بیگم کلثوم نواز ایک آئینہ تھیں۔ زندگی میں بھی اور پسِ مرگ بھی۔
اس آئینے میں ہم اس مشرقی عورت کا عکس دیکھ سکتے ہیں جس کی پہلی ترجیح اس کا گھر ہے؛ تاہم ضرورت پڑے تو وہ اپنی معاشرتی اقدار کو قربان کیے بغیر، میدان میں نکلتی اور عزم و استقلال کی ایک تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ میری ان سے ایک ہی ملاقات ہے جب وہ مشرف آمریت کے خلاف برسرِ پیکار تھیں۔ راولپنڈی میں وہ بیگم نجمہ حمید صاحبہ کے گھر پہ آئیں۔ میں وہیں ان سے ملا۔ ان سے مل کر یہ محسوس ہوا کہ میں اپنے ہی گھرانے کی کسی خاتون سے مل رہا ہوں۔ میری بہنیں بھی ایسی ہی ہیں۔ لباس، دوپٹہ، گفتگو کا انداز، سب ایک جیسا۔
مشرف عہد میں، انہوں نے جس طرح قومی سیاست کو متاثر کیا، اس کی تفصیل سب کو معلوم ہے۔ کم ہی تھے جو میدان میں کھڑے رہ سکے۔ جن میں یہ جرات تھی، وہ جیلوں میں بند کر دیے گئے۔ گھٹن کے اس ماحول میں وہ نکلیں اور پھر بہت سوں کو حوصلہ ملا۔ چراغ سے چراغ جلا اور آمریت کے اندھیرے پسپائی پر مجبور ہونے لگے۔ تاریخ ان کا نام اس فہرست میں درج کرے گی جس میں محترمہ فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو جیسی حوصلہ مند خواتین کے نام لکھے ہیں۔
ہم اس آئینے میں ابن الوقت لوگوں کے چہرے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب وہ راولپنڈی آئیں تو اس شہر کے سب در بند تھے، سوائے بیگم نجمہ حمید اور چوہدری تنویر کے دروازوں کے۔ انہوں نے سب کے دروازے پہ دستک دی۔ کوئی گلی میں جھانکنے کو تیار نہیں تھا۔ اِن میں وہ بھی تھے جو کہا کرتے تھے کہ وہ دنیا کے خزانوں کے بدلے، نواز شریف کی تصویر بھی نہ دیں۔ نواز شریف کی اہلیہ جب ان کی گلی میں صدا لگا رہی تھیں تو اس وقت انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھیں۔ کلثوم نواز وہ آئینہ ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کون ہے جو اچھے دنوں کا ساتھی ہے اور کون ہے جو مشکل لمحوں میں بھی کھڑا رہ سکتا ہے۔
بیگم کلثوم نواز کے آئینے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کون کتنا صاحبِ ظرف ہے؟ کون سماجی اقدار کو اہمیت دیتا ہے؟ کون انسانیت اور سیاست میں فرق روا رکھ سکتا ہے؟ کون یہ جانتا ہے کہ بیماری اور موت وہ میدان نہیں جہاں پرانے حساب چکائے جاتے ہیں؟ کون ہے جو اخلاقیات کو انسانیت کی پہچان سمجھتا اور خود کو حیوانوں سے ممتاز رکھنا چاہتا ہے؟ کون ہے جو نفرت اور محبت میں بھی توازن کا دامن تھامے رکھتا ہے؟ اس آئینے میں ہر چہرہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔
اس آئینے میں ہمارے نظامِ عدل پر اٹھنے والے اعتراضات بھی صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف شریف خاندان ہے اور ایک طرف مشرف۔ نیب کا فیصلہ کہتا ہے کہ کرپشن ثابت نہیں۔ اس کے باوجود مسلسل ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ یہ خاندان کرپشن کا مجرم ہے۔ دوسری طرف ڈنکے کی چوٹ پر پورے آئین کو پامال کرنے والا مجرم، کسی خوف کے بغیر زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے۔ بیگم کلثوم نواز نے بیماری میں بھی اور پسِ مرگ بھی اس نظامِ کے تضادات کو نمایاں کر دیا۔
بیگم کلثوم نواز کے آئینے میں کتابِ تاریخ کے چند صفحات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ بھٹو خاندان اور شریف خاندان میں مماثلت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھٹو صاحب نے ایک فوجی آمر کی سرپرستی میں سیاست کا آغازکیا۔ پھر وہ اس قید سے آزاد ہوئے اور عوام کی سیاست کی۔ اس آزادی کی انہیں بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ نواز شریف کا آغاز بھی ان جیسا اور انجام بھی کم و بیش ویسا ہی ہے۔ انہیں بھی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ان کا جرم بھی وہی ہے: عوام کی سیاست۔ بیگم نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز دونوں کو بادلِ نخواستہ عملی سیاست میں قدم رکھنا پڑا۔ دونوں کو ایک ہی غم لے ڈوبا: خاندان کا غم۔
