارٹی قیادت بھی اس سرعت کے ساتھ ان کے جذبات کا احترام کرتی؟ میں شاید ان سوالات کے جواب اثبات میں نہ دے سکوں۔ نون لیگ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بھی صحیح معنوں میں ایک سیاسی جماعت نہیں بن سکی۔ گزشتہ سالوں میں حکومتی مناصب اور پارٹی عہدوں کے لیے جس طرح شخصی پسند اور ناپسند غالب رہی، اس کو سامنے رکھیے تو اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کہ وہ کارکنوں کی رائے کو اہمیت دیتی۔ میرا خیال ہے اس میں تحریکِ انصاف اور عمران خان نے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی جس کے مظاہر دوسری جماعتوں میں بھی سامنے آنے چاہئیں۔ افراد کے باب میں جماعت کے اندر دو آرا ہو سکتی ہیں؛ تاہم اگر معاملہ اخلاقیات کا ہو جیسے فاروق بندیال کے قصے میں تھا تو پھر لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں دو ٹوک مؤقف اختیار کریں۔
اس باب میں دوسری رائے نہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی کا انحصار سیاسی جماعتوں پر ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کی کارکن اور قیادت بالغ نظر نہ ہو تو معاشرے جمہوری اقدار کے بارے میں حساس نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں اس نہج پر کارکنوں کی تربیت ہوئی نہ قائدین کی۔ ایک سرکاری ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز ( PIPS) موجود ہے۔ یہ چند سالوں سے فعال بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کا دائرہ بڑھایا جائے اور سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں اور کارکنوں کی مستقل تربیت کی جائے۔
یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ آئین اور جمہوریت ہمارے نصاب کا بھی حصہ نہیں۔ اس لیے جمہوری اقدار اور آئین کی اہمیت ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ نہیں بن سکی۔ جس طرح کرپشن کے بارے میں حکومت، این جی اوز اور بعض سیاسی راہنماؤں نے عوام کو حساس بنانا ہے، ضروری ہے کہ ایسی ہی حساسیت آئین اور جمہوریت کے معاملے میں پیدا ہو۔ جس طرح تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے فاروق بندیال کے معاملے میں ردِ عمل ظاہر کیا ہے، ایسا ہی ردِ عمل اس وقت بھی سامنے آئے جب کسی سیاسی جماعت کی قیادت غیر جمہوری قوتوں سے سازباز کرے یا اقتدار کی سیاست میں جمہوری اقدار ہی کو پامال کرے۔
معاشرے اداروں کی مضبوطی ہی سے توانا ہوتے ہیں۔ یہ ادارے سماجی ہوتے ہیں اور سیاسی بھی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کم از کم ایک معاملے میں تو سیاسی کارکنوں نے بیداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی بابت میرا ذاتی تجربہ بہت تلخ ہے لیکن یہاں میں ان کی تعریف ضروری سمجھتا ہوں۔ دیگر معاملات کو بھی اگر وہ اخلاقی اقدار کی روشنی میں اور تحمل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم جیسوں کو گالیوں کے بجائے دعاؤں سے نوازیں۔ اللہ کرے کہ یہ معاملہ عمران خان کو بھی ایک عمومی نظر ثانی کی توفیق بخشے۔
اس کا کریڈٹ جمہوریت کو بھی جاتا ہے۔ یہ جمہوریت ہی ہے جہاں عوام کا دباؤ ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر سیاسی قیادت عوامی رائے سے بے نیاز ہو تو پھر اقتدار کے دروازے ان لوگوں کے لیے کھل جاتے ہیں جن کے لیے عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ امید ہے بات بات پر جمہوریت کو گالی دینے کا بہانہ تلاش کرنے والے، اس پہلو سے ضرور غور کریں گے۔ خوفِ خدا کے بعد، جمہوریت سیاست کی اصلاح کا واحد راستہ ہے۔
سیاسی کلچر کو تبدیل کیے بغیر سیاست پاکیزہ نہیں ہو سکتی۔ سیاسی قیادت کا ایک کام اس کلچر کو تبدیل کرنا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب ایک اور امتحان، امیدواروں کے انتخاب کی صورت میں درپیش ہے۔ اس سے بھی اندازہ ہو گا کہ ان کے نزدیک اخلاقی اقدار کی کیا اہمیت ہے۔ یہ معاملہ کسی فردِ واحد کا نہیں، اخلاقی اقدار کا ہے جو مستقل ہیں اور ہر جگہ ان کا اطلاق ہونا چاہیے۔ وہ سیاسی قیادت شاباش کی مستحق ہو گی جو اس معاملے میں بھی اخلاقی اقدار کو بنیادی اہمیت دے گی۔