سیاسی جماعتوں کے منشور کی اب وہی حیثیت ہے جو اردو اخبارات کے اداریوں کی ہے۔ ایک رسمی تحریر جس سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔
ایک دور تھا جب اداریہ ہی ادارتی صفحے کی پہچان ہوتا تھا۔ اخبار کا مدیر اداریہ لکھتا تھا اور اس کی حیثیت ایک پالیسی سٹیٹمنٹ کی ہوتی تھی۔ لکھا اب بھی جاتا ہے مگر رسماً۔ قاری بھی اپنی روایت نبھانے کے لیے آمادہ نہیں۔ وہ صرف کالم پڑھتا ہے اور وہ بھی ان کے جنہیں وہ اپنا ہم خیال سمجھتا ہے یا پھر حظ اٹھانے کے لیے۔ شاید ہی وہ کسی سے اثر قبول کرتا ہو۔ یہ جاننے کے لیے اگر سروے کیا جائے کہ اخبار کے کتنے قارئین اداریہ پڑھتے ہیں تو لوگوں کو شدید مایوسی ہو۔
کچھ ایسا ہی قصہ سیاسی جماعتوں کے منشور کا بھی ہے۔ بطور رسم ہر جماعت منشور پیش کرتی ہے مگر پیش کنندہ اور عوام، دونوں یکساں طور پر اس سے غیر متعلق رہتے ہیں۔ اس وقت لوگ اپنی سیاسی وفاداریوں کا بڑی حد تک تعین کر چکے۔ خواص بھی اور عوام بھی۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ سوائے مجلسِ عمل کے، کسی جماعت کا منشور ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
اداریے کی طرح منشور بھی کبھی اہم ہوتا تھا۔ مجھے 1970ء کے انتخابات کے لیے پیش کیے گئے منشور پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ ہر جماعت کا منشور اتنا واضح اور سنجیدہ ہے کہ وہ کوئی رسمی دستاویز معلوم نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کا منشور ہے۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ایک نظریہ ہے جو پیشِ نظر ہے اور غور و فکر کا ایک مرحلہ ہے جو طے کرنے کے بعد منشور لکھا گیا ہے۔ سوشلزم کے نام سے پیش کیا جانے والا ایک معاشی تصور ہے جسے اسلام سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
جماعت اسلامی کا منشور بھی گہرے مطالعے اور ایک نظریاتی پس منظر کے ساتھ عوام کے سامنے تھا۔ جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان ببانگِ دہل فقہ حنفی کے نفاذ کا وعدہ کر رہی تھیں۔ اسی طرح نیشنل عوامی پارٹی بھی اپنے سیکولر تشخص پر شرمندہ نہیں تھی۔ یہ منشور سیاسی جماعتوں کی بالغ نظری کی دلیل تھے۔ یہ منشور ہی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کون ملک کو کیا بنانا چاہتا ہے۔
اس وقت ملک کی بڑی جماعتیں منشور سازی کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ رسم تو بہرحال نبھانی ہے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی کا کوئی تھنک ٹینک ہو جس نے اس کے لیے باضابطہ طور پر ہوم ورک کیا ہو۔ عمران خان صاحب نے چند نکات کی صورت میں اپنے عزائم پیش کیے۔ وہ ان عزائم کو کیسے حاصل کریں گے، اس کا کوئی قابلِ اطمینان جواب نہیں دیا گیا۔ جب سوالات اٹھے تو اسد عمر صاحب نے اخبارات کے لیے مضمون لکھا کہ وہ متعین منزل تک کیسے پہنچیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مضمون خود ان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔ اسی طرح ن لیگ میں شاید ہی کسی کو دلچسپی ہو کہ منشور کیا ہونا چاہیے۔
جمہوری طور پر توانا معاشروں میں منشور کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ منشور پڑھ کر لوگ ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ روایتی مفہوم میں نظریات نہ ہونے کے باوجود، ایک اندازِِ نظر تو بہرحال ہوتا ہے۔ امریکہ کی سیاست پر نظر رکھنے والا بتا سکتا ہے کہ ڈیموکریٹس کیوں ریپبلکنز سے مختلف ہیں۔ یہاں اگر کوئی کوشش کر کے دیکھے کہ بڑی جماعتوں کے منشور کس حد تک مختلف ہیں تو شاید ہی کوئی بڑا فرق دکھا سکے۔
میرا خیال ہے کہ میڈیا کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا پر یہ بحث ہونی چاہیے کہ گزشتہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے جو منشور پیش کیے، وہ ان پر کس حد تک عمل کر سکی ہیں؟ یہ بات ظاہر ہے کہ انہی سی پوچھی جا سکتی ہے جو جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ سب بڑی جماعتیں کسی نہ کسی حد تک حکومت کا حصہ رہی ہیں اور ان سے سوال کیا جا سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف سے خارجہ پالیسی کے بارے میں سوال نہیں ہو سکتا لیکن صوبے کی تعلیم اور صحت کا سوال تو ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ن لیگ سے خارجہ پالیسی کے ساتھ خزانے کے بارے میں سوال کیا جانا چاہیے۔