کلثوم نواز، نواز شریف کا بھی آئینہ ہیں۔ اس حال میں نواز شریف کو کب کسی نے دیکھا ہو گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کو سمجھنے میں اکثر لوگوں سے غلطی ہوئی۔ جبر کے سامنے انہوں نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا، بہت سوں کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کی مزاحمت نے سیاست کا رخ بدل ڈالا۔ یہی مردِ آہن مگر گوشت پوست کا ایک انسان بھی ہے جو رشتوں کی آنچ میں پگھل جاتا ہے۔ کم و بیش نصف صدی کی رفاقت اپنے اختتام کو پہنچی تو ان کا پورا وجود دکھ میں ڈھل گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک نظامِ کے سامنے ہمت کے ساتھ کھڑا ہونے والا آدمی، رشتوں کے باب میں کتنا کمزور ہے۔ خاندان کے ادارے پر یقین رکھنے والا ہر کوئی ایسا ہی ہوتا ہے۔
سیاست کے سینے میں نہ ہو، لیکن سیاست دان کے سینے میں تو دل ہوتا ہے۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر 'وزیر اعظم‘ بے نظیر بھٹو ننگے پاؤں سراپا غم بنی جا رہی تھیں۔ اس وقت وہ صرف ایک بہن تھیں، وزیر اعظم نہیں۔ گیارہ ستمبر کی رات، نواز شریف بھی صرف ایک شوہر تھے۔ وہ مشرقی شوہر جو عمر بھر کی رفاقت کے لیے نکاح کرتا اور پھر اسے نبھاتا بھی ہے۔ مشرق کی روایت میں رفیق یا رفیقۂ حیات کی جدائی کا دکھ کیا ہوتا ہے، اگر کوئی اسے سمجھنا چاہے تو اسے نواز شریف کی یہ تصویر دکھا دینی چاہیے۔
بیگم کلثوم نواز کی علالت اور موت، دونوں، معاشرے کی اخلاقی حالت کا بھی آئینہ ہے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جنہوں نے صرف انسانی دکھ کو محسوس کیا۔ انہوں نے اختلاف، سیاست، ہر دوسری بات سے صرفِ نظر کیا کہ یہ اس کا موقع نہیں تھا۔ دوسری طرف وہ بے حس بھی تھے جن کے نزدیک اخلاقی اقدار اور انسانی احساسات بے معنی ہیں۔ اس گروہ میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے ۔
جھوٹ پھیلانے والوں نے بھی اسے حادثے کو اپنے لیے سازگار جانا اور بے پر کی اڑانے لگے۔ سوشل میڈیا کی یہ کمزوری ایک بار واضح ہوئی کہ یہاں بغیر تحقیق کے، باتوں کی اشاعت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر شیخ رشید صاحب کے بارے میں بتایا گیا کہ جب ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو وہ جیل میں تھے اور نواز شریف نے انہیں ماں کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا۔ جواباً کسی نے ایک نجی ٹی وی پر ان کی ایک گفتگو کی ریکارڈنگ چلا دی جس میں وہ اپنی ماں کی موت کا واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ کیسے ایک جلسے میں نواز شریف صاحب نے ان کے لیے ہیلی کاپٹر بھیجا اور وہ بیمار ماں کے پاس ہسپتال پہنچے جہاں، ان کی گود میں سر رکھے ان کا انتقال ہوا اور وہ ان کے جسدِ خاکی کو ایمبولینس میں گھر لے گئے۔ سوشل میڈیا میں اتنا جھوٹ پایا جا تا ہے کہ میرے نزدیک اس کا حوالہ ہی کسی آدمی کے غیر ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔
ہر موت معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے مگر بیگم کلثوم نواز کا معاملہ اس حوالے سے منفرد ہے۔ انہوں نے ہمیں بہت سے چہرے دکھا دیے ہیں۔ خوب صورت بھی اور بد صورت بھی۔ اس آئینے میں ہم نے یہ دیکھا کہ کون اخلاق کے کس درجے پر ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی موت نے یہ بھی بتایا ہے کہ نظامِ میں سقم ہو تو کیسے کیسے انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔ اس موت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایسا انجام عوامی راہنماؤں ہی کے حصے میں کیوں آتا ہے؟
آج پسِ مرگ ہر کوئی بیگم کلثوم نواز کے بارے میں کلمۂ خیر کہہ رہا ہے، الا وہ جو اخلاقی قدروں سے بے نیاز ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے یہ ایک اچھے انجام کی بشارت ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت کرے اور سوگوار خاندان کو صبرِ جمیل سے نوازے۔