"KNC" (space) message & send to 7575

ملک یا مے خانہ؟

ہم ایک ملک تعمیر کر رہے ہیں یا مے خانہ؟ اینٹ اٹھانے سے پہلے، اس کا فیصلہ تو کر لینا چاہیے۔
مذہب، اخلاقیاتِ قانون، عقلِ عام، سب کا اتفاق ہے کہ ہر فرد بے گناہ ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی جرم ثابت ہو جائے۔ یہاں ہر شخص مجرم ہے، تب بھی جب وہ قانون کی عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کر دے۔ کیا ہم یہی تبدیلی چاہتے تھے؟
مے خانے کی پہچان یہ ہے کہ یہاں ہر کسی کی پگڑی اچھلتی ہے۔ استاد، عوامی راہنما، عالم، عام شہری کوئی محفوظ نہیں ہوتا۔ لوگوں کے لیے بلا تکلف چور ڈاکو جیسے اسمائے صفات استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہر آدمی اپنا دامن سمیٹ کر چلتا ہے کہ نہیں معلوم کس نکڑ پر کوئی اوباش کھڑا ہو‘ اور آپ کی طرف غلاظت اچھال دے‘ آپ پر آوازے کسے اور اس پر لونڈے لپاٹے قہقہے لگائیں۔
ملک کی پہچان یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی بے گناہ اور عزت دار ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی جرم ثابت ہو جائے۔ اس کی حیثیت عرفی کا اعتبار ہے۔ وہ استاد ہے تو اس کے احترام میں لوگ کھڑے ہوں گے۔ ایک عوامی راہنما ہے تو اس کی تعظیم کی جائے گی۔ کوئی حکومت کے منصب پر ہے تو اس کی تکریم ہو گی۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی استاد خود اپنی عزت کے درپے ہو جائے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی عوامی راہنما عوام کا اعتماد کھو دے۔ تاہم یہ فیصلہ قانون کی عدالت میں ہو گا یا عوامی عدالت میں۔ معاشرہ بالعموم ان کی تعظیم پر کھڑا ہو گا کہ تہذیب کا تقاضا یہی ہے۔
ڈاکٹر سعید اختر، ڈاکٹر اکرم چوہدری، ڈاکٹر مجاہد کامران۔ میں ان میں سے کسی سے واقف نہیں، سوائے ڈاکٹر اکرم صاحب کے۔ وہ بھی سطحی طور پر۔ ایک بار ملاقات ہوئی؛ البتہ قرآن مجید پر ان کی تصنیف پڑھنے کا موقع ملا۔ میری تہذیبی قدر کا تقاضا ہے کہ میں ان کا احترام کروں گا، اس لیے کہ وہ استاد ہیں۔ اگر کسی سیاست دان کو عوام کا اعتماد حاصل ہے تو ہم اس کا بھی اکرام کریں گے۔
میں اگر انقلاب کا مخالف ہوں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انقلاب، کسی نظریے اور عنوان سے بھی آئے، وہ معاشرتی روایات کو برباد کر دیتا ہے۔ اس کی بنیاد ہی تخریب پر رکھی جاتی ہے۔ لوگوں کی پگڑیاں اچھالے بغیر کوئی انقلاب مکمل نہیں ہوتا۔ لوگ اس وقت کی آرزو کرتے ہیں جب تاج اچھالے جائیں گے۔ اب کوئی تاج سر کے بغیر نہیں ہوتا۔ پھر تاج ہی نہیں، سر بھی اچھلتے ہیں۔ تاج کے لیے سر ضروری ہے لیکن سر کے لیے تاج نہیں۔ یہ کلچر جب عام ہوتا ہے تو سب سر اس کی زد میں ہوتے ہیں۔
آج بھی لوگ اس کیفیت میں ہیں‘ جیسے 25 جولائی کو ملک میں کوئی انقلاب آ گیا ہے۔ اس لیے انہیں حیرت ہے کہ اب تک تاج کیوں نہیں اچھالے گئے۔ جن کے ہاتھ میں زمامِ کار ہے، ان کی پوری کوشش ہے کہ اس عوامی مطالبے کو پورا کیا جائے۔ جہاں ممکن ہے اقدام کیا جاتا ہے۔ جیسے شہباز شریف کی گرفتاری۔ جیسے ضمنی انتخابات سے دو دن پہلے خواجہ سعد رفیق کے پاسپورٹ کی ضبطی۔ جہاں یہ ممکن نہیں، وہاں الفاظ سے سنگ باری کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں۔ عمران خان صاحب بھی اس استدلال کو دھرا دیتے ہیں تو اس پر مہرِ تصدیق ثبت ہو جاتی ہے کہ چور کو چور کہا جا رہا ہے تو اس میں ناراضی کیسی؟
اقتدار میں بیٹھے لوگ پہلے تولتے اور پھر بولتے ہیں۔ محض الزام کے بنیاد پر جب وہ کسی کو چور اور ڈاکو کہتے ہیں تو اس سے ملک مے خانے میں بدلنے لگتا ہے۔ پھر حکومتی ایوانوں ہی سے نہیں، میڈیا، سوشل میڈیا، سمیت ہر ایوان سے چور چور، گاڈ فادر، سسیلین مافیا، ڈاکو کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف پگڑیوں اور چاک گریبانوں کا ڈھیر ہے۔