جمہوری کلچر کے فروغ میں میڈیا کا کردار یہی ہونا چاہیے کہ وہ مباحث کو سنجیدہ رکھے۔ اُس میڈیا کو سنجیدہ کیسے کہا جا سکتا ہے جو حمزہ علی عباسی اور ریحام خان جیسے لوگوں کے لیے کئی کئی دن وقف کر دے۔ جو بوریت کا مظہر بار بار دہرائی جانے والی تقریروں کو براہ راست دکھاتا ہو۔ اس کے بر خلاف وہ کسی اہم مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرنے پر آمادہ نہ ہو، الا ماشااللہ۔
اس معاشرے کے زندہ مسائل کم نہیں۔ اگر ان پر بات کی جائے تو ایک طرف عوام کا ذوق بہتر ہو گا اور دوسری طرف جمہوری روایات کو تقویت ملے گی۔ مثال کے طور پر بجلی کا بحران ہے۔ ان دنوں بغیر اطلاع کے بجلی جا رہی ہے اور لوگ گھنٹوں شدید گرمی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ اس نے دس ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی سسٹم میں شامل کی ہے؟ سوال یہ ہے کہ وہ بجلی اب کہاں ہے؟ کیا یہ دعویٰ غلط ہے؟ اگر دعویٰ درست ہے تو پھر یہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کیوں ہے؟ ٹی وی پر یہ مذاکرہ ہونا چاہیے۔ ایک طرف ن لیگ کے ذمہ داروں کو بٹھایا جائے اور دوسری طرف اس شعبے کے ماہرین کو۔
یہ محض ایک مثال ہے۔ سیاسی کلچر کو بالغ نظر بنانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اہلِ سیاست اور رائے ساز مل کر بحث کا معیار بہتر بنائیں تا کہ لوگوں کی تربیت ہو کہ ریحام خان کی کتاب زیادہ اہم ہے یا جنرل اسد درانی کے فرمودات؟ یا پھر دونوں غیر سنجیدہ؟ سیاسی جماعتوں کا فکری دیوالیہ پن بھی افسوس ناک ہے۔ اگر تحریکِ انصاف کا مقدمہ حمزہ علی نے لڑنا ہے تو پھر اس جماعت کا خدا ہی حافظ۔
اس میں شبہ نہیں کہ غیر محسوس طریقے سے، جمہوری قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے؛ تاہم لازم ہے کہ اس کی سست روی کا تدارک ہو۔ یہ ایک ہمہ جہتی کوشش ہی سے ممکن ہے۔ اس میں بنیادی کردار سیاسی جماعتوں کا ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر منشور جیسے سنجیدہ کام کو بھی اس طرح غیر سنجیدگی سے لیں گی تو پھر منزل سرعت سے قریب نہیں آئے گی۔ پھر اسی طرح فیصلے ہوں گے جیسے اب ہو رہے ہیں۔
اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اب اس باب میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ بحث کو سنجیدگی کی طرف لے جائیں تاکہ اہلِ سیاست یہ جانیں کہ اب سنجیدہ ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اگر ایک پروگرام کا میزبان معیشت پر خود تیار ہو کر بیٹھے تو اہلِ سیاست اس کا سامنا کرنے کے لیے تیاری کریں گے۔ اب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کسی سنجیدہ سوال کا سامنا نہیں ہو گا۔ وہ شوق سے چلے آتے ہیں اور ایک دن میں تین تین پروگراموں میں شریک ہوتے اور اپنے تئیں دوسروں کے بخیے ادھیڑ دیتے ہیں۔ اب بخیے ادھیڑنے کا نہیں بخیہ گری کا وقت ہے۔
الیکشن کا موسم آ چکا۔ ضروری ہے کہ اب انتخابات تک صرف منشور کی بات ہو۔ قوم کو معلوم ہو کہ پہلے منشوروں کا کیا ہوا اور سیاسی جماعتوں کے اب کیا ارادے ہیں۔ ان کے ہاں تجربات سے سیکھنے کا کوئی رجحان موجود ہے یا سب محض لکیر کے فقیر ہیں؟ جو سیاسی رہنما اپنی جماعت کی نمائندگی کر رہا ہے، کیا اسے معلوم ہے کہ اس کی جماعت کا منشور کیا ہے؟
جمہوریت کو اب ایک کلچر بننا چاہیے۔ عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت محض ووٹ دینے کا نام نہیں، یہ ایک قدر بھی ہے۔ معاشرے صرف اقدار ہی سے قائم رہتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔
اہلِ سیاست کے ساتھ اگر اہلِ صحافت بھی سنجیدہ ہو جائیں تو مجھے امید ہے کہ لوگ منشور کے ساتھ اخبار کا اداریہ بھی پڑھنے لگیں گے۔