زوال اخلاقی ہو یا علمی ،ہمہ گیر ہو تا ہے۔
فنونِ لطیفہ ایک سماج کی جمالیاتی تصویرپیش کرتے ہیں۔ان سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ خیال اورذوق کے اعتبارسے کہاں کھڑا ہے۔شاعر،ادیب،کالم نگار،فلم،ٹی وی ڈرامہ،اشتہار ساز ادارے،یہ سب بتاتے ہیں کہ معاشرے کی علمی سطح کیا ہے ا وراس کے افراد کس ذوق کے مالک ہیں۔اگر فیض ہیں، انتظار حسین ہیں،چراغ حسن حسرت ہیں،نذرالاسلام ہیں،اشفاق احمد ہیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ جمالیاتی حس زندہ ہے، علم زندہ ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ آج ایسا کچھ نہیں ہے، الاما شااللہ۔سب مسندیں خالی ہیں۔ہر طرف سطحیت ہے۔شعر پڑھیے تو کسی تازہ خیال کا گزر نہیں۔افسانہ لکھا جا رہا ہے تو کون ہے جو منٹو کی مسند پر بیٹھا اور کون ہے جسے اِس عہد کا پریم چند کہیں؟گانا سننا تو سر دردی مول لینا ہے۔نہ سُر نہ ساز۔اشتہارات دیکھیے تو نہ تہذیبی حساسیت نہ جمالیاتی پختگی۔معلوم ہو تا ہے کہ ہر شعبے کو بازیچۂ اطفال بنا دیا گیا ہے۔
کیا قدرت نے اپنے تخلیقی وفور کو روک لیا ہے؟کیا اب بڑے لوگ پیدا نہیں ہورہے؟اگر ایسا ہے تو یہ حادثہ صرف ہمارے ساتھ کیوں ہوا؟دنیا کے دوسرے معاشروں میںجستجو اور تحقیق کے ایسے ایسے مظاہر سامنے آرہے ہیں کہ نگاہیں خیرہ ہو جا تی ہیں۔تسخیرِ کائنات کا عمل جا ری ہے اورفنونِ لطیفہ کے میدان بھی آباد ہیں۔ہم ایک شعبے کا ذکر کرتے اور اس کا نوحہ لکھتے ہیں۔کیا یہ صرف سیاست ہے جو زبوں حالی کا شکار ہے؟ کیا یہ صرف ادب ہے جو مرجھا گیا ہے؟ کیا صرف موسیقی ہے جہاں استاد کی مسند خالی ہے؟کیا ٹی وی ڈرامہ ہے جو زوال کا داستاں کہہ رہا ہے؟
یہ صرف ایک شعبے کا قصہ نہیں۔ ہر شعبہ ایسے مظاہر سے بھرپور ہے۔ کسی نئے خیال کا گزر ہے نہ لوگوں کو اپنی معاشرتی حساسیت کا اندازہ ہے۔ کہیں ذہنی پستی ہے اور کہیں بے مغز نقالی۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اپنی تہذیبی ساخت سے واقف ہے اور نہ ہی فکری ارتقا کے مطالبات سے آشنا۔ اشتہار ہو یا ٹی وی ڈرامہ۔ سیاست ہو یا مذہب۔ خانقاہ ہو یا مکتب۔ ہر طرف'نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ‘۔
مباحث پر سیاست کا غلبہ ہے۔ اس لیے لوگ زیادہ تر سیاست کی بے مائگی کا گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کے یُو ٹرن پر بات ہو رہی ہے۔ لطف یہ ہے کہ جو تبصرہ نگار اس مشق میں مصروف ہیں، ان کے کالم اور خطبات رجعت کے ان گنت نمونے لیے ہوئے ہیں۔ ایک روز ایک بات، دوسرے دن دوسری بات۔ یہی نہیں قلم قابو میں ہے اور نہ زبان۔ اس پر اعتماد کا یہ عالم کہ جیسے کوئی حکیم الامت کلام کر رہا ہے۔
مذہب کی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ دلیل و استدلال ہی نہیں، اخلاق اور علم بھی معلوم ہوتا ہے کہ رخصت ہو چکے۔ دلیل کی جگہ فتوے نے لے لی اور اخلاق کی جگہ دشنام نے۔ جہاں عقل کو بروئے کار آنا چاہیے وہاں جذبات کی حکمرانی ہے۔ مکالمہ نہیں، اب مناظرہ ہوتا ہے۔ متکلم نہیں، اب مناظر پیدا ہوتے ہیں۔ دین دعوت کا نہیں، عصبیت کا نام ہے۔ لوگ دین نہیں، مسلک کے وکیل ہیں۔ اسی لیے عرض ہے کہ زوال جب آتا ہے تو ایک شعبے تک محدود نہیں رہتا، سارے سماج میں پھیل جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
یہ زوال اُس معاشرے کا مقدر ہے جو بند ہے۔ جہاں نئے فکر کا گزر ممنوع ہے۔ جہاں اختلاف کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے لیکن ان معاشروں میں جہاں معاملات کو پوری طرح سرمایہ دار کے حوالے کر دیا جاتا ہے‘ جس کا واحد مقصد منافع خوری ہے۔ مثال کے طور پر ایک سرمایہ دار جب ایک ٹی وی چینل قائم کرتا ہے تو اس سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ ناظرین کی تعداد میں اضافہ چاہتا ہے۔ اب وہ یہ دیکھتا ہے کہ عوامی ذوق کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ اس ذوق کو پیشِ نظر رکھ کر پروگرام ترتیب دیتا ہے۔
اس سرمایہ دار کو ایک دوسرے سرمایہ دار کی معاونت چاہیے جو اپنی مصنوعات کی تشہیر چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ عوام کی اکثریت اس کی مصنوعات سے واقف ہو اور اس کی خریدار بنے۔ اس کے لیے وہ دیکھتا ہے کہ کون سا چینل زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ یوں وہ اس کو مشتہر بناتا ہے۔ یہاں ایک تیسرا منافع خور شامل ہو جاتا ہے جو ایسے اشتہارات بناتا ہے جو عوامی ذوق کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ تینوں اپنے اپنے منافع کی تلاش میں ہیں۔ عوام کے ذوق کی تعمیر یا معاشرے کی تہذیبی اقدار کا لحاظ کسی کے پیشِ نظر نہیں ہے۔
مغرب، جو اس سرمایہ داری کا جدِ امجد ہے، وہاں علم و ذوق کا یہ زوال نہیں۔ وہاں اگر سطحیت کے مظاہر موجود ہیں تو اس کے ساتھ اعلیٰ ادب بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اعلیٰ درجے کی فلمیں بھی بن رہی ہیں۔ طبعی اور سماجی علوم میں تحقیق کی شاندار روایت بھی پنپ رہی ہے۔ وہاں کا سرمایہ دار بھی منافع ہی کو اپنا مطمح نظر سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ہی نظام دو جگہوں پر دو مختلف نتائج کیوں دے رہا ہے؟
مغرب میں سرمایہ داری ایک معاشی نظام ہے جو ایک نظامِ اقدار کا حصہ ہے جس نے ایک فکری تبدیلی کے نتیجے میں جنم لیا۔ اس نظامِ اقدار میں انسان کی فکری آزادی کو مقدم رکھا گیا ہے۔ اس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مہمیز دینے کے لیے مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔ وہاں کا سرمایہ دار دراصل اس نظامِ اقدار کے ایک حصے کے طور پر بروئے کار آتا ہے۔ اشتراکیت جیسے خارجی خطرات نے بھی اسے یہ سکھایا ہے کہ اگر انسان کی آزادی کو سلب کر لیا گیا تو پھر اس کی اپنی بقا بھی خطرات میں گھر جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں کا سرمایہ دار اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ اس نظامِ اقدار کی حفاظت کے لیے خرچ کرتا ہے، جس کی ایک شاخ پر اس کا آشیانہ قائم ہے۔ مثال کے طور پر یورپ کی کئی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کے وسائل وہاں کا سرمایہ دار طبقہ فراہم کرتا ہے۔ صدیوں سے ایسے ٹرسٹ قائم ہیں جن کا سود ہی ان جامعات کو چلانے کے لیے کافی ہے۔ نوبل پرائز بھی ایک ایسے ہی سرمایہ دار کی نشانی ہے۔
یہ سرمایہ دار علمی اور ثقافتی اداروں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی حکومتیں بھی اس میں معاون ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اقدار کے بارے میں حساس ہیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومتیں اس باب میں سنجیدہ ہیں اور نہ سرمایہ دار۔ ان کے مقاصد قلیل ہیں اور ذہنی سطح پست۔ آج ایک باخبر کالم نگار نے لکھا کہ افتخار عارف صاحب کو ادارہ فروغ قومی زبان کی صدر نشینی سے ہٹا دیا گیا۔ یہ فیصلہ بتا رہا ہے کہ حکومتی سطح پر فیصلے کن بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں۔
سرمایہ دار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف ناجائز منافع خوری کرتا ہے اور دوسری طرف ان گروہوں کو وسائل فراہم کرتا ہے جو فی الجملہ تہذیب اور معاشرہ دونوں کے لیے ضرر رساں ہیں۔ وہ تہذیب کے مطالبات سے با خبر ہے نہ معاشرتی ضروریات سے۔ یوں وہ سماجی جمود میں حصہ دار ہے، سماجی ارتقا میں نہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو مغرب اور ہمارے معاشرے کے درمیان ہے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام دو مقامات پر دو مختلف نتائج دے رہا ہے۔
ایک بند معاشرے میں سماجی ارتقا ممکن نہیں۔ جہاں ریاست اور روایتی معاشرتی طبقات آزادی رائے پر پابندی کے باب میں ہم آہنگ ہو جائیں وہاں نئی سوچ جنم نہیں لے سکتی۔ پھر نئے افکار کا گزر ہوتا ہے نہ دادِ تحقیق ہی دی جا سکتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی فلمیں بنتی ہیں نہ اشتہارات۔ اعلیٰ درجے کے علما اور سکالر پیدا ہوتے ہیں نہ سیاست دان۔ زرخیز دماغ ایسی سرزمین سے کوچ کر جاتے ہیں اور معاملات پست ذہنی سطح کے لوگوں کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔
کسی قوم پر جب یہ حادثہ گزر جائے تو وہ ایک شعبے کو متاثر نہیں کرتا۔ اس کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں۔