مذہبی تحریکوں نے ہمیں کیا دیا؟ اگر ہم میں عقل و خرد کی ایک رمق باقی ہے تو آج ہمارے لیے اس سے اہم تر سوال کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ دنوں ایک کتاب زیرِ مطالعہ تھی۔ یہ پاکستان میں برپا ہونے والی پہلی مذہبی تحریک کے بارے میں ہے۔ یہ علی عثمان قاسمی کی تصنیف ہے: ''احمدی اور پاکستان میں مذہبی اخراج کی سیاست‘‘ (Ahmadis and the Politics of Religious Exclusion in Pakistan)۔ علی کو جب بھی پڑھا، سوچ و فکر کے نئے دریچے وا ہوئے۔ اس کتاب میں انہوں نے 1952-53ء میں ختمِ نبوت کے عنوان سے اٹھنے والی تحریک کے سیاسی، مذہبی اور سماجی مضمرات کا جائزہ لیا ہے۔
ایک باب 1974ء کے واقعات کی تفہیم کے لیے مختص ہے‘ جن کا تعلق اس تحریک کے دوسرے دور سے ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اُس آئینی ترمیم اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے‘ جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ علی نے تمام ریکارڈ کو سامنے رکھا ہے جو اس موضوع پر میسر تھا۔ یہ تحریک 'مجلسِ احرار‘ نے اٹھائی تھی‘ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ، دوسرے گروہ بھی شامل ہوتے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تحریک میں 25 افراد مارے گئے۔ احرار کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس میں مبالغہ ہو سکتا ہے۔ برٹش ہائی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پانچ سو افراد کے مرنے کا ذکر کیا؛ تاہم یہ واقعات اتنے خون ریز ضرور تھے کہ ان کے نتیجے میں پنجاب کے بڑے شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا۔
علی عثمان نے اس کتاب میں بطور خاص 'منیر کمیشن رپورٹ‘ کا تجزیہ کیا ہے۔ جسٹس ایم آر کیانی بھی اس کمیشن کا حصہ تھے لیکن یہ جسٹس منیر کے نام سے منسوب ہوئی۔ یہ کمیشن 1952-53ء کے واقعات کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا تھا۔ کمیشن نے بعض ایسے سوالات کو بھی اپنی تحقیقات کا حصہ بنا لیا‘ جو اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتے تھے۔ جیسے مسلمان کی تعریف یا اسلامی ریاست کی نوعیت۔ یوں رپورٹ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جو لوگ مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں، وہ ملک میں کون سا اسلام نافذ کریں گے۔ علی کا تجزیہ یہ ہے کہ اس تاثر کے لیے، کمیشن کے پاس کوئی علمی بنیاد نہیں تھی۔
جسٹس منیر ایک سیکولر ریاست کے حامی تھے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات میں اپنا یہ مقدمہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ بعض ناقدین نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ قائد اعظم کے خیالات کو نقل کرتے وقت انہوں نے علمی دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس ضمن میں سلینہ کریم کی کتاب 'سیکولر جناح اور پاکستان‘ (Secular Jinnah and Pakistan) اہم ہے۔ جسٹس کیانی اگرچہ شخصی زندگی میں ایک مذہبی آدمی تھے مگر مذہب و ریاست کے تعلق کے حوالے سے، ان کے خیالات جسٹس منیر سے مختلف نہیں تھے۔
یہ رپورٹ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں اسلامی ریاست کے مقابلے میں ، ریاست کا ایک متبادل تصور دیا گیا ہے۔ اس وقت کی اسمبلی نے 'اسلامی ریاست‘ کے جس تصور کو اختیار کیا، وہ قراردادِ مقاصد کی صورت میں مجسم ہوا، جو بعد میں آئین کا حصہ بن کر، پاکستان کے نظری تشخص کی بنیاد بن گئی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مو لانا امین احسن اصلاحی اور دیگر علما نے کمیشن کے روبرو جو بیانات دیے، وہ اس فکری بحث کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ مسئلہ تکفیر کے باب میں علما نے جو تاویلات پیش کیں، وہ بھی بہت دلچسپ ہیں۔
پاکستان میں ابتدا ہی سے مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی جو بحث چل نکلی تھی، اس کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ یہ بعض اہم سوالات کے جواب دیتی ہے۔ جیسے مجلس احرار کی کیا ضرورت تھی جو یہ تحریک برپا کرنے کا باعث بنی؟ مرکز اور پنجاب میں جاری سیاسی کشمکش میں اس قضیے کا کیا کردار رہا؟ ممتاز دولتانہ اس سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے؟ خواجہ ناظم الدین کی سیاست کیا تھی؟ جماعت اسلامی کو کیسے بادلِ نخواستہ اس تحریک میں شامل ہونا پڑا؟ منیر رپورٹ میں کن اہم ترین پہلوئوں سے صرفِ نظر کیا گیا؟