آج ہم سب کو مل کر سوچنا ہے کہ ہم نے ایک ملک کی تعمیر کرنی ہے یا کسی مے خانے کی؟ مستحکم ملک کی بنیاد اخلاقی طور پر مستحکم معاشرہ ہے۔ اگر ہم نے اپنے نظامِ اقدار کو برباد کر دیا تو پھر جان لینا چاہیے کہ محض درہم و دینار سے ملک مضبوط نہیں ہوتے۔ ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں۔ جمہوریت تبدیلی کا وہ راستہ ہے جو انقلاب کی ناکامی کے بعد اختیار کیا گیا۔ یہ دراصل انقلاب کے مقابلے میں ارتقا کے اصول کا سیاسی ظہور ہے۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ انقلاب نے کس طرح معاشروں کو برباد کیا ہے۔ اسی سے جمہوری تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔
موجودہ حکومت بھی ایک جمہوری عمل کا نتیجہ ہے۔ وہ آئین اور قانون کی پابند ہے۔ باایں ہمہ اس کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں جمہوری روایات کو فروغ دے۔ انتخابات میں ہم اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کس گروہ کو اقتدار سونپا جائے گا۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہوتا کہ معاشرے کے دوسرے طبقات اب بے زبان ہو گئے یا ان کو بات کہنے کا حق نہیں رہا۔ جمہوری معاشروں میں اپوزیشن کو متبادل حکومت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی وقت بھی حقِ اقتدار اس کو منتقل ہو سکتا ہے۔ اگر جمہوری طریقے سے برسرِ اقتدار آنے والے انقلابی راستے کو اپنا لیں تو ملک مے خانے بن جاتے ہیں۔
ملک کو اب اس مفروضے پر چلایا جا رہا ہے کہ سماج کے صالحین حکمران جماعت میں جمع ہو چکے اور اس کے باہر صرف چور اور ڈاکو پائے جاتے ہیں۔ جو ان کی حمایت کرتا ہے وہ در اصل ان کی چوری میں شریک ہے۔ شہباز شریف صاحب کی گرفتاری پر خود عمران خان صاحب نے جو ردِ عمل دیا، اس میں یہ 'ڈاکٹرائن‘ واضح لفظوں میں بیان کر دیا گیا۔ یہ ایک خطرناک نظریہ ہے جس کا انجام سماجی انتشار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ 
تبدیلی کا خواب دیکھتے دیکھتے، اہلِ اقتدار نے ترتیب ہی کو الٹ دیا ہے۔ اب معاشرے کا ہر آدمی مجرم نہیں تو مشکوک ضرور ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی اب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو چور کہہ دینے سے وہ چور بن جاتا ہے۔ اگر عمران خان صاحب یا فواد چوہدری صاحب نے کسی کو چور کہہ دیا تو مزید کسی ثبوت کی کیا ضرورت ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے کو مے خانے میں بدل رہی ہے۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ رائے ساز قلم کار یا صدا کار بھی اسی طرزِ عمل کو اپنائے ہوئے ہیں۔ بلا تکلف، محض اختلافِ رائے کی بنیاد پر، جس کی چاہیں، پگڑی اچھال دیں۔ اس روش کو اب کلچر کی حیثیت حاصل ہو چکی۔ نیب کے الزامات اور تھانے میں درج ایف آئی آر کو ایک امرِ واقعہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ رائے ساز اپنے تئیں تعمیرِ ملک کے عمل میں شریک ہیں، درآں حالیکہ وہ مے خانے کے معمار ہیں مگر جانتے نہیں۔
آج ہمارا مسئلہ پالیسی کا نہیں، اندازِ نظر کا ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں پالیسیوں میں زیادہ تفاوت نہیں ہوتا۔ اسد عمر صاحب کو کہنا پڑا کہ اسحاق ڈار اگر یہ نہ کرتے تو کیا کرتے۔ اسد عمر صاحب پر بھی یہ اعتراض نہیں ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے، اعتراض یہ ہے کہ تاخیر سے کیوں گئے؟ حکومت کو سوچنا ہے کہ اس نے ان پالیسوں پر ایک قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہے یا احتساب کے نام پر پگڑی اچھال کلچر کو فروغ دینا ہے۔ اس کلچر سے احتساب تو نہیں ہو گا، سیاسی مخالفت میں شدت آئے گی۔ اگر یہ ذاتی دشمنی بن کر، خاکم بدہن، گلی گلی پھیل گئی تو سماجی استحکام برباد ہو جائے گا۔ اس کے بعد معاشی استحکام دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ ان الفاظ کی سرِ دست کوئی پزیرائی نہیں۔ جہاں سماجی استحکام کا کوئی شعور سرے سے موجود نہ ہو، وہاں اس کے اہمیت کون سمجھے گا؟ لوگ اینٹ پتھر لیے دوڑتے رہیں گے، یہ خیال کرتے ہوئے کہ ملک بنا رہے ہیں۔ وہ اس سے بے خبر ہیں کہ دراصل مے خانہ تعمیر کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں