مجلسِ عمل کیا اپنا سیاسی بھرم قائم رکھ سکے گی؟
13 مئی کو میرا لاہور جانا ہوا۔ راولپنڈی سے براستہ موٹر وے۔ یہ وہ دن تھا جب اپنے احیا کے بعد، مجلسِ عمل لاہور میں پہلا عوامی اجتماع کر رہی تھی۔ موٹر وے پر قدم رکھتے ہوئے دیکھا کہ جھنڈوں سے سجے گاڑیوں کے قافلے، سوئے لاہور رواں دواں ہیں۔ یہ سب کے پی سے آ رہے تھے۔ ہم جہاں رکے وہاں ایک قافلہ پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ لوگ اُس وقت دوپہر کے کھانے میں مصروف تھے۔ میں اور میرے دو ہم سفر دوست بھی ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئے۔ اس دوران میں ان سے سیاست اور مجلسِ عمل پر بات ہوتی رہی۔ کھانا مزے کا تھا اور باتیں بھی۔
اس قافلے کے سب افراد کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے تھا۔ میں تمام راستے ان قافلوں کو دیکھتا رہا۔ تمام گاڑیوں پر جمعیت کے علم لہرا رہے تھے۔ میں نے صرف ایک گاڑی دیکھی جس پر جماعت اسلامی کا جھنڈا تھا۔ یہ ایک کار تھی جس میں چار افراد سوار تھے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ مجلسِ عمل کی اصل طاقت، کم ازکم خیبر پختون خوا میں جمعیت علمائے اسلام ہی ہے۔ جماعت اسلامی مجلس کی دوسری قابلِ ذکر جماعت ہے۔ اس جلسے میں میرا خیال ہے کہ لاہور کی جماعت اسلامی نے بھرپور شرکت کی ہو گی یا پھر پنجاب کے دوسرے علاقوں سے جماعت کے لوگ آئے ہوں گے؛ تاہم موٹر وے پر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔
میرا یہ مشاہدہ اس عمومی رائے کی تائید کر رہا تھا کہ مجلس عمل کی اصل قوت جمعیت علمائے اسلام ہی ہے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی۔ یہی اصل متن ہے۔ باقی جماعتیں حواشی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قوت کی بنیاد پر کیا مذہبی سیاست کا احیا ممکن ہو گا؟ کسی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کے بجائے، کیا یہ جماعتیں اپنی قوت کے بل بوتے پر انتخابی معرکہ سر کر سکیں گی؟ میرے نزدیک ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ چند اسباب میں یہاں بیان کیے دیتا ہوں۔
مجلسِ عمل اس بار مذہبی جماعتوں کا نمائندہ اجتماع نہیں بن سکی۔ بہت سی مذہبی جماعتیں اس میں شامل نہیں۔ مثال کے طور پر مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام۔ اسی طرح بریلوی مکتبِ فکر نے تحریکِ لبیک کی صورت میں، بطور سیاسی قوت ظہور کیا ہے اور وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں۔ جناب سراج الحق نے تو یہ کوشش کی تھی کہ ممتاز قادری کے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کریں مگر یہ کوشش اُس وقت رائگاں گئی جب قادری کے اصل وارث میدان میں اتر آئے۔ اسی طرح تادمِ تحریر ملی مسلم لیگ بھی انفرادی تشخص کے ساتھ کھڑی ہے۔
دوسرا یہ کہ ان جماعتوں میں کوئی ایسی کشش نہیں جو عوام کو ان کی طرف متوجہ کر سکے۔ مذہب کے نام پر بھلے وقتوں میں عوام نے ووٹ نہیں دیا تو اب کیا دیں گے؟ اگر ایک عام آدمی اس سوال پر غور کرے کہ ن لیگ اور تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر انہیں کیوں ووٹ دیا جائے تو شاید اسے کوئی ایک دلیل نہ مل سکے۔ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی‘ دونوں پانچ سال دوسری جماعتوں کے اقتدار میں شریک رہیں۔ گویا ان کی اچھائی اور برائی دونوں میں حصہ دار ہیں۔ آ ج اگر وہ عوام سے یہ کہتی ہیں کہ یہ جماعتیں قابلِ بھروسہ نہیں اور لوگ ان کا انتخاب کریں تو یہ دلیل انہیں متاثر نہیں کر سکتی۔
مجلس عمل کی قیادت یہ دلچسپ دعویٰ کرتی ہے کہ سیکولر قوتیں اس سے خوف زدہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاست میں یہ قوتیں کون سی ہیں؟ نون لیگ؟ اگر یہ سیکولر تھی تو جمعیت نے پانچ سال کیسے ان کے ساتھ گزار لیے؟ تو کیا نون لیگ اب سیکولر ہوئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ کسی مرحلہِ انحراف کی نشان دہی کر سکتے ہیں؟ اسی طرح جماعت اسلامی سے پوچھا جا سکتا کہ کیا وہ تحریکِ انصاف کو ایک سیکولر جماعت سمجھتی ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو یہی سوالات اس سے بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ دونوں جماعتیں سیکولر نہیں ہیں تو پھر وہ کون سی سیکولر قوتیں ہیں جو مجلسِ عمل سے خوف زدہ ہیں؟
جماعت اسلامی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اقتدار میں شریک رہنے کے باوجود، اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔ محض الزام اگرچہ کسی کو کرپٹ کہنے کے لیے کفایت نہیں کرتا لیکن جماعت کا یہ امتیاز ہے کہ وہ بڑی حد تک الزامات سے پاک رہی۔ اب وہ انفرادی حیثیت میں اپنے اس امتیاز کو نمایاں کر سکتی ہے مگر مجلسِ عمل کے محاذ سے نہیں۔ یوں بھی کرپشن ہماری سیاست کا کوئی موضوع نہیں۔ عمران خان نے اسے اپنا سیاسی امتیاز بنایا لیکن وہ اس معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں، اب پوری قوم جان گئی ہے۔
اگر یہ سب باتیں درست ہیں تو پھر مجلسِ عمل کس بنیاد پر اس معرکے میں اتر رہی ہے؟ کیا یہ اس سعیٔ لا حاصل کی ایک کڑی ہے جس میں ہماری مذہبی جماعتیں مبتلا رہی ہیں؟ کیا یہ چند ہزار ووٹوں کے ساتھ انتخابی ترازو کو متاثر کریں گی‘ جو کسی ایک جانب جھک سکتا ہے؟ کیا انتخابی توازن قائم کرنے کے لیے، کسی غیر سیاسی قوت نے انہیں یہ ذمہ داری سونپی ہے؟
میرا تاثر ہے کہ یہ احیا مولانا فضل الرحمان کی سیاسی فراست کا ایک مظہر ہے جس میں وہ اپنا فائدہ دیکھ رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں، جمعیت علمائے اسلام کے پی کی سطح پر ایک بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ یہ معلوم ہے کہ نون لیگ اگر ساتھ دیتی تو وہ اس وقت بھی صوبے میں حکومت بنا سکتے تھے۔ جمعیت کو جن حلقوں میں شکست ہوئی، وہاں اس کے امیدوار بہت کم ووٹوں سے ہارے ہیں۔ اگر ان حلقوں میں اسے دو تین ہزار ووٹ مزید دستیاب ہو جائیں تو وہ صوبے میں سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔
اگر جمعیت کو جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہو جائے تو یہ کمی پوری ہو سکتی ہے۔ یوں یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ مجلسِ عمل کے پی اسمبلی میں عددی اعتبار سے، سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے۔ اس کے بعد، اے این پی، شیرپاؤ اور نون لیگ کے تعاون سے وہ صوبے میں حکومت بنا سکتی ہے۔ اس صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ وزارتِ اعلیٰ کا منصب جمعیت کو مل جائے۔ جمعیت علمائے اسلام کا ووٹ بینک ایک مذہبی عصبیت پر کھڑا ہے۔ اس میں بالعموم تبدیلی نہیں آتی۔ پھر مدارس کا نیٹ ورک ہے جو ان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس لیے خیال یہی ہے کہ اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
رہی جماعت اسلامی تو اس کا کردار بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت کو کندھا پیش کر دے اور اس کے عوض ایک ڈیڑھ وزارتیں لے لے۔ یہ جماعت تحریکِ انصاف ہو سکتی ہے اور جمعیت علمائے اسلام بھی۔ میں اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ نون لیگ کے ساتھ، مجلس عمل کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اتحاد انتخابی نتائج کو قابلِ ذکر حد تک متاثر کر سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان چاہیں تو یہ بہت مشکل کام نہیں ہو گا۔ اس صورت میں مجلسِ عمل پنجاب کی سطح پر بھی حکومت میں شریک ہو سکتی ہے۔ اگر سیاسی عمل کو مزید مصنوعی طریقے سے متاثر نہیں کیا جاتا تو مرکز میں نون لیگ کی حکومت بن سکتی ہے اور مجلسِ عمل اس کا حصہ ہو سکتی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے فائدے میں سوچے تو اسے اس اتحاد کی حمایت کرنی چاہیے۔
تحریکِ انصاف اس زعم میں ہے کہ وہ تنہا انتخابی معرکہ سر کر لے گی؛ تاہم سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے، کہیں سیاسی فاصلہ کم ہو گا کہیں بڑھے گا۔ مجلسِ عمل کو اگر قابلِ ذکر کارکردگی دکھانی ہے تو اسے کسی بڑی سیاسی جماعت کا ساتھ چاہیے۔ موجودہ منظر نامے میں یہ جماعت نون لیگ ہی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مجلسِ عمل کے پی میں حکومت بنا سکتی ہے۔ نون لیگ کو اس کا یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس مذہبی مہم سے بڑی حد تک بچ جائے جس کا اسے انتخابات میں نشانہ بنایا جائے گا۔