یہ کتاب پڑھتے وقت مجھے خیال ہوا کہ پاکستان میں اٹھنے والی تمام مذہبی تحریکوں کا اسی طرح محققانہ جائزہ لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ اصلاً کیا تھی؟ اس میں سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کا کردار کیا تھا؟ عالمی قوتیں کیسے پسِ پردہ متحرک تھیں۔ وسائل کس نے فراہم کیے؟ تاجر کیسے بروئے کار آئے اور کیوں؟
پاکستان کو سمجھنے کے لیے مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مذہبی تحریکوں کا مطالعہ اس کا نقطہ آغاز ہو سکتی ہے۔ تقسیمِ ہند کے پس منظر میں مذہب کے کردار پر بہت سی علمی تصانیف سامنے آ چکیں۔ ہمارے ہاں عائشہ جلال نے اس کو موضوع بنایا۔ ہم نے قومی سطح پر اس موضوع کو دقتِ نظر کے ساتھ نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کا جب بھی اہلِ مذہب سے پالا پڑا، اس کو پسپائی ہی اختیار کرنا پڑی۔ ریاست کا معاملہ یہ رہا کہ اس نے مذہب کو اپنے سلامتی کے تصور (Security Paradigm) کی بنیاد بنایا۔ ایک وقت آیا کہ خود ریاست کی سلامتی کا تقاضا ہوا کہ اس تصور کی نفی کی جائے۔ ایسے موقعوں پر اس کے پاس کوئی بیانیہ موجود نہیں تھا۔ ریاست نے ایک عارضی حل اختیار کرتے ہوئے، درپیش معاملے سے جان چھڑا ئی اور کچھ وقت کے بعد اس نے پھر سر اٹھا لیا۔
چند روز پہلے ریاست کو پھر اسی مسئلے کا سامنا تھا۔ ایک بار پھر، ریاست اور مذہب کے باب میں ہمارے تضادات اور ابہامات نے ہمیں گھیر لیا۔ ہم نے پھر ایک عارضی حل تلاش کیا۔ معاشرہ اور ریاست پوری طرح ناکام رہے۔ مذہب کے نام پر ایک گروہ بروئے کار آیا تو تمام مذہبی سیاست کرنے والے، اس کے ہم رکاب ہو گئے۔ اب ایک طرف ریاستی ڈھانچہ ہے اور دوسری طرف عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال۔ عوامی جذبات اور ریاستی مفادات میں یہ تضاد کب تک گوارا کیا جائے گا؟
پاکستان تاریخی اور سماجی اعتبار سے دو فالٹ لائنز پر کھڑا ہے۔ ایک مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق اور دوسرا سول ملٹری تعلقات۔ جب تک ان کو حل نہیں کیا جائے گا، یہاں ایسے زلزلے آتے رہیں گے‘ جو سیاسی و سماجی استحکام کو تہہ و بالا کر دیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے: قومی سطح پر آزادانہ مکالمہ اور پھر اتفاقِ رائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ہر کسی کو اپنی بات کے ابلاغ کا حق ملے اور اس پر تنقید کا بھی۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کا یہی فطری طریقہ ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ کچھ افراد اور ادارے خود کو قومی سلامتی کے تنہا محافظ اور قوم کا مسیحا سمجھتے ہیں۔ وہ ہر اختلافی موقف کو ملک کے خلاف بیانیہ قرار دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک بند معاشرے میں زندہ ہیں جس میں خود اختیاری سنسر نافذ ہے۔ یہ ان دیکھے خوف کا نتیجہ ہے۔ معاشرہ اگر اس میں مبتلا ہو جائے تو اس کے فکری اور ذہنی سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو بات کر نے دیں۔ اگر اس میں وزن نہیں ہو گا تو وقت خود ہی اس کو مسترد کر دے گا۔
مذہب و سیاست کا مسئلہ برسوں سے ہمارے دہلیز پر کھڑا ہے۔ جب چاہتا ہے ہمارے آنگن میں گھس کر امن کو برباد کر دیتا ہے۔ اس بار بھی وہ کم از کم چار افراد کی جان لے گیا ہے۔ ہم اسے اپنے صحن سے نکالنے ہی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ صحن سے تو نکلا ہے، دہلیز سے دور نہیں گیا۔ جب چاہے کا پھر واپس آ جائے گا۔
ارباب حل و عقد کو مگر یہ بات کون سمجھائے جنہیں اس مکالمے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ انہیں پہلے اس غلط فہمی سے نکلنا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ پاکستان میں ہر حکومت ان دو مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کی وجہ سے ختم ہوئی جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ مجھے اس تاریخی عمل میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