دعوت یا تصادم؟
اہلِ مغرب کے ساتھ ہمارے تعلق کی اساس کیا ہے؟ تصادم کے خدشات اپنی جگہ مگر امکانات کا قافلہ بھی ان خدشات کا ہم سفر ہے۔ جنگجو مزاج کو تصادم سازگار ہے۔ وہ امکانات کو نہیں دیکھتا صرف خدشات کو سامنے رکھتا ہے۔ بسا اوقات مبالغے کے ساتھ۔ ایک واقعے پر وہ اپنی منطق کے اصولوں کا اطلاق کرتا اور عمومی نتائج اخذ کرتا ہے۔ یہی کام دیوار کے اُس طرف بیٹھے ہوئے وہ لوگ بھی کرتے ہیں جنہوں نے جنگجویانہ مزاج پایا ہے۔ اگر یہ دونوں بروئے کار آ جائیں تو تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ معاشرہ اگر زندہ ہے تو ایسے لوگوں کا یرغمال بننے سے انکار کر سکتا ہے۔
یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ آزادیٔ رائے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے لیکن کسی محترم ہستی کی توہین انسان کا بنیادی حق نہیں ہے۔ دوسروں کے جذبات کی بے حرمتی جرم ہے۔ رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی ذات والا صفات، جو ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، اِس سے بلند تر ہے کہ کوئی انسانی حقوق کی آڑ میں، ان کے حضور میں بے ادبی کی جسارت کرے۔ یہ فیصلہ انسانی حقوق کے اسی تصور سے پھوٹا ہے جو دورِ جدید کی پہچان ہے، جنگجو جس کی مذمت کرتے ہیں۔
یہ ذہنی ساخت ہے جو فیصلہ کرتی ہے کہ آپ نے کس راستے پر چلنا ہے۔ تصادم یا دعوت؟ مولانا وحید الدین خان دعوتی مزاج رکھتے ہیں۔ برسوں پہلے بہت پتے کی بات کہی۔ مسلمانوں کی سیاسی ایمپائر ختم ہو گئی مگر دورِ جدید نے وہ امکانات پیدا کر دیے ہیں کہ وہ اپنی دعوہ ایمپائر کھڑی کر سکتے ہیں۔ ابلاغ کی دنیا میں آنے والے انقلاب نے وہ مواقع فراہم کر دیے ہیں کہ ساری دنیا کے سامنے دینِ حق کی دعوت رکھی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں، مغرب میں جنم لینے والے انسانی حقوق کے تصور نے جس مذہبی آزادی کو بنیادی قدر کے طور پر قبول کیا ہے، اس نے مسلمانوں کے لیے اس امکان کو جنم دیا ہے کہ وہ اپنے دین کی دعوت ان کے سامنے پیش کریں‘ جن تک یہ دعوت نہیں پہنچی۔
دعوت صبر کا مطالبہ کرتی ہے۔ دعوت میں بالعموم شہرت نہیں ہوتی اور آدمی ہیرو بھی نہیں بنتا۔ داعی کی ہڈیاں گھل جاتی ہیں لیکن زمانے کو خبر تک نہیں ہوتی۔ کون ہے جو یہ مشقت اٹھائے۔ اس کے بر خلاف ایک للکار آپ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے۔ ایک نعرہ آپ کو لیڈر بنا سکتا ہے۔ لوگ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ٹی وی سکرین اور اخبارات کے صفحات آپ پر مہربان ہو جاتے ہیں۔ آپ ایک گروہ کے راہنما بن جاتے ہیں، اپنے تئیں آپ جس کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ اﷲ کی کتاب پکارتی ہے کہ مسلمان کی ذمہ داری شہادتِ حق ہے، کسی خاص گروہ کی طرف داری نہیں۔ ہم مگر مذہب کو عصبیت مان کر، اس کا نام لینے والوں کے محافظ بن جاتے اور اپنے اس اقدام پر دین کی مہر لگا دیتے ہیں۔
اسلام کو جب سے سیاسی عصبیت بنایا گیا ہے، دعوت کے امکان معدوم ہو گئے ہیں۔ اس سے تصادم کا تصور مقبول ہوا اور پھر اس کے علم برداروں نے دنیا کے بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے اسے حزب اﷲ اور حزب الشیطان میں تقسیم کر دیا، درآں حالیکہ صرف عالم کا پروردگار اس بات کا سزاوار ہے کہ وہ انسانوں کی اس طرح گروہ بندی کرے۔ ہمارے لیے یہ دنیا داعی اور مدعو میں منقسم ہے۔ مسلمان داعی ہیں اور غیر مسلم مدعو۔ دورِ جدید نے اس کے امکانات پیدا کر دیے ہیں کہ ہم دوسروں تک آسانی کے ساتھ اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔ ماضی میں دعوت آسان نہیں تھی۔ اس کے لیے جان بھی دینا پڑتی تھی۔ آج دعوت کے امکانات ہمارے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کا مروجہ تصور بھی ان میں شامل ہے۔
