بے بسی میں، جب کچھ نہیں سوجھتا تو بے اختیار آسمان کی طرف نگاہیں اٹھتی ہیں۔ وہی ہے جو زندگی سے موت اور موت سے زندگی کو پیدا کرتا ہے۔ جس کی تقویم بھی اپنی اور لغت بھی اپنی۔ اس لغت میں بے بسی نہیں قدرتِ کاملہ ہے۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی مبالغہ نہیں کہ بے بسی کی تصویر بن گیا ہوں۔ محبت کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ کبھی زبان ساتھ نہیں دیتی، کبھی ہاتھ۔ کچھ بولنا چاہیں تو آنسو گلے میں ٹپکنے لگتے ہیں۔ کچھ لکھنا چاہیں تو آنکھیں دھندلا جاتی ہیں۔ زبان کی طرح ہاتھ بھی خاموش ہو جاتا ہے۔ اللہ کے رسول سیدنا محمدﷺ کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ بے بسی خدا کے حضور میں لا کھڑا کرتی ہے کہ اسلام میں ہر تعلق کی اساس تعلق باللہ اور ہر محبت، اس کی محبت ہی کی فرع ہے۔
دل چاہتا ہے کہ اس ذکر کے لیے لغت بھی مختلف ہو۔ میری علمی کم مائیگی ایسی لغت کی تشکیل میں مانع ہے۔ 'عشق‘ جب سے پست انسانی جذبات سے وابستہ ہوا ہے، دل نہیں مانتا کہ اس تعلق کے لیے زبان یا قلم پر آئے۔ 'محبت‘ سے بہتر شاید کوئی لفظ نہیں کہ خود عالم کے پروردگار نے اسے اپنی ذات کے ساتھ تعلق کے لیے بیان کیا ہے: 'اے پیغمبر آپ ان سے کہیے! ''اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘ (آل عمران؛31)
یہ معاملہ کچھ افتادِ طبع کا بھی ہے۔ طبیعت میں رقت کا غلبہ ہے۔ جذبات جب غالب ہوں تو حواس ساتھ نہیں دیتے۔ پھر وجود کی حکمرانی دل کو سونپ دیتا ہوں۔ سونپ کیا دیتا ہوں، وہ خود ہی آگے بڑھ کر باگ تھام لیتا ہے۔ یہ مرحلہ نازک ہوتا ہے۔ اس کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ اعتدال کا دامن چھوٹنے لگے۔ یہاں مجھے رسول کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ہاتھ تھامتے اور مجھے صراطِ مستقیم پہ لا کھڑا کرتے ہیں۔
اللہ کے آخری رسولﷺ اپنی امت سے جدا ہونے کو ہیں۔ آپﷺ کثرت سے اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ زبانِ مبارک سے دعاؤں کے گلاب جھڑ رہے ہیں۔ آپﷺ جانتے ہیں کہ آپﷺ کے صحابہ آپﷺ سے کیسی محبت کرتے ہیں۔ آپﷺ کو یہ بھی خبر ہے کہ محبت میں کیسے جذبات غالب ہوتے ہیں اور یہ احتمال ہوتا ہے کہ حفظِ مراتب کا لحاظ نہ رہے۔ آخری لمحوں میں، جب رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کا وقت قریب ہے‘ آپﷺ آخری خطبہ ارشاد فرماتے ہیں ''تم سے پہلی امتوں نے اپنے پیغمبروں اور بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ دیکھو! تم ایسا نہ کرنا۔ میں منع کر کے جا رہا ہوں‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔
میری بے بسی کا سبب مگر کچھ اور ہے۔ میری کم مائیگی اور لا چارگی علمی ہے اور اخلاقی بھی۔ آپﷺ کا ذکر، میں جانتا ہوں کہ میری اوقات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے لیے نمونہ آپﷺ ہی کا اسوہ ہے۔ مجھے آپﷺ کی طرف رجوع کرنا اور آپﷺ ہی سے پوچھنا ہے کہ میرا پروردگار مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ اپنے مالک کی رضا کے لیے مجھے آپﷺ ہی کی اتباع کرنی ہے۔ میں جب آپﷺ کی سیرت کو سمجھنا چاہتا ہوں تو میرا پست اخلاق مجھے بے چین کر دیتے ہیں۔ ''یہ اخلاق اور یہ دربار!‘‘
مجھے نماز پڑھنی ہے جیسے آپﷺ نے پڑھی کہ قبولیت کی یہی شرط ہے۔ میں یہ جاننے کے لیے سیرت کی کوئی کتاب اٹھاتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نماز میں ایک دعا مانگا کرتے تھے: ''اے میرے اللہ! آپ بہتر اخلاق کے لیے میری راہنمائی فرمائیں کہ آپ سے بہتر کوئی راہ نہیں دکھا سکتا۔ آپ برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دیں کہ آپ سے بڑھ کر کوئی دور کرنے والا نہیں۔‘‘ (مسلم)
