یہ محبت اور خود سپردگی کی عجیب داستان ہے۔ آدمی قلم سنبھالے کہ دل!
انسانیت کی معراج کیا ہے؟ بندگی۔ بندگی کیا ہے؟ یہ کہ مُشتِ خاک مشیتِ ایزدی میں ڈھل جائے۔ وہ آواز دے تو زبان ہی نہیں، دل بھی پکار اٹھے: لبیک، اللّٰھم لبیک، لا شریک لک، لبیک۔ حاضر، میرے پروردگار میں حاضر! میں آپ کے حضور میں حاضر کہ آپ کا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر کہ ساری حمد و ثنا آپ ہی کے لیے، تمام نعمتیں آپ کی، بادشاہت بھی آپ کی۔
ابنِ آدم، مشتِ خاک سے بندہ کیسے بنتا ہے؟ اس کا وجود کیسے زبانِ حال سے اپنی بندگی کا اعلان کرتا ہے؟ اعضا و جوارح کیسے دماغ سے نہیں، کہیں اور سے احکام لیتے ہیں؟ انسان کیسے کائنات کی الٰہی سکیم سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے؟ کیسے وہ طیورِ چمن کے ساتھ نغمہ سرا ہوتا ہے؟ کیسے اس کی آواز صحراؤں اور وادیوں سے اٹھنے والی آوازوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے؟ جب کائنات کی وسعتوں سے ایک آہنگ اور سُر کے ساتھ صدا اٹھتی ہے: 'پاک ہیں آپ، اے ہمارے پروردگار‘ تو کیسے اسی لمحے اس کا دل سے بھی یہی لے بلند ہوتی ہے؟ کوئی مثال؟ کوئی دل کہ جس کے ترانوں کی باز گشت صحراؤں اور وادیوں میں گونجی ہو؟
مظاہرِ کائنات تو مجبور ہیں کہ انکار کے حق سے محروم ہیں۔ ابنِ آدم تو صاحبِ رضا ہے۔ اپنی مرضی کا مالک۔ آسمان سے مینہ برستا ہے تو مٹی اپنی خوشبو چھپانے پر قادر نہیں ہوتی۔ بہار دستک دیتی ہے تو گلاب پابند ہے کہ اس کی مہک اپنے دروازے کھول دے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی مشیت کے سامنے سر افگندہ ہے۔ سورج کو مجال نہیں کہ اپنے مدار سے ہٹے۔ زمین مجبور ہے کہ سورج کے گرد گھومتی رہے۔ شمس و قمر ہی نہیں، ہر تخلیق کے لیے یہی مرقوم ہے کہ اس کی تسبیح کرے۔ ہر شے، ہاں مگر انسان اور جن۔
انسان اپنے اعضا پر اختیار رکھتا ہے۔ مسجد یا مے خانہ؟ اس کے قدم اس کی مرضی سے اٹھیں گے۔ انسان کے ہاتھ اس کی مشیت کے تابع ہیں۔ وہ چاہے تو یہ ظلم کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔ وہ چاہے تو مظلوم کی داد رسی کے لیے۔ اس کی زبان چاہے تو پھول بکھیرے اور چاہے تو کانٹوں سے زمین کو بھر دے۔ یہ حقِ انتخاب اسے ممتاز کرتا ہے۔ وہ چاہے تو کائنات کی سُر سے سُر ملا لے، چاہے تو بے سرا ہو جائے۔
آدم کی اولاد میں مگر کچھ ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ اطاعت میں اس درجے تک جا پہنچتے ہیں کہ شمس و قمر رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ملائکہ حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جو خدا کی چاہت میں اپنے بیٹے کے گردن پر چھری رکھ دے؟ کوئی زمین پر قدم رکھے اور اس کی قدموں کی چاپ آسمانوں پر سنائی دے؟
ابراہیم ؑفرشتوں کی حیرت کا جواب ہیں۔ معراجِ انسانیت۔ جب ابن آدم کی چاہت اپنے پروردگار کی مشیت میں ڈھل گئی۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے ایسی مثال قائم کر دی کہ اللہ نے جواباً اپنی رحمتوں کی برسات کر ڈالی۔ آج کوئی آسمانی ہدایت سے اپنی نسبت جوڑتا ہے تو ابراہیمؑ کو اپنا حوالہ بناتا ہے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی تو بعثت ہی ابراہیمی دعا کا ثمر ہے۔ یہ کیسی عظمت ہے کہ ہمارے رسولﷺ نے جب ہمیں اپنے لیے دعا سکھائی، تو سیدنا ابراہیمؑ کو بطور مثال پیش کیا: ایسی ہی رحمتیں، آپﷺ پر ہوں جیسی ابراہیم اور ان کی آل پر ہوئیں۔
سیدنا ابراہیمؑ کی زندگی، بندگی اور خود سپردگی کی نا قابلِ فراموش داستان ہے۔ عالم کا پروردگار بھی یہ چاہتا ہے کہ یہ داستان تابند‘ زندہ رہے۔ اس کے بندے ہر سال ایامِ حج میں اس گھر کے گرد جمع ہوں‘ جسے ابراہیمؑ نے اپنے جلیل القدر فرزند سیدنا اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر تعمیر کیا۔ اس بیتِ عتیق کے قرب و جوار میں داستانِ ابراہیم کے تمام اہم ابواب کو بکھیر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے شعائر میں شامل کر دیا۔
