اِن دنوں سوشل میڈیا پر کچھ مذہبی خطبا اور واعظین کا چرچا ہے۔ زیادہ تر استہزا کا موضوع ہیں۔ سبب اُن کے بیان کردہ کچھ قصے ہیں جنہیں جدید ذہن قبول نہیں کرتا۔ اس کی آڑ میں کچھ لوگ مذہب کے مقدمے ہی کو فی الجملہ غیر عقلی ثابت کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطیب اور واعظ مذہب کے حقیقی نمائند ے ہیں؟
خطابت ایک فن ہے۔ یکے از فنونِ لطیفہ۔ اسے اداکاری کی ایک قسم سمجھیے۔ خطیب ذہن سے زیادہ لوگوں کے دل کو مخاطب بناتا ہے۔ کبھی ہنساتا تو کبھی رلاتا ہے۔ وہ انہیں اپنے الفاظ، لہجے اور حرکات سے سحر زدہ کرتا اور پھر ان کے دل اور دماغ کو کچھ وقت کے لیے اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے؛ تاہم یہ جادو کچھ دیر ہی کے لیے کارگر ہوتا ہے، جیسے کوئی گیت آپ کو رلا دے۔ جیسے کسی فلم کا کوئی منظر آپ کو اپنی گرفت میں لے لے۔ گیت ختم ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا تاثر کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ واپس حقیقت کی دنیا میں لوٹ آتے ہیں۔ یہی معاملہ فلم کا ہے۔ ہال میں کبھی سسکیاں سنائی دیتی ہیں اور کبھی قہقہے۔ جب فلم ختم ہوتی اور بجلی کے قمقمے روشن ہو کر فلم کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں تو ناظرین ان سسکیوں اور قہقہوں کو ہال میں چھوڑ کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
فنونِ لطیفہ سے لوگ حظ اٹھاتے ہیں۔ یہ تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ خطابت بھی اسی کے لیے ہے۔ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ والدِ محترم دین کے ایک عالم تھے اور گھر کا ماحول اسی رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ نوجوانی تک تفریح کے کسی مروجہ طریقے سے لطف اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔ حسرت سے لوگوں کو دیکھتے اور اپنی محرومی پر افسردہ رہتے تھے۔ اُن دنوں ہمارے پاس تفریح کا ایک ہی ذریعہ تھا: مذہبی خطیبوں کی تقریریں۔ اس کے لیے دور دور تک کا سفر کیا۔ میلوں پیدل چلے۔ کئی راتیں مسجد کے فرش پہ گزاریں۔ ایک خوش الحان خطیب کی تقریر سے جو مزا اٹھاتے، اس کے سامنے یہ مشکلات ہیچ لگتیں۔ سید عطااللہ شاہ بخاری نے اسی وجہ سے اپنے سامعین کو 'کانوں کا عیاش‘ قرار دیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ تفریح انسان کی فطری ضرورت ہے۔ اگر ہم جبر سے اس کا راستہ روکیں گے تو یہ کوئی متبادل راہ تلاش کر لے گی۔ اہلِ مذہب نے فنونِ لطیفہ کے دروازے بند کیے تو مذہب اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔
شورش کاشمیری اپنے وقت کے ایک بڑے خطیب تھے۔ انہوں نے 'فنِ خطابت‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتاب لکھی۔ مجھے ان کی یہ کتاب سب سے زیادہ پسند ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس کے مقدمے میں اس حسرت کا اظہار کیا کہ کاش شورش اس طرح کی دو چار کتابیں اور بھی لکھ جاتے۔ کتاب کے آغاز میں انہوں نے ایک چارٹ بنایا ہے جس میں اجزائے خطابت کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کامیاب تقریر میں آواز کا حصہ کتنے فی صد ہے۔ تکنیک کا کتنے فی صد اور اشارات کا کتنے فی صد۔ انہوں نے ایسے بارہ اجزا کا ذکر کیا ہے۔
مذہبی خطیب بالعموم اپنے خاص حلقے ہی میں پسند کیے جاتے ہیں۔ اس میں استثنا بہت کم ہے۔ عام طور پر اس پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ سامعین کے مزاج شناس ہوتے اور ان کی خواہش کے مطابق کلام کرتے ہیں۔ وہی کچھ کہتے ہیں‘ جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ سید عطااللہ شاہ بخاری ہی نے ایک بار کہا تھا کہ ہم لوگوں کے چہرے دیکھ کر اپنے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان حلقوں میں خطیب کی باتوں کے لیے پہلے ہی سے قبولیت موجود ہوتی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ مسلکی خطیبوں کو ان تقریروں کا معاوضہ لاکھوں میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر مسلک کے ماننے والوں کو ایسے دلائل فراہم کرتے ہیں جس سے وہ اپنی مذہبی وابستگی میں مزید پختہ ہوتے ہیں اور انہیں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ان کا مسلک ہی برحق ہے۔
ایک خطیب کے پیشِ نظر جب یہی کچھ ہوتا ہے تو پھر صحتِ فکر یا صحتِ واقعہ اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔ پھر وہ رطب و یابس جمع کرتا اور لوگوں کے کانوں میں انڈیل دیتا ہے‘ جس سے وہ خوش ہو جائیں۔ لوگ گھنٹے، دو گھنٹے کے لیے محظوظ ہو لیتے ہیں۔ خطیب کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کا بیان کردہ واقعہ مصدقہ تھا یا نہیں۔ راوی ثقہ تھا یا غیر ثقہ۔ اس کا برآمد شدہ نتیجۂ فکر علم و عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔
بعض اوقات ایک خطیب کسی اچھے جذبے کے ساتھ بھی یہ سب کچھ کرتا ہے۔ لوگوں کو نیک اعمال کی طرف مائل کرنے کے لیے ایسی روایات اور قصے سنائے جاتے ہیں، جن کے بارے میں خطیب کو معلوم ہوتا ہے کہ مستند نہیں ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے کالم میں ایک معروف داعی کا ذکر کیا کہ ان کے جذبے میں کچھ کلام نہیں مگر وہ دین کے نام پر غیر مصدقہ روایات پیش کرتے ہیں۔ اس پر ان کا فون آیا کہ فضائل اور نیک مقصد کے لیے علما نے اسے جائز کہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جذبہ کتنا ہی صادق کیوں نہ ہو، اس بے احتیاطی سے دین کو نقصان پہنچتاہے۔ جب ہم کمزور روایات کو معیار مان لیتے ہیں تو پھر کوئی فتنہ پرور اسی طرح کے 'قصوں کہانیوں‘ کو اٹھاتا اور دین ہی کو استہزا کا موضوع بنا لیتا ہے۔ خطیب یا واعظ ان نتائج سے لا پروا ہوتا ہے۔ لوگ اس کی تقریر سے حظ اٹھاتے ہیں لیکن اس کی پھیلائی ہوئی بے بنیاد باتوں کا بار مذہب کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے مذہب کا مقدمہ عقلی اور تاریخی محکمات پر قائم ہے: قرآن مجید، سنت اور سیرتِ پیغمبرﷺ۔ قرآن مجید ایک محکم علمی دستاویز اور زبان و بیان کا معجزہ ہے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کا ظہور تاریخ کے اجالے میں ہوا جن کی حیاتِ مبارکہ کے ایک ایک ورق پر تاریخ کی مہرِ تصدیق ثبت ہے۔ دین ان محکم بنیادوں ہی سے معلوم کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے خود دین کی تکمیل کا اعلان کیا۔ گویا قرآن کا نزول تمام ہوا اور اللہ کے رسول اس کا مکمل ابلاغ کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس کے بعد اس میں کوئی اضافہ کیا جا سکتا ہے نہ کمی لائی جا سکتی ہے۔
اس دین کو آپﷺ اپنی زندگی میں جاری فرما گئے۔ یہ دین صرف قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔ اس پر عمل کا مثالی طریقہ آپﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ دین جاننے کے لیے اب انہی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ ان کی تفہیم کے لیے ہم دین کے جید علما ہی سے مدد لیں گے۔ ان کے علاوہ قصے کہانیاں دین کا ماخذ نہیں بن سکتے، چاہے کتنے نیک جذبے ہی سے کیوں نہ بیان کیے جائیں۔ اب دین کی دعوت وہی ہو گی جو قرآن مجید کی بنیاد پر اٹھے گی۔ خود رسالت مآبﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا کہ آپ اس قرآن کے ساتھ انذار کریں۔ (الانعام)۔
اگر لوگوں کو قیامت اور جہنم کی سختی کے بارے میں خبر دار کرنا ہے تو قرآن مجید سے موثر بات کس کی ہو سکتی ہے؟ آخری سورتوں میں بالخصوص جو نقشہ کھینچا گیا ہے، یہ واقعہ ہے کہ پڑھ کر دل دھل جاتے ہیں‘ اگر زندہ ہوں۔ اگر جنت کا نقشہ بیان کیا جانا ہے تو قرآن مجید سے بہتر تصویر کشی کون کر سکتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں لوگ جنت کی کشش پیدا کرنے کے لیے اُن قصوں کو بیان کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ خود جانتے ہیں کہ مصدقہ نہیں۔ رہے مسلکی خطیب تو ان کا مسئلہ دین نہیں، وہ نظر بند سامعین ہیں جنہیں ان کے مسلک پر مزید پختہ کرنا ہے۔
اس لیے میری درخواست ہے کہ ان خطبا اور واعظین کی تقاریر کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ ان سے حظ اٹھائیے کہ یہ خطابت تفریح کا محل ہے، غور و فکر کا مقام نہیں۔ دین کو اگر سنجیدگی سے جاننا ہے تو پھر اس کا ماخذ قرآن و سنت ہیں اور اللہ کے آخری رسولﷺ کا اسوہ۔