یہ ایک تین سطری کہانی ہے۔
اس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ مارچ 2018ء کے اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا۔ اسلام آباد کی تین جامعات کے وائس چانسلرز کے لیے درخواستیں مانگی گئیں۔ چھ ماہ بیت گئے۔ آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں یہ منصب خالی ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ان اداروں کا کیا مستقبل ہو گیا، اس کا کوئی جواب ہمارے پس نہیں۔ کہانی ختم۔
کہانی تو تین سطروں میں ختم ہو گئی لیکن اس کے اثرات جلدی ختم ہونے والے نہیں۔ یہ نسلوں کو متاثر کریں گے۔ اگر نئے وائس چانسلرز کا بر وقت انتخاب نہ ہوا تو یہ ادارے ایڈہاک ازم کی نذر ہو جائیں گے۔ ایڈہاک ازم کی بنیاد پر آنے والے صرف وقت گزارتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کسی وقت رخصت ہو جانا ہے۔ یوں وہ صرف دن رات شمار کرتے اور نئے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران میں، خاموشی کے ساتھ، ادارے کا ہر قدم پیچھے کی طرف اٹھنے لگتا ہے۔
یہ کہانی نئی نہیں۔ کئی بار دھرائی جا چکی۔ نومبر 2013ء میں بھی ایسا ہی ایک اشتہار اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ فیصلہ اکتوبر 2014ء میں ہوا۔ اس دوران میں سات ماہ ایسے گزرے جب ان جامعات کا کوئی مستقل سربراہ نہیں تھا۔ اس سے طالب علم اور ملازمین جس عذاب اور بے یقینی سے گزرے، اس کی داستانیں ان اداروں میں آج تک بکھری ہوئی ہیں۔ نئی حکومت یقیناً نہیں چاہے گی کہ اس داستان کو دھرایا جائے۔ اس پیش رفت کو برباد کر دیا جا ئے جو گزشتہ چار سالوں میں ہوئی۔
مثال کے طور پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ان جامعات میں شامل ہے جس کے نئے سربراہ کا تقرر ہونا ہے۔ میں اس کے ماضی و حال سے واقف ہوں۔ چار سال پہلے ڈاکٹر شاہد صدیقی اس کے وائس چانسلر بنے تھے۔ اُس وقت یہ ایڈہاک ازم کی ماری ہوئی ایک یونیورسٹی تھی۔ صدیقی صاحب نے ایک وژن کے ساتھ اس ادارے کی تعمیرِ نو کا آغاز کیا۔ انہیں یہ خوف نہیں تھا کہ نہ جانے کب کوئی سرکاری پروانہ جاری ہو اور وہ معزول کر دیے جائیں۔ انہوں نے چار سال کو پیش نظر رکھتے ہوئی منصوبہ بندی کی۔ ان برسوں میں اس ادارے کی صورت ہی بدل گئی۔
چار برسوں میں سترہ تحقیقی مجلات کا اجرا ہوا۔ تحقیقی مقالات کی تعداد میں سو گنا اضافہ ہوا۔ تمام سطحوں کے نصاب اور کتب پر نظر ثانی ہوئی۔ 26 نئے پروگراموں کا آغاز ہوا۔ چھ نئے شعبے کھولے گئے۔ اس کے ساتھ معاشرتی سطح پر تعلیم کی بنیاد پر تبدیلی کو ہدف بنایا گیا۔ اس کے لیے جیل میں قیدیوں کی مفت تعلیم کا اہتمام ہوا۔ خواجہ سراؤں کے لیے مفت تعلیم کا پروگرام شروع کیا گیا۔ فاٹا اور بلوچستان کے بچوں کے لیے میٹرک تک مفت تعلیم شروع ہوئی۔ آئی ڈی پیز اور شہدا کے بچوں کے لیے بھی مفت تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ CPEC کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تعلیمی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے گوادر، ملتان اور اسلام آباد میں چینی جامعات کے تعاون سے چینی زبان و کلچر کے مراکز قائم کئے گئے۔
ان چار برسوں میں ایک سنجیدہ کوشش کی گئی کہ یہ ادارہ علم و تحقیق کا مرکز بنے۔ اس سے پہلے یہاں کی لائبریری صبح آٹھ سے شام چار بجے تک کھلی رہتی تھی اور ہفتے کا پانچ دن۔ اب یہ صبح آٹھ بجے سے شام سات بجے تک، ہفتے کے سات دن کھلی رہتی ہے۔ یونیورسٹیوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کئی کئی سال لوگ ترقی کا انتظار کرتے ہیں اور سلیکشن بورڈز کے اجلاس ہی نہیں ہوتے۔ اس سے اساتذہ اور ملازمین میں بے چینی اور کام میں عدم دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں، ان چار سالوں کے دوران میں سلیکشن بورڈز کے آٹھ اور شعبہ جاتی پروموشن کمیٹیز کے دس اجلاس ہوئے۔ یہ صرف تسلسل کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔
اس کالم میں اوپن یونیورسٹی کی کارکردگی کا احاطہ مقصود نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ جب اداروں کو مستقل سربراہ میسر ہوتے ہیں تو ان کی کارکردگی میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ لوگ اپنے وژن کے ساتھ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ ذمہ داری سے فیصلے ہوتے ہیں اور غلط فیصلوں پر نظر ثانی کا امکان بھی موجود ہوتا ہے‘ جو اصلاح کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ تسلسل برقرار رہے تو اداروں کی کارکردگی میں ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے اور وہ زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف ایڈہاک ازم سب کچھ برباد کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی کی ذمہ داری اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ دوبارہ اس منصب کے لیے امیدوار بھی نہیں ہیں۔ اس لیے اس بات کا تو کوئی امکان نہیں کہ وہ ایک ماہ کے بعد اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوں۔ یہ ادارہ لیکن قائم رہے گا۔ اس کے مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی سربراہی کسی ذمہ دار آدمی کے پاس جائے اور اس کے پاس بھی یہ موقع ہو کہ وہ جاری پروگراموں کی افادیت کا جائزہ لے۔ چاہے تو جاری رکھے اور چاہے تو کوئی نیا وژن متعارف کرائے۔ اُسے یہ سہولت میسر ہو کہ وہ چار سال تک آنے والے کل کے اندیشوں سے بے نیاز ہو کر اس ادارے کو مزید آگے لے جا سکے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا میں نے اس لیے تفصیلی ذکر کیا کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے لیے بھی نئے وائس چانسلر اور ریکٹر کا انتخاب ہونا ہے۔ وہاں بھی اسی اصول کا اطلاق ہونا چاہیے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے حالات تو بہت نا گفتہ بہ ہیں۔ اس کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ کبھی یہ ملک کی سب سے اچھی یونیورسٹی شمار ہوتی تھی۔ آج اس کی شہرت تعلیم نہیںکچھ اور ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ یہاں ایسا وائس چانسلر ہو جو چار سال کے لیے ہو اور اپنے وژن کے ساتھ اس جامعہ کی ساکھ کو بحال کر سکے۔
شفقت محمود صاحب، اس وقت وزیر تعلیم ہیں۔ وہ نظمِ حکومت سے واقف ہیں کہ طویل عرصہ بیوروکریسی کا حصہ رہ چکے۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ آج (بروز بدھ) جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، سرچ کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بھی وزارتِ تعلیم کو ایک خط لکھا‘ جس میں اس بات کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ کام مؤخر نہ ہو اور اکتوبر میں موجودہ وائس چانسلرز کے رخصت ہونے سے پہلے نئے وائس چانسلرز کی تعیناتی ہو جائے۔
موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ادارہ سازی کو مقدم رکھتی ہے۔ اب اسے اپنے دعووں کو ثابت کرنا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اگر بحران کا شکار رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ جامعات کی زبوں حالی ہے۔ دنیا بھر میں یونیورسٹی علم و تحقیق کا مرکز ہوتی ہے۔ یونیورسٹیاں حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ ان کے اہداف کا مستقل ہونا اور کارکردگی کا تسلسل ہے۔ اسی طرح ان کی وجۂ شہرت علم کی تخلیق اور فروغ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں یونیورسٹی کا شعبۂ قانون سب سے بہتر ہے۔ فلاں یونیورسٹی سے فزکس کی ڈگری کسی فرد کے سب سے اہل ہونے کی دلیل ہے۔ اس شہرت کی وجہ ان اداروں کا حسنِ کارکردگی ہے۔ حسنِ کارکردگی کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ایڈہاک ازم سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ہم اگر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومتوں کو آئینی مدت مکمل کرنی چاہیے تو اس کی وجہ بھی یہی تسلسل ہے جو کارکردگی دکھانے کے لیے ضروری ہے۔ اسی سے سیاسی استحکام بھی پیدا ہوتا ہے۔
جامعات کے لیے نئے سربراہ کا تقرر محض تین سطری کہانی نہیں ہے۔ یہ ایک نہیں، کئی نسلوں کے مستقبل کی کہانی ہے۔ ایک بیدار قوم دیگر معاملات میں مصلحت کا شکار ہو سکتی ہے مگر آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں نہیں۔ تعلیم اور مستقبل کا براہ راست تعلق ہے۔ ہمیں اس کو ہر صورت مقدم رکھنا ہو گا۔ نئے وائس چانسلرز کا تقرر بھی ایک سطح پر طے کرے گا کہ نئی حکومت اپنے دعووں اور قوم کے مستقبل کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہے۔