میں چاہتا ہوں کہ میرا ایمان کامل ہو جائے۔ اللہ کے رسولﷺ مجھے بتاتے ہیں ''مومنوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں‘‘ (ترمذی، ابو داؤد)۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگ بہت عبادت کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا کے حضور میں یہ مجھ سے کہیں آگے ہوں گے۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: ''قیامت کے دن ترازو میں کوئی شے حسنِ خُلق سے زیادہ بھاری نہیں ہو گی۔ ایک اچھے اخلاق والا، اپنے حسنِ خلق سے ہمیشہ کے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ (ترمذی، مسند احمد ابن حنبل)۔
میرا دل چاہتا ہے مرنے کے بعد، جنت میرا ٹھکانا بنے۔ میرے جیسے ایک کم علم بدو نے اللہ کے رسولﷺ کے سامنے یہ سوال رکھا کہ مجھے وہ کام بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ''انسانوں کو غلامی سے آزاد کر۔ لوگوں کی گردنوں کو قرض کے بوجھ سے چھڑا۔ ظالم رشتہ دار کو ظلم سے روک۔ اگر یہ نہ کر سکے تو بھوکے کو کھانا کھلا۔ پیاسے کو پلا۔ نیکی کی تلقین کر۔ برائی سے منع کر۔ اگر یہ بھی نہ کر سکے تو اتنا ضرور کر کہ تمہاری زبان سے بھلائی کی بات کے سوا کچھ صادر نہ ہو۔‘‘
میں کتبِ حدیث کے اوراق پلٹتا ہوں۔ کہیں لکھا ہے ''تین باتیں ایمان کا جزو ہیں: مفلسی میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔ دنیا میں امن اور سلامتی پھیلانا۔ اپنی ذات کے معاملے میں بھی انصاف کرنا۔ ایک جگہ نقل ہوا: ''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔ مومن وہ ہے جس پر لوگ اتنا بھروسہ کریں کہ اپنی جان و مال کو اس کی امانت میں دے دیں۔‘‘
آپﷺ نے دین کے باب میں کوئی بات اپنی طرف سے نہیں فرمائی۔ یہ اسی دین کی تبین و شرح ہے جو قرآن و سنت کی صورت میں، آپﷺ نے بطور دین امت میں جاری فرمایا۔ یہ شرح آپﷺ کے منصبِ رسالت کا تقاضا ہے جو قرآن میں بیان کیا گیا۔ زندگی کے مختلف مراحل میں آپﷺ اپنے اسوہ حسنہ سے راہنمائی فرماتے گئے۔
میں اسی دین کی جستجو میں کتبِ سیرت کو پڑھتا ہوں۔ ارشاد ہوا: ''مومن کسی پر طعن کرتا ہے اور نہ کسی کو بد دعا دیتا ہے۔ کسی کوگالی دیتا ہے نہ بد زبان ہوتا ہے‘‘۔ میں یہ سب پڑھتا ہوں تو اپنی اخلاقی پستی کا احساس مجھے گھیر لیتا ہے۔ میں اس عظیم تصورِ اخلاق کو اپنے علم کی گرفت میں لا سکتا ہوں اور نہ عملًا اس کا کوئی نمونہ ہی پیش کر سکتا ہوں۔ میں پھر خود کو بے بس سمجھتا ہوں۔ لوگ جب سیرت کے کسی جلسے میں گفتگو کی دعوت دیتے ہیں تو میرا اخلاقی وجود راستے میں کھڑا ہو جاتا ہے: ''اس اخلاق کے ساتھ سیرت پر گفتگو کرو گے؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟‘‘ کچھ لکھنا چاہتا ہوں تو ایک احساس قلم سے لپٹ جاتا ہے: ''کیا تمہارے پاس وہ پاکیزہ قلم ہے جو سیرت پہ لکھ سکے؟‘‘
مجھے صرف آپ ﷺ کی طرف دیکھنا ہے۔ آپﷺ ہی کی ذاتِ والا صفات سے مجھے دین ملا ہے اور آپﷺ ہی میرے راہنما ہیں۔ میں اس شان کی شخصیت کے ساتھ اپنی نسبت پر ناز کرتا ہوں۔ میرا حال مگر یہ ہے کہ میرے اخلاق کو آپﷺ کے اخلاق سے کوئی نسبت نہیں۔ لوگ میری زبان کے شر سے محفوظ ہیں نہ میرے ہاتھ کے شر سے۔ میں قلم سے فساد پھیلاتا ہوں اور زبان سے بھی۔ میرے ہی ہم مذہب مجھ سے خوف زدہ ہیں کہ میں اپنے قلم اور زبان سے ان کے جان و مال کو خطرات میں مبتلا کر دیتا ہوں۔
میں اپنے پیغمبرﷺ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ کی شان میں کچھ لکھوں۔ ایک تو طبیعت میں رقت اور پھر یہ علمی اور اخلاقی بے چارگی‘ میری راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔
اس بیچارگی میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی ہیں۔ ''اے میرے رب! اس ملک میں ستانوے فی صد مسلمان بستے ہیں۔ وہ مسلمان اسی لیے ہیں کہ آپ پر ایمان لائے۔ وہ آپ کے آخری رسولﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ میری طرح گناہ گار ہو سکتے ہیں مگر ان کے دل میں اللہ پر ایمان اور اپنے رسول سے محبت ہے۔ یا اللہ مجھے وہ اخلاق دے کہ یہ سب میرے شر سے محفوظ رہیں۔ میرے اخلاق کو اپنے نبی کے اخلاق کا پرتو بنا دے۔ مجھے سب انسانوں کے لیے باعثِ رحمت بنا دے جو دراصل آپ ہی کا کنبہ ہیں۔‘‘
آپ سب میرے ساتھ 'آمین‘ کہیں