تیس سال سے اسلام کو سمجھنے کی طالب علمانہ کوشش جاری ہے۔ اب تک یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا قانونِ آزمائش کے تحت آباد کی ہے۔ جب اس کی بساط لپیٹ دی جا ئے گی تو عالم کا پروردگار انسانوں کو، اس دنیا میں گزاری گئی زندگی کے بنیاد پر دو گروہوں میں بانٹ دے گا، جیسے وہ رسول کی موجودگی میں اسی دنیا میں بانٹ دیتا ہے: حزب اللہ اور حزب الشیطان۔ جو خود کو حزب اللہ سمجھتے ہیں، ان کو دنیا میں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ صلاحیت اور حالات کے مطابق دوسروں تک دین کی دعوت پہنچائیں تاکہ جب قیامت میں حتمی تقسیم ہو تووہ دائمی خسارے سے محفوظ رہیں۔
دنیا میں البتہ گروہ اور ممالک اقتدار اور غلبے کے نفسیات میں جیتے اور اقدام کرتے ہیں۔ ان کا یہ فعل کسی دینی حکم کا نہیں، غلبے یا بقا کی جبلت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی گروہ کو اگر ایسی جنگ لڑنا پڑے جو خود کو مسلمان کہتا ہے تو اسے ان حدود کا خیال رکھنا ہے‘ جو اس باب میں اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر نے اپنی کتاب اور اسوہ سے متعین کر دی ہیں؛ تاہم اسے کسی خطے میں اقتدار حاصل ہے تو وہ ظلم کے خاتمے کے لیے اجتماعی طاقت کو بھی بروئے کار لا سکتا ہے۔ کسی خاص گروہ سے تصادم دین کی تعلیمات کا حصہ نہیں۔ کوئی فرد یا گروہ اپنی لڑائی لڑنا چاہتا ہے تو لڑے۔ اس کے لیے دین کو ڈھال نہ بنائے۔
ہمارے کچھ لوگ تصادم کا مزاج رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر لحظہ کوئی حریف مقابل ہو۔ نہ ہو تو کھڑا کر دیا جائے۔ چلیں اس حد تک تو گوارا کیا جا سکتا ہے، مگر وہ یہاں رکتے نہیں۔ وہ اپنے مفروضہ دشمن کو اللہ کا دشمن یا دین کا دشمن بنا کر پیش کرتے اور پھر اہلِ اسلام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہو جائیں۔ اگر کوئی ملک انہیں اپنے ہاں داخلے کی اجازت نہیں دیتا تو وہ اسے گروہوں کے درمیان مذہبی تصادم میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کو انفرادی حیثیت میں روکتا ہے تو اس سے آپ کے ہم مذہبوں کا کیا تعلق؟
مغرب میں آئے دن نئے نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ بعض کو عالمگیر شہرت مل جاتی ہے۔ جیسے ہنٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم کا تصور۔ ہمارے ہاں بعض لوگ اسے اہلِ مغرب کے اجماعی عقیدے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی زید حامد صاحب یا بیت اللہ محسود کو پاکستانی قوم کا نمائندے بنا کر پیش کر دے۔ یہ ایک اقلیتی گروہ کی رائے ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے بعض مقامات پر کسی ریاست کا نظمِ اجتماعی بھی اس کے ہاتھ میں ہو لیکن اسے مغرب کا واحد نمائندہ نہیں کہا جا سکتا۔
جس چیز کو مغرب کے اجتماعی عقیدے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے وہ سماجی اقدار کا وہ نظام ہے جس میں انسانی آزادی اور بنیادی حقوق کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی میں ہمارے لیے امکانات کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔ ہم اگر جان لیں کہ مسلمان امتِ دعوت ہیں تو ان امکانات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق کا فیصلہ یہ بتا رہا ہے کہ مغرب میں تصادم کی نفسیات رکھنے والوں کو غلبہ حاصل نہیں۔ مغرب اگر ایسے اقلیتی گروہ سے مرعوب نہ ہوا تو تصادم کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
یہ فیصلہ ہمیں بھی کرنا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایک اقلیتی گروہ تصادم کی آگ کو ہوا دینے کا عادی ہے۔ کسی فرد کے خلاف اقدام کو پوری ملت کے خلاف اقدام ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں خود کو اس گروہ کا یرغمال نہیں بنانا۔ فرد کے خلاف کوئی اقدام نا انصافی پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ہم اس کی مذمت کریں گے لیکن اسے پوری امتِ مسلمہ یا اسلام کے خلاف اقدام نہیں قرار دیں گے۔
ہمارے لیے امکانات موجود ہیں۔ دیکھنا یہ کہ مسلم معاشروں میں کیا سوچ غالب رہتی ہے۔ تصادم یا دعوت؟