یہ برِصغیر پاک و ہند کے مسلم سماج کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آج سے نہیں، برسوں سے۔ اس سے بڑھ کر، ہمارے خاندانی نظام اور اخلاقیات کو شاید ہی کسی مسئلے نے اس قدر متاثر کیا ہو۔ اسی سے ان گنت خاندان برباد ہوئے۔ لوگ حیلے کا سہارا لینے لگے اور حلالہ جیسے قبیح عمل کو مذہبی افعال میں شامل کیا گیا۔ حیرت در حیرت کہ لوگوں نے مذہب کے نام پر اعلانیہ حلالہ مراکز قائم کر لیے۔ اس سے خاندان کا ادارہ ہی نہیں، اخلاقیات بھی بری طرح پامال ہوئیں۔ معاملے کی یہی سنگینی تھی جس کی وجہ سے بھارت میں سپریم کورٹ اور پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کا نوٹس لینا پڑا۔
ہمارے خطے میں یہ مسئلہ اس بنا پر پیدا ہوا کہ یہاں ایک فقہ کے پیروکاروںکی اکثریت ہے۔ حنفیوں کے ہاں اگر کوئی شوہر ایک نشست میں تین طلاقیں دے دے تو تینوں واقع ہو جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں شوہر اور بیوی کے مابین ہمیشہ کے لیے علیحدگی ہو جاتی ہے۔ اس کے بر خلاف سلفی حضرات اور فقہ جعفریہ کے مطابق، ایک نشست میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خاوند نے طلاق کا لفظ ایک بار، تین بار یا متعدد بار ادا کیا ہو۔
یہ قدم عام طور پر اشتعال کے نتیجے میں اٹھایا جاتا ہے۔ غصہ اور اشتعال ایک وقتی کیفیت ہے۔ غصہ اترتا ہے تو مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ پھر وہ علما کے دروازوں پر جا دستک دیتا ہے۔ یہاں اسے بتایا جاتا کہ وہ ایک ناقابلِ تلافی قدم اٹھا چکا۔ اب گھر بسنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی‘ الا یہ کہ بیوی کسی دوسرے سے نکاح کرے۔ اس کے ساتھ شب بسری کرے۔ پھر اگر وہ طلاق دے دے تو پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ اب مرد کو بچے اور گھر کا مستقبل پریشان کرتا ہے۔ کوئی اسے بتاتا ہے کہ فلاں فقہ میں تو ایک طلاق ہوئی ہے۔ پھر وہ اس کی طرف دوڑتا ہے۔ فتویٰ تو لے آتا ہے مگر اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک فقہ کا پیروکار ہو کر دوسرے فقہ کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے: حلالہ۔ اس راستے پر حلالہ مراکز پائے جاتے ہیں۔ وہ اس راہ پرقدم رکھتا ہے تو اخلاق باقی رہتا ہے نہ گھر۔
ستم در ستم یہ ہے کہ نکاح کی طرح طلاق کوئی دستاویزی عمل نہیں ہے۔ اس کی کوئی تحریر لکھی جاتی ہے نہ اس کا کوئی گواہ ہوتا ہے۔ واقعہ اکثر خاوند اور بیوی کے مابین تنہائی میں ہوتا ہے۔ خاوند کے منہ سے نکلے تین الفاظ ہیں جس پر کئی افراد کی زندگیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ بیوی جو سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، اس کا تو کوئی کردار ہی نہیں ہوتا۔ خاوند چونکہ اکثر غصے میں یہ حرکت کرتا ہے، اس لیے غصہ اترتا ہے تو اسے بھی ٹھیک طرح یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا الفاظ ادا کیے۔ یوں معاملہ مشتبہ ہو جاتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ ایک نشست کی تین طلاقوں نے ایک ہمہ پہلو سماجی مسئلے کو جنم دیا‘ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مسلم معاشرے میں ان گنت المیوں کی بنیاد بنا ہے۔
حیرت یہ ہے کہ فقہی پیچیدگیوں میں الجھا یہ معاشرہ، اس باب میں قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے پر تیار نہیں۔ طلاق ان چند مسائل میں سے ہے، قرآن مجید نے جن پر جزئیات کے ساتھ کلام کیا ہے۔ طلاق کیسے دینی ہے؟ کتنی بار دینی ہے؟ کب دینی ہے؟ طلاق میں کن باتوںکا لحاظ رکھنا ہے؟ اگر بیوی کر رخصت کرنا ہے تو کیسے؟ کیا طلاق کے بعد رجوع کی کوئی صورت ہے؟ طلاق کے لیے کتنے گواہوں کی موجودگی ضروری ہے؟ قرآن مجید نے ان سب سوالات کے جواب دیے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہمارا مسلمان معاشرہ اس مسئلے کی پیچیدگی کا شکار ہے‘ تو یہ بات ہمارے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے چند سال پہلے اس مسئلے پر غور کیا اور کچھ دن پہلے بھی، اس کو موضوع بنایا۔ موجودہ کونسل کا اتفاق ہے کہ ایک نشست میں تین طلاقیں دینا، درست نہیں۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ اسے ایک قابلِ تعزیر جرم قرار دینا چاہیے۔ چند پہلوئوں پر اختلاف بھی ہے۔ کونسل نے اس بات سے اتفاق کیا کہ طلاق کے جملہ مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، نکاح نامے کی طرح ایک طلاق نامہ بھی تجویز کیا جائے تاکہ اس سارے عمل کو دستاویزی حیثیت مل جائے اور یوں قانونی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے جو زبانی طلاق کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔ کونسل ماضی میں بھی طلاق نامے کی تجویز کو زیرِ بحث لا چکی ہے۔
