تحریکِ لبیک کے خلاف حکومت نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔گمان یہی ہے کہ اس کے ممکنہ اخلاقی‘سیاسی اور سماجی مضمرات پر غور کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا۔ حکومت نے لبیک والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔وزیر مذہبی امور نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ان حضرات نے جو باتیں کہیں‘ان پر معذرت کی گئی اور حکومت نے اس معذرت کو قبول کر لیا۔اس سے بدیہی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب ان کے خلاف کوئی قانونی یا انتظامی قدم نہیں اٹھایا جا ئے گا۔ان حضرات نے 25 نومبر کو ایک مظاہرے کا اعلان کیا۔حکومت نے حفظِ ماتقدم کے طور پر لبیک کی قیادت کو گرفتار کر لیا۔حکومت اس کا حق رکھتی تھی اور اس کا کوئی تعلق معاہدے سے نہیں تھا۔ معاہدے کا اطلاق تو ماضی کے واقعات پر ہوتا ہے۔اب حکومت نے خادم رضوی صاحب کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا ہے‘اس کا تعلق ماضی ہی کے واقعات سے ہے۔بظاہر یہ قدم معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔حکومت نے اگر یہاں بھی 'گگلی ‘کرائی ہے ‘تو یہ سیاسی اخلاقیات کے خلاف ہے۔جب حکومتیں اپنے شہریوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کراحترام نہیں کریں گی تو پھر شہریوں سے بھی یہ توقع کم ہو جائے گی۔میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کر نی چاہیے۔
وزیر اطلاعات نے بتایا ہے کہ اس اقدام کے لیے سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔یہ اس کا مثبت پہلو ہے۔اس کا تعلق سیاسی مضمرات سے ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ملک کو درپیش بعض مسائل ایسے ہیں ‘جو ریاست اور معاشرے کی بقا سے متعلق ہیں۔ ان کو اقتدار کی سیاسی کشمکش سے ماورا ہو ناچاہیے۔حکومت یا اپوزیشن‘کسی کو بھی ان کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کرناچاہیے۔ان ہی میں سے ایک مسئلہ مذہبی انتہا پسندی بھی ہے۔اس کے لیے اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ مذہب کے نام پر جنم لینے والی انتہا پسندی نے ہمارے سماج کو بر باد کر دیا ہے۔یہ اب تمام مسالک میں سرایت کر چکی‘جس طرح پہلے اٹھنے والی تحریکوں کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں تھا‘اسی طرح موجودہ تحریک کابھی ناموسِ رسالت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس معاملے میں جج صاحبان ‘فوج کی قیادت یاسیاسی حکومت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا تے۔
سادہ سی بات ہے کہ عدالت کے سامنے ایک مقدمہ ہے ا وراس نے یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ملزم پرجرم ثابت ہے یا نہیں۔اسے جس طرح ناموسِ رسالت کا مقدمہ بنانے کی کوشش ہوئی‘اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔پھریہ ہر پہلو سے حدود سے تجاوز تھا کہ لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ریاست کے لیے لازم تھا کہ وہ اس پر اقدام کر تی۔اس پر کوئی معاہدہ نہیں کیا جا نا چاہیے تھا۔کسی مسلمان کے بارے میں یہ گمان کرنا ہی گناہ ہے کہ وہ رسالت مآب ﷺ کی ناموس کے باب میں کسی کوتاہی کا مرتکب ہو سکتا ہے‘ کجا یہ کہ بغیر تحقیق اسے اس جرم کا مرتکب قرار دے دیا جائے۔ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پریہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں اچھا گمان رکھے۔ضرورت تھی کہ محراب و منبر سے یہ آواز اٹھتی اور لوگوں کو اس بارے میں متنبہ کیا جاتا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے بارے میں خوش گمان رہیں۔اب معاملہ اس کے بر خلاف ہو رہا ہے اور لوگوں کو قتل کی ترغیب دی جا رہی ہے۔یہ اس معاملے کا سماجی پہلو ہے‘ جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دو دن پہلے ہی‘ میں نے اسلام آباد کی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔یہ دارالحکومت کا مرکزی علاقوں میں شامل ہے۔خطیب صاحب کھلم کھلا تشدد کا پرچار کر رہے تھے۔