نواز شریف بھی کیا برادرِ اصغر کے راستے پر چل نکلے ہیں؟ کیا پاکستان کی سیاست میں مزاحمت کا باب بند ہو گیا؟ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا؟
رانا مشہود کے پھینکے کنکر سے سیاست کے پانیوں میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔ قوتِ تخیل سے یار لوگ وہ لہریں اٹھا رہے ہیں کہ طوفان کا گمان ہوتا ہے۔ ایک تو وہی پرانا مقدمہ ہے؛'ہم نہ کہتے تھے، یہ مزاحمت کرنے والے نہیں۔ سب دکھاوا ہے۔ شہباز شریف نواز شریف کے کہنے پر ہی مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ دیکھنا ابھی ڈیل ہوا چاہتی ہے۔‘ یہ نقطہ نظر رکھنے والوں کو گویا ایک برھان قاطع مل گئی۔ رانا مشہور کی بات کو اس مقدمے کی تائید میں بطور حجت پیش کیا جا رہا ہے۔
درونِ خانہ ہنگاموں کی، چراغِ رہ گزر کو کچھ خبر نہیں۔ سیاست ایک پیچیدہ عمل ہے۔ طاقت کے مراکز میں جو کچھ ہوتا ہے، ہم ایسوں تک اس کی خبر پہنچتے پہنچتے وقت لگ جاتا ہے۔ دیکھیے منیر نیازی نے اس کیفیت کو کیسے بیان کیا:
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
ہم نے تو یہی سمجھا تھا کہ 'لندن پلان‘ محض افواہ ہے۔ عمران خان نے اس کی تردید کر دی اور قوم نے مان لیا کہ 'لیڈر کبھی جھوٹ نہیں بولتا‘۔ آج گنڈا پور تصدیق کر رہے ہیں کہ پلان تھا اور فلاں فلاں اس کا حصہ تھے۔ 'چراغِ رہ گزر‘ اب خاموش ہے۔ اسی طرح آج پس پردہ کیا ہو رہا ہے، اس کی حقیقت نہ جانے کب معلوم ہو۔ میں تو صرف یہ عرض کر سکتا ہوں کہ سیاست پر اس خبر کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سیاست کا اپنا بہاؤ ہوتا ہے۔ سیاست دان اگر اس سے بے خبر ہو تو ناکام رہتا ہے۔ نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے نے اس بہاؤ کا تعین کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سیاست میں ایک نئی تقسیم سامنے آئی ہے۔ سیاستِ دوراں (RealPolitik) میں تو یہ تقسیم مدت سے ہے۔ اب اس تقسیم کا ظہور عوامی اور شعوری سطح پر ہو نے لگا ہے۔ اب یہ گلی بازار کا موضوع ہے۔ عوام جان چکے کہ ان کے مستقبل کے فیصلے دراصل کہاں ہوتے ہیں۔ سیاست کا یہ کھیل ہمارے ہاں کیسے کھیلا جا رہا ہے۔ اس کے اصل کردار کون کون سے ہیں؟
نواز شریف اور مریم نواز کی مزاحمت نے اس کا شعور پیدا کیا۔ ایک 'شعور‘ عمران خان نے بھی پیدا کیا۔ بد قسمتی سے یہ شعور اغوا ہو گیا۔ اسے 'سٹیٹس کو‘ کی قوتوں نے اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ عمران خان صاحب کی مقبولیت اور بے کنار خواہشِ اقتدار ان کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اب عمران خان صاحب کو اقتدار تو مل چکا مگر اِس کا معاملہ وہی ہے جو غالب نے بیان کیا 'ہر چند کہیں کہ ''ہے‘‘ ، نہیں ہے‘۔
عوامی سطح پر ان دو بیانیوں کی تائید چار طرح کے طبقات میں ظاہر ہوئی۔ ایک طبقہ وہ ہے جو حکومتوں اور سیاست دانوں کو ان کی کارکردگی اور اہلیت کے معیار پر دیکھتا ہے۔ وہ تجربے اور سیاست کے عملی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو زندگی کو کتاب سے زیادہ تجربے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس میں پڑھے لکھے شامل ہیں اور رسمی اعتبار سے ان پڑھ بھی۔ یہ طبقہ بحیثیت مجموعی نون لیگ کے ساتھ ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو پڑھا لکھا ہے اور جمہوریت کو اپنے نظامِ فکر کا ناگزیر حصہ سمجھتا ہے۔ وہ سیاست کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھتا اور یہ مانتا ہے کہ سیاست اہلِ سیاست ہی کا کام ہے۔ ان کی غلطیوں کی اصلاح جمہوری عمل کے تسلسل ہی سے ممکن ہے۔ کوئی دوسرا حل سماجی سطح پر ارتقا کو روک دیتا ہے۔ ہمیں صبر کرنا چاہیے اور سیاسی اصلاح کے لیے جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس طبقے کی ابلاغ کے ذرائع تک رسائی ہے اور وہ معاشرے میں جاری فکری مباحث میں متحرک ہے۔
یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اس وقت جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں ایک معرکہ برپا ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ یہ معرکہ دو ٹوک انداز میں لڑا جائے۔ اس قضیے کو اب ہمیشہ کے لیے طے ہو جانا چاہیے۔ اقتدار کے اصل مالک عوام ہیں اور فیصلے کا اختیار بھی ان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہونا چاہیے۔ یہ طبقہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ سازباز کی سیاست کا قائل نہیں۔ یہ اِس راہ کی مشکلات سے باخبر ہے لیکن چاہتا ہے کہ کوئی صاحبِ عزیمت اٹھے اور اپنی جان کی قیمت پر یہ معرکہ لڑے۔ یہ طبقہ بھی فی الجملہ نواز شریف صاحب کے ساتھ ہے اور دراصل ان کی قوت ہے۔
تیسرا طبقہ نوجوانوں اور ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں کسی وجہ سے معاشی آسودگی حاصل ہو گئی ہے۔ نوجوانی میں ویسے بھی رومان کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ نوجوان مثالی حل چاہتے ہیں اور انقلابی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ علمِ سیاسیات اور سماجیات کی بحثوں میں نہیں الجھتے۔ آسودہ حال طبقے، جیسے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، کے پاس پیسہ آیا تو انہوں نے اپنی ذات سے نکل کر ملک کے بارے محض سوچنا شروع کیا۔ سرحدوں سے باہر ترقی یافتہ دنیا تک ان کی رسائی ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ پاکستان کیوں ایسا نہیں ہو سکتا؟
یہ خواہش محمود ہے لیکن یہ طبقہ سیاسی اور سماجی حرکیات سے بے خبر ہے۔ وہ مغرب کی ترقی کو دیکھتا ہے‘ لیکن تاریخ اور فکری تبدیلی کے اس عمل سے بے خبر ہے جس کا حاصل آج کے سیاسی و سماجی ادارے ہیں۔ سطحی نعروں نے اسے متاثر کیا اور اس کے ہاں تبدیلی کی خواہش انگرائی لینے لگی۔ اس طبقے کو عمران خان کی صورت میں اپنی خواہش حقیقت میں تبدیلی ہوتی نظر آئی۔ یہ نوجوان عمران خان صاحب کی اصل طاقت ہیں۔ چونکہ آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے، اس لیے عمران خان بھی آج مقبول ترین راہنما کے طور پر سامنے آئے۔
چوتھا طبقہ وہ ہے جو مزاجاً انتہا پسند ہے۔ اس میں وہ مذہبی بھی شامل ہیں جو طالبان کے مقدمے کو درست جانتے، جمہوریت کو غیر اسلامی سمجھتے اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتدار تک پہنچنا اصل کام ہے۔ یہ بات بے معنی ہے کہ کس ذریعے سے پہنچا جائے۔ اس طبقے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بھارت یا امریکہ وغیرہ کے ساتھ نمٹنے کے لیے جنگ جیسے انتہا پسندانہ حل تجویز کرتے ہیں۔ یہ طبقہ بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔
نواز شریف صاحب اگر اس مزاحمتی سیاست سے دست بردار ہوتے ہیں، وہ اِس وقت جس کی علامت ہیں تو اس بڑے گروہ کی تائید کھو دیں گے‘ جو آج ان کی اصل قوت ہے۔ اس کے بعد انہیں اس طبقے کی حمایت تو بڑی حد تک میسر رہے گی جو کارکردگی یا ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ان کے ساتھ ہے لیکن ان کی سیاست کا بانکپن ختم ہو جائے گا۔ پھر ذرائع ابلاغ میں انہیں اس گروہ کی تائید حاصل نہیں رہے گی جو بغیر کسی مفاد کے ان کا مقدمہ لڑ رہا ہے اور مشکلات کے باوجود ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر مسلم لیگ کی قیادت فطری طور پر شہباز شریف اور حمزہ شریف کو منتقل ہو جائے گی۔ اس کے بعد مریم نواز کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ مور کا حسن اس کے پروں میں ہے۔ وہ پر پھیلاتا تو ایک عالم کو مسحور کر دیتا ہے۔ پر نہ ہوں تو وہ ایک ناقابلِ ذکر پرندہ ہے۔ جیسے جنگل یا چڑیا گھر میں اور بہت سے پرندے ہیں۔
رانا مشہود نے یہ بیان کیوں دیا؟ چراغِ رہ گزر کو اس کی خبر نہیں۔ ممکن ہے کل کوئی گنڈا پور اس راز کو افشا کر دے یا اس کے پس منظر میں کچھ نہ ہو۔ تجزیہ نگار تو صرف یہ بتا سکتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل اس مزاحمتی بیانے سے وابستہ ہے‘ وہ آج جس کی علامت ہیں۔ بغیر پروں کے مور سے کم از کم مجھے تو کوئی دلچسپی نہیں۔