بندگی کا مقام کیسے حاصل ہوتا ہے؟ یہ اس پیکرِ خاکی کا مقدر ہے جو ابلیس کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ جس نے ابنِ آدم کے باب میں پروردگار کو چیلنج کیا تھا: ''... میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان کی گھات لگا کر بیٹھوں گا۔ پھر آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے ان پر تاخت کروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘ (الاعراف؛۷:۶ا ۔۱۷)۔ اس چیلنج کو قبول کر لیا گیا۔ اب اللہ کے بندے اس کا جواب بن کر قیامت تک ابلیس سے سراپا جنگ ہیں۔ ابراہیم اس جنگ کے فاتحین کے سرخیل ہیں۔ استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کے نزدیک حج ابلیس کے خلاف اس جنگ کی تمثیل ہے۔
''حج و عمرہ میں احرام اس بات کی علامت ہے کہ بندۂ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اور مرغوبات سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور دو ان سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر، وہ برہنا سر اور کسی حد تک برہنا پا، بالکل راہبوں کی صورت بنائے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے اپنے گھر سے نکل کر کھڑا ہوا ہے۔
تلبیہ اس صدا کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم ؑ نے بیت الحرام کی تعمیرِ نو کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پتھر پر کھڑے ہو کر بلند کی تھی۔ اب یہ صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اور اللہ کے بندے اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے، اس صدا کے جواب میں 'لبیک اللھم لبیک‘ کا یہ دل نواز ترانا پڑھتے ہیں۔
طواف نذر کے پھیرے ہیں۔ دینِ ابرہیمی میں یہ روایت قدیم سے چلی آ رہی ہے کہ جس کی قربانی کی جائے یا جس کو معبد کی خدمت کے لیے نذر کیا جائے، اسے معبد یا قربان گاہ کے سامنے پھرایا جائے... حجرِ اسود کا استلام تجدیدِ عہد کی علامت ہے۔ اس میں بندہ اس پتھر کو تمثیلاً اپنے پروردگار کا ہاتھ قرار دے کر اس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا ہے اور عہد و میثاق کی قدیم روایت کے مطابق، اس کو چوم کر اپنے اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اسلام قبول کرکے، وہ جنت کے عوض اپنا جان و مال اللہ تعالیٰ کے سپرد کر چکا ہے۔
سعی اسماعیلؑ کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اس قربان گاہ کو دیکھا تھا اور پھر حکم کی تعمیل کے لیے، ذرا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے، مروہ کی طرف گئے تھے... چنانچہ صفا و مروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہی ہیں جو پہلے معبد کے سامنے اور اس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں... عرفات معبد کا قائم مقام ہے۔ جہاں شیطان کے خلاف اس جنگ کے مجاہدین جمع ہوتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا اور مناجات کرتے ہیں۔
رمی ابلیس پر لعنت اور اس کے خلاف جنگ کی علامت ہے۔ یہ عمل اس عزم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بندۂ مومن ابلیس کی پسپائی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہو گا... قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال منڈوانا اس بات کی علامت ہے کہ نذر پیش کر دی گئی ہے اور بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اس علامت کے ساتھ، اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔‘‘ (میزان،صفحہ۳۷۱،۳۷۲)۔
آج یومِ عرفہ ہے۔ سال بھر میںاس جیسا کوئی دوسرا دن نہیں۔ لاکھوں مشت ہائے خاک اس دن اس کی رحمت کو سمیٹنے کے لیے ہاتھ اور نگاہیں، آسمان کی طرف اٹھائے ہوں گے۔ اللہ کے رسولؐ نے اطلاع دی کہ اس دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کی مجلس میں اپنے ان بندوں پر فخر کرتا ہے اور اس سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو آگ سے رہائی نہیں دیتا۔ (مسلم)۔
آج ہمیں بھی عہد کرنا ہے کہ ہم نے شیطان کے خلاف اس معرکے کو جیتنا ہے۔ ہم نے اپنے رب کا بندہ بننا ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی داستان قیامت تک بندگی کا استعارہ بن کر جگمگاتی رہے گی۔ سلام ہو ابراہیمؑ پر اور ان کی آل پر۔