وہ بتا رہے تھے کہ اگر سطحِ زمین پر کوئی ایک بھی گستاخِ رسول مو جود ہے‘ تو تمام مسلمان اس کے مجرم ہیں کہ وہ زندہ کیوں ہے۔ستانوے فیصد مسلمان آبادی میں یہ بات کہنا‘فتنے کا دروازہ کھولنا ہے؛اگر منبر پر بیٹھے یہ صاحب دین کا علم رکھتے ‘تو وہ لوگوں سے دوسری بات کہتے۔وہ انہیں بتاتے کہ پاکستان میں اس جرم کے لیے قانون موجود ہے؛اگر کسی کے نزدیک کوئی فرد اس جرم کا مرتکب ہوا ہے‘ تو وہ عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کرے۔یہ کام عدالت کا ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے۔سزا دینا عام شہری کا اختیار نہیں ہے۔اس سے معاشرے میں فساد پیدا ہو تا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے‘ تو دوسرے قصبوں اور شہروں میں کیا کیا نہیں کہاجا رہا ہوگا؟یہ اس سارے قضیے کا سماجی پہلو ہے‘ جسے مخاطب بنانے کی ضرورت ہے۔حکومت کو اب اس کی روک تھام کے لیے بھی کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔ایک عام استدلال یہ کیا جاتا ہے کہ جب عدالتیں ان معاملات میں تساہل کا مظاہرہ کرتی ہیں تو پھر عوامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔یہ دلیل دو پہلوؤں سے بے بنیاد ہے۔ایک یہ کہ ہر قصے میں لازماً کوئی جذبات بھڑکانے والا ہوتا ہے‘ اگر وہ نہ ہو تو شاید ہی کوئی حادثہ ہو۔دوسرا یہ کہ ہر عدالتی فیصلے میں ایک فریق لازماً متاثرہ ہوتا ہے۔ دین کا حکم یہی ہے کہ عدالت کا فیصلہ قبول کیا جا ئے گا۔چاہے‘ وہ کسی کے لیے کتنا ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔رسالت مآبﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ''تم پر لازم ہے کہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو۔چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اس کے باجود کہ تم پر کسی کو ناحق ترجیح دی جا ئے‘‘(مسلم)۔معصیت کے معاملے میں اطاعت نہیں ہوتی ۔اس کا مطلب ہے کہ اگر ریاست کسی کو خلافِ دین بات ماننے کو کہتی ہے تو وہ تعمیل سے انکار کر سکتا ہے۔عدالت کا حکم ہر صورت میں مانا جائے گا‘ جس طرح حضرت علیؓ نے زرہ کے باب میں یہ حکم مانا تھا۔اس بات کی حکمت سب ہر سمجھ دار آدمی پر واضح ہے۔ہم عدالتی فیصلے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔اسے غلط قرار دے سکتے ہیں کہ جج بھی انسان ہی ہوتے ہیں‘مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ فیصلے کا حق عدالت سے چھین لیا جائے اورکسی مفتی کے حوالے کر دیا جائے یا کوئی فرد اسے اپنے ہاتھ میں لے لے۔بالبداہت واضح ہے کہ اس سے کوئی اجتماعی نظم قائم نہیں رہ سکتا۔اس کا لازمی نتیجہ فتنہ و فساد ہے۔
تمام مسالک کے جید علما اس سے واقف ہیں اور ''پیغام ِ پاکستان‘‘ میں انہوں نے اسی بات کی تائید کی ہے۔اب اشد ضرورت ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہو۔حکومت کے لیے اگلا قدم یہ ہو نا چاہیے کہ محراب و منبر کوکسی نظم کے تحت لا یا جا ئے۔قانون کی حکمرانی کے ساتھ معاشرتی تربیت بھی ضروری ہے؛اگر مدرسہ و مسجد میں اسی رویے کو فروغ دیا جاتا رہا تو پھرفتنے کا دروازہ بند نہیں ہو گا۔قانون کے نفاذکے ساتھ‘اس کا اہتمام بھی لازم ہے۔حکومت نے اگر مذہبی انتہا پسندی کا دروازہ بند کر نا ہے تو تین باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔ایک یہ کہ اپنی اخلاقی حیثیت پرکوئی حرف نہ آنے دے۔'گگلی‘ کی سیاست‘ اعتبار کھو دیتی ہے۔اگر یہ واقعہ ریاست اورشہریوں کے تعلق میں پیش آجائے ‘تو بڑے حادثے میں بدل سکتا ہے۔دوسرا یہ کہ مذہبی انتہاپسندی کا تعلق ملک اور معاشرے کی بقا سے ہے‘ان پر زیادہ سے زیادہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔تیسرا یہ کہ محراب و منبر کو ایک نظم کے تابع کرے ‘تاکہ انہیں فتنے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔ سماجی استحکام ہی کسی مستحکم سیاسی نظام کوجنم دے سکتا ہے۔آج معاشرے کو مذہبی انتہا پسندی‘معاشی عدم استحکام اور سیاسی اضطراب کے خوف سے نکالنا ضروری ہے۔یہ حکومت کا سب سے بڑاامتحان ہے۔