تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت بنیادی مسئلہ نہیں، اس کا نتیجہ ہو گی۔ اپوزیشن کو نتیجے پر نہیں، مسئلے پر نظر رکھنی ہے۔ اسے دیوار سے سر نہیں ٹکرانا، پسِ دیوار دیکھنا ہے۔
جس کی نظر میں، عمران خان ملک کے سب سے مقبول راہنما نہیں، وہ بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ دوسرے سب سے پاپولر لیڈر ہیں۔ مقبولیت میں اُن کا مقابلہ صرف نواز شریف کے ساتھ ہے۔ جو عمران خان کو سب سے مقبول راہنما مانتے ہیں، اُن کے پاس بھی اس اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دوسرے بڑے راہنما بہرحال نواز شریف ہیں۔ میں شواہد کی بنا پر انتخابی عمل کو شفاف نہیں مانتا، بایں ہمہ اگر یہ شفاف ہوتے تو بھی، میری نظر میں دوسری بڑی جماعت تحریکِ انصاف ہی ہوتی۔ موجودہ سیاسی پس منظر میں، ایسی مقبول قیادت، دیگر اہلِ سیاست کی حریف نہیں، حلیف ہونی چاہیے۔
بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ عوام کی حاکمیت کا انکار۔ سارا جھگڑا اسی انکار سے پیدا ہوا۔ پارلیمانی طرزِ حکومت متقاضی ہے کہ پارلیمنٹ فیصلوں کا اصل مرکز ہو۔ عوام کے نمائندے پالیسی ساز ہوں۔ عوام کے اس حق کا انکار کیا گیا تو ایک بحران پیدا ہوا۔ اسی بحران کی کوکھ سے موجودہ اسمبلیوں نے جنم لیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ اسمبلیاں دھاندلی کی پیداوار ہیں۔ اس دھاندلی کے مفہوم کو سمجھنا چاہیے۔
آج اسمبلی کے بہت سے اراکین وہ ہیں جن کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ ان کا انتخاب تو کسی کی نظر میں مشتبہ نہیں۔ اگر تحریکِ انصاف دوسری سب سے مقبول جماعت ہے تو اس کے بہت سے ارکان، دھاندلی کے بغیر بھی اسمبلی تک پہنچ سکتے تھے۔ ان کی کامیابی کو بھی مان لینا چاہیے۔ دھاندلی جب بھی ہوتی ہے، وہ چالیس پچاس نشستوں پر ہوتی ہے اور وہی فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ آج قومی اسمبلی میں دو بڑی جماعتوں کے مابین اکاون نشستوں کا فرق ہے۔ اگر پچاس کے نتائج تبدیلی ہو جائیں تو پارٹی پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ معمولی فرق نہیں۔ اس سے ایک جماعت حکومت بنانے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ یہ حق اس جماعت کو دے دیا جاتا ہے جو پارلیمانی نظام میں اس کی جائز حق دار نہیں۔
اس حق تلفی پر احتجاج اُس سیاسی جماعت کا حق ہے جسے ناجائز طور پر محروم کیا گیا۔ یہاں تو بہت سی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں۔ وہ بھی جن کو معلوم ہے کہ ان کی حکومت نہیں بن سکتی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اس سے زیادہ نشستیں جیت سکتی تھیں‘ جتنی اس وقت انہیں حاصل ہیں۔ لوگ صرف انتخابات کے دن کی سرگرمی پر نہیں، پورے انتخابی عمل پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امیدواروں کو ان کے ووٹ بینک سمیت ہانک کر ایک خاص جماعت میں جمع کر دینا۔
اس طرح کے بہت سے عوامل ہیں‘ جو اپوزیشن کے حقِ احتجاج کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ سوال جواز کا نہیں، احتجاج کی حکمتِ عملی کا ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کا حصہ بن کر احتجاج کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ گویا وہ اِس سیاسی عمل سے اختلاف کرتے ہیں‘ لیکن سیاسی پیش رفت کو بالفعل قبول بھی کرتے ہیں۔ وہ نظام کا جزو بن کر احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انہی اسمبلیوں میں وزیر اعظم اور سپیکر جیسے عہدوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ جس سیاسی عمل کو عملاً قبول کیا گیا ہے، اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت ہے، اگرچہ یہ اکثریت بہت سوں کے لیے مشتبہ ہے۔
اگر سب کچھ زبانِ حال سے مان لیا گیا ہے تو پھر یہ بھی مان لینا چاہیے کہ عمران خان اگر وزیر اعظم بن جاتے ہیں‘ تو اُن کا مضبوط ہونا پارلیمانی نظام کا مضبوط ہونا ہے۔ عمران خان کو اب وہی آزمائش درپیش ہو گی‘ جس سے ہر منتخب وزیر اعظم گزرا ہے اور الم ناک انجام سے دوچار ہوا ہے۔ اب عمران خان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ پارلیمان کو قانون سازی کا مرکز بنائیں اور عوام کو ان کا حقِ اقتدار لوٹا دیا جائے۔ اگر عمران خان اس کا عزم کرتے ہیں تو پھر پارلیمان کو ان کی قوت بن جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ اپوزیشن کی تائید ہی سے ممکن ہو گا۔
