حاکمِ وقت کے دروازے پر اہلِ دنیا کا ہجوم، حیرت کے بات نہیں۔ یہ رسمِ جہاں قدیم سے ہے کہ جاہ و حشم اور درہم و دینار کے متلاشی کوئے اقتدار کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ پیشِ نظر نہ ہو تو بھی، حکمرانوں کا قرب کم نشہ آور نہیں۔ لوگ اسی پر شہر میں اتراتے پھرتے ہیں کہ وہ شاہ کے مصاحب ہیں۔
اس جمعرات کو مگر میں نے ایک مختلف منظر دیکھا۔ حیرت میں ڈوبا ہوا۔ یہ انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو راولپنڈی شہر کے مضافات کی طرف نکلتی ایک سڑک، اڈیالہ روڈ پر جمع تھا۔ یہ حکامِ وقت کا دروازہ نہیں، ایک قید خانے کا پھاٹک تھا۔ عشاق کا ایک ہجوم تھا جو کسی کی محض ایک جھلک دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اب کسی کو کچھ نہیں دے سکتا تھا۔ نہ منصب نہ دینار۔ یہ سب ایک آدمی سے ملنا چاہتے تھے۔ ایک معزول وزیر اعظم اور وقت کی عدالت سے مجرم قرار پانے والا ایک شخص۔ نواز شریف۔
میں نے دیکھا کہ لاہور سے آنے والا ایک نوجوان بار بار پرویز رشید صاحب کی طرف لپکتا تھا کہ وہ اور اس کے ساتھی بارہا یہاں آ چکے‘ مگر اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی‘ آپ مدد کریں۔ پرویز رشید اسے شائستگی سے سمجھاتے رہے کہ وہ دن جا چکے جب ان کی بات سنی جاتی تھی۔ اب تو وہ خود اجازت کے محتاج ہیں۔ پارلیمنٹ کا رکن ہونے کے باوجود، بارہا اس دروازے سے نا مراد لوٹا دیے گئے۔ نوجوان مگر مان کر نہیں دے رہا تھا۔ جیسے اُسے وقت کے بدل جانے کی خبر نہ ہو۔ یا جیسے وہ اس تبدیلی کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو۔
کراچی اور پشاور۔ لاہور اور آزاد کشمیر۔ کوئٹہ اور گلگت۔ نہیں معلوم کہاں کہاں سے آنے والے عشاق، ہر جمعرات کو اس زنداں کے گیٹ نمبر پانچ پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب کسی کو اندر جانے کا اذن ملتا ہے تو اس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں‘ جیسے اس کی خوش بختی پر ناز کر رہے ہوں۔ جیسے چشمِ تصور سے اسے اپنے قائد سے ملتا دیکھ رہے ہوں، وہ جس سے ملاقات کی خواہش میں یہ دیوانہ ہوئے جاتے اور ہر ہفتے سنگ و خشت سے بنی ان بے جان دیواروں سے سر ٹکراتے ہیں۔
اندر کا منظر بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ گیٹ سے داخل ہوا تو ایک انتظار گاہ میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ قیدی سے ملاقات کی تمنا لیے کمرے کی گنجائش سے کہی زیادہ افراد پسینے میں شرابور موجود تھے۔ جن کو جگہ نہیں ملی، باہر دھوپ میں کھڑے تھے۔ ان میں بہت سے وہ تھے جو قیدی کی کابینہ میں اس کے وزیر تھے۔ وہ بھی تھے جو عوام کے منتخب نمائندے تھے۔ جوان بھی اور بوڑھے بھی۔ اہلِ سیاست بھی اور اہلِ صحافت بھی۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔ مسلمان بھی اور مسیحی بھی۔ سکھ بھی اور ہندو بھی۔ میں نے دو نابینا نوجوانوں کو دیکھا۔ اپنے قائد سے ملے تو ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کے دیے جھلملانے لگے۔
یہ اجتماع پاکستان کے جغرافیے اور مذہبی تنوع کا مظہر تھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ کوئی عام قیدی نہیں۔ یہ وفاق کا نمائندہ ہے۔ اس کے ساتھ محبت دراصل وہ زنجیر ہے جو سارے ملک کو مجتمع رکھ سکتی ہے۔ اس کے چاہنے والے وطنِ عزیز کے ہر خطے اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ یہ چھ ستمبر کا دن تھا۔ اِس دن ملک بھر میں یومِ دفاعِ پاکستان کی تقریبات منعقد ہو رہی تھیں۔ قوم اپنے ان شہدا کو یاد کر رہی تھی‘ جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی سب سے قیمتی متاع، جان بھی قربان کر دی۔ قوم اظہار یک جہتی کر رہے تھی۔ اس قید خانے میں منعقد ہونے والا یہ منفرد اجتماع بھی، باندازِ دیگر قومی یکجہتی کا اظہار تھا۔ پاکستان کے ایک ہونے کا علم بردار تھا۔ یہ ہجوم میرے اس دعوے کا ناقابلِ تردید ثبوت تھا کہ یہ قومی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہے جو پاکستان کی وحدت کی علامت ہیں۔
انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے بہت دیر ہو گئی۔ گرمی ہو، انسانوں کا ہجوم ہو‘ تو کمرہ بڑا ہو تو بھی حبس کو نہیں روکا جا سکتا تھا۔ تنگ آ کر باہر نکل آیا، معلوم ہوا کہ ایک بے ترتیبی ہے جس کا ہر طرف راج ہے۔ لا قانونیت بھی کہہ لیں۔ آنے والوں کی فہرست بن رہی تھی مگر جانے والوں کی کوئی ترتیب نہیں تھی۔ طارق فاطمی صاحب بھی موجود تھے۔ اس پر سراپا احتجاج بن گئے۔ ان کی آواز بند ہوئی تو ہماری ملاقات کا امکان بھی پیدا ہو گیا۔ پرویز رشید صاحب اور عرفان صدیقی صاحب کے اس کمرے میں جا پہنچا جہاں نواز شریف اپنی اسیر صاحب زادی مریم نواز کے ساتھ موجود تھے۔
نواز شریف صاحب سے میری آخری ملاقات 2012ء میں ہوئی تھی۔ جب تک وہ وزیر اعظم رہے، ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرے اندر اس کی خواہش پیدا ہوئی نہ کبھی ضرورت پڑی۔ سعودی عرب میں صدر ٹرمپ کو مدعو کیا گیا تو عالمی راہنمائوں کو بھی دعوت دی گئی، وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے اہلِ صحافت میں نہیں معلوم کیسے، میرا نام بھی شامل ہو گیا۔ رات گیارہ بجے اطلاع دی گئی کہ صبح جانا ہے اور کوئی آپ کا پاسپورٹ لینے آ رہا ہے۔ میں‘ جو سفر سے گریزاں رہتا ہوں، نے بہت حیل و حجت کی لیکن اصرار بڑھتا گیا۔ ایک دن کا سفر تھا۔ واپسی پر طیارے میں نواز شریف صاحب سے پانچ سات منٹ کی ملاقات ہوئی، اگر اس پر لفظ 'ملاقات‘ کا اطلاق ہو سکے۔
اِس بار لیکن میں نے اُن سے ملنے کی خواہش کی اور کوشش بھی۔ میں انہیں عوامی حاکمیت کی علامت سمجھتا ہوں۔ ایک دفعہ زنداں کے پھاٹک سے ناکام لوٹ آیا۔ دوسری بار اجازت مل گئی۔ جمعرات کو ان سے ملا تو انہیں ویسا ہی پایا جیسے پہلے دیکھا تھا۔ وہی خنداں پیشانی اور متبسم چہرہ۔ ہر آنے والے سے مل رہے ہیں۔ حال پوچھ رہے ہیں۔ نابینا نوجوانوں سے ملے۔ دونوں طرف آنکھوں کے دیے جھلملا اٹھے۔ جذبات تھے لیکن کمال ضبط کے ساتھ۔ بیٹی باپ کی مکمل تصویر تھی، ہاتھ میں تسبیح اور والد کی طرح سراپا شکر و صبر۔
ہجوم میں چند منٹ کی بات ہی ممکن ہو سکی۔ جیل کے ماحول کا پوچھا تو باپ بیٹی نے کوئی شکایت کی نہ مطالبہ۔ وہ جس حال میں رہتے ہیں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کے باوصف، کوئی حرفِ شکایت لبوں پر لانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ دونوں نے صرف ایک بات کہی۔ انصاف اور صرف انصاف۔ انہوں نے نیب عدالت کے فیصلے کی بات کی۔ فیصلے میں پائے جانے والے سقم کا ذکر کیا۔ عدالت میں ہونے والی کارروائی کی طرف متوجہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لکھنے والوں کو انصاف کے لیے قلم اٹھانا چاہیے۔ حنیف عباسی حیرت میں ڈوبے تھے کہ انہیں کس جرم کی سزا دی گئی؟ میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا: عباسی صاحب بھی کیا سادہ ہیں‘ نواز شریف کے ساتھ بیٹھے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کس جرم کی سزا دی گئی؟
نواز شریف ایک قومی راہنما ہیں۔ ہر جمعرات کو اڈیالہ جیل کے باہر ایک منظر ترتیب پاتا ہے۔ اس منظر میں ملک کے ہر حصے اور ہر ثقافت کا رنگ ہوتا ہے۔ یہ منظر زبانِ حال سے بتاتا ہے کہ سیاسی عصبیت کیا ہوتی ہے۔ عدالت کے مطالبات عوامی مطالبات سے کتنے مختلف ہوتے ہیں۔ رائے عامہ عدالتی فیصلوں سے نہیں، بعض دیگر عوامل کے تعامل سے منظم ہوتی ہے۔ لوگ یہاں سے کچھ پانے کے لیے نہیں، کچھ دینے کے لیے آتے ہیں۔ یہ محبت کا تحفہ ہے۔ یہ وابستگی کا اظہار ہے۔ یہ عصبیت کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔
میں جیل سے باہر نکلا تو اکیلا نہیں تھا۔ ایک سوال میرے ہمراہ تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز کا صبر اور عزم، اگر اڈیالہ جیل سے باہر منڈلاتی عوامی محبت سے ہم آہنگ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ اسی سوال نے ایک دوسرے سوال کو انگیخت کیا: کیا جمہوریت پسندوں کو اس کا احساس ہے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں اس سوال کو جھٹکنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے تا حدِ نظر پھیلے کھیتوں کی طرف نگاہ کی۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بھاگتے درختوں کو دیکھا۔ مجھے لگا ہمارے چاروں طرف پھیلی کائنات اپنی وجود میں امید کا پیغام ہے۔ سوال وہی ہے کہ جمہوریت کا علم اٹھانے والوں کے کان اسے سن پاتے ہیں یا نہیں؟ کیا شہباز شریف صاحب بھی اسے سنتے ہیں؟