کونسل میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ معاشرے محض قانون سے تبدیل نہیں ہوتے۔ ضروری ہے کہ اس باب میں لوگوں کو حساس بنایا جائے۔ ان کی تربیت کی جائے۔ ان کو ایک نشست کی تین طلاقوں کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے‘ جسے طلاقِ بدعت کہا گیا ہے۔ اس کے لیے محراب و منبر کے ساتھ، میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کا محض ایک پہلو نہیں ہے۔ یہ قانون کے ساتھ ساتھ رویے کا معاملہ بھی ہے۔ رویے وعظ و تلقین اور تربیت سے بدلتے ہیں۔
میرے نزدیک سماجی تربیت کے باب میں بھی سب سے اہم کردار علما کا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ طلاق کے نتیجے میں جو پہلا مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہ مذہبی ہے۔ طلاق کا طریقہ، عدت سمیت بہت سے مسائل ہیں جن کا تعلق دین کے ساتھ ہے۔ دوسرا یہ کہ لوگ جب علما سے رجوع کریں تو یہ بہترین موقع ہوتا ہے جب انہیں بتایا جائے کہ مذہب ان سے کیا چاہتا ہے۔ تزکیہ کیا ہے اور دین میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ شریعت ان سے کیا مطالبہ کرتی ہے اور طلاق جیسا معاملہ کس سنجیدگی کا متقاضی ہے۔
یہی موقع ہوتا ہے جب عالم چاہے تو انہیں مسلکی وابستگی میں پختہ کرے اور چاہے تو ان میں وسعت نظری پیدا کرے۔ وہ انہیں مشورہ دے سکتا ہے کہ دین میں فقہی وابستگی اہم نہیں، خدا کے سامنے جواب دہی اہم ہے۔ اس لیے سائل دوسرے مسالک کے علما سے بھی رجوع کر سکتا اور اس رائے کو اختیار کر سکتا ہے‘ جس پر اس کا دل مطمئن ہو۔ سائل خود بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا‘ اور اس کی مراد کیا تھی۔ ایسے معاملات میں رسالت مآبﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے کہ وہ سائل سے معاملے کی نوعیت پوچھتے تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مفتی کا رجحان گھر بسانے کی طرف ہو۔ مشاہدہ یہ ہے کہ مفتی حضرات کی زیادہ توجہ دوسری طرف ہوتی ہے۔
یہ مسائل اس بات کی بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہمارے سماج کو دین کے بجائے مسلکی تقسیم میں پختہ کیا گیا ہے۔ دین سے وابستگی سے مراد فقہی وابستگی ہے۔ اگر ہم نے فقہ کے بجائے شریعت پر توجہ دی ہوتی ہے تو پھر زیرِ نظر مسئلے میں شارع کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرتے نہ کہ یہ ثابت کرنے کی کہ ہر معاملے میں ایک ہی فقہ درست ہو سکتی ہے۔
ایک نشست کی تین طلاقوں نے جس سماجی مسئلے کو جنم دیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اس پر فقہی وابستگی سے بالا تر ہو کر غور کیا جائے۔ واقعاتی گواہی یہ ہے کہ ایک فقہ میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے، اس پر اصرار سے خاندانی نظام کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں اور حیلے کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر ماضی میں مفقودالخبر خاوند کے معاملے میں، برصغیر کے جید حنفی علما، فقہ مالکی کو اختیار کر سکتے ہیں تو آج کے حنفی علما طلاقِ ثلاثہ کے باب میں کوئی دوسری رائے کیوں اختیار نہیں کر سکتے؟ اور پھر یہ کہ جس مسئلے میں قرآن تفصیل کے ساتھ راہنمائی فراہم کر رہا ہو، اس میں ایسا سنگین اختلاف کیوں؟
اسلامی نظریاتی کونسل کا مجوزہ طلاق نامہ امید ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف ایک ایک پیش رفت ہو گا‘ لیکن یہ مسئلہ قانون سے زیادہ ایک سماجی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ اس کا تعلق تفہیمِ دین کے ساتھ ہے اور رویے کے ساتھ بھی۔