میں اگر اپوزیشن لیڈر ہوتا تو پارلیمان سے اپنے پہلے خطاب میں عمران خان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتا۔ میں ان سے کہتا: ''جناب وزیر اعظم! آپ نے جس آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے بعد، عوام کی حاکمیت کو مانتا ہے۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ ملک کی خارجہ پالیسی ہو یا دفاعی پالیسی، معاشی حکمتِ عملی ہو یا تعلیمی، سب پارلیمان میں زیرِ بحث آئیں۔ ملک اور عوام کے مفاد سے وابستہ ہر فیصلہ اب اس فورم پر ہو۔ اگر آپ یہ عزم رکھتے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ پارلیمان آپ کی پشت پر کھڑا ہو گا۔ پھر ہم پانچ سال آپ کے حقِ اقتدار کا دفاع کریں گے‘‘۔
اگر وزیر اعظم عوام کے حقِ حاکمیت کے دفاع میں مخلص ہو تو اسے جواباً کہنا چاہیے: ''یہ ایوان میرے لیے مقدس ہے۔ جن عوام نے اس ایوان تک پہنچایا ہے، ان کا احترام مجھ پر لازم ہے۔ میں اس پر لعنت نہیں بھیجوں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب عوام اور ملک کی تقدیر کے فیصلے اسی ایوان میں ہوں گے‘ اور آپ کے مشورے سے ہوں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ نظامِ عدل کی تشکیلِ نو ہو گی تاکہ کسی کو یہ شکایت نہ ہو کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ اپوزیشن اصلاح کے لیے اپنی سفارشات سامنے لائے‘ ہم اس ایوان میں ان پر کھلی بحث کریں گے اور جمہوری روایات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
میں چاہتا ہوں کہ اگر عوام کا پیسہ لوٹا گیا ہے تو وہ واپس لایا جائے۔ مجھے اس کے لیے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے؛ تاہم میری یہ بھی پوری کوشش ہے کہ اس ضمن میں جو پیش رفت ہو، اس میں قانون کو پیشِ نظر رکھا جائے اور کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہ ہو۔ عدالتیں جو فیصلے دے چکی ہیں، ہم انہیں بدل نہیں سکتے لیکن، ان پر کسی نظر ثانی کے لیے، اگر پارلیمان کوئی قانون سازی کرتا ہے تو ہماری جماعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ آپ تجاویز دیں کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کیسے ایک موثر اور زود انجام نظام بنایا جا سکتا ہے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان کو ابھی سے اس ایجنڈے پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اگر اس روح کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیا جائے تو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے معاون بن سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت اور اپوزیشن خود کو ایک دوسرے کا حلیف سمجھیں اور عوام کے حقِ اقتدار کے لیے ہم آواز ہو جائیں۔ اگر یہ نہ ہو۔ عمران خان راہنمائی کے لیے، پارلیمان کے بجائے کسی اور طرف دیکھیں اور اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کے طرزِ عمل کا مظاہرہ کرے تو پھر قوم کو ایک نئے تماشے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
میری خواہش ہے کہ ایسا ہو مگر قرینِ قیاس یہی کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اہلِ سیاست اگر اس درجہ بالغ نظر ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہنگامہ خیز دور ہمارا منتظر ہے۔ اِس وقت سب کا درد مشترک مگر اسباب مختلف ہیں۔ کسی کو بے وفائی کا غصہ ہے۔ کوئی چرائے گئے مینڈیٹ پہ نوحہ کناں ہے۔ کوئی ڈیل کی ناکامی پر پریشان ہے۔ ان میں سے کسی نے انتخابات سے پہلے عوام کے حقِ اقتدار کو اپنی سیاسی مہم کی اساس نہیں قرار دیا، سوائے نواز شریف کے۔
مفاد کا یہ عدم اشتراک، کیا ووٹ کی توقیر پر سب کو یک جا کر سکتا ہے؟ کیا آنے والے دنوں میں، عمران خان سمیت، سب سیاست دانوں کو ایک ٹرک پر سوار ہونا پڑے گا؟ آج کے اہم سوال یہی ہیں۔ اگر سب سیاست دان مستقبل بین ہوں اور عمران خان کو بھی اس کا ادراک ہو تو پھر تحریکِ انصاف اور دوسری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حلیف ہیں، حریف نہیں۔ سیاسی بصیرت دیوار سے ٹکرانے کا نہیں، پسِ دیوار دیکھنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ بصورتِ دیگر
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی