بھارت کے چند صوبوں میں بی جے پی کی انتخابی ناکامی، کیا ہندو انتہا پسندی کی شکست ہے؟ کیا یہ انتخابات مودی کے زوال کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں؟
یہ سوالات ہمارے لیے دو حوالوں سے اہم ہیں۔ ایک حوالہ ماضی کا ہے اور ایک حال کا۔ گئے دنوں میں ہندوستان ایک ملک تھا۔ جب مذہبی بنیادوں پر اس کی تقسیم ہوئی تو مسلمان بھی تقسیم ہو گئے۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ہم نے ہمیشہ ایک رشتہ محسوس کیا ہے۔ پہلی نسل کی حد تک تو یہ رشتہ دو طرفہ تھا۔ تقسیم کے بعد پروان چڑھنے والی نسلوں میں بھی کیا یہ دو طرفہ ہے، میرے لیے وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
جب کبھی بھارت کا کوئی مسلمان یہاں آیا یا بیرونِ ملک کسی بھارتی مسلمان سے ملاقات ہوئی، میں اُن کی آنکھوں میں کسی بچھڑے بھائی کی محبت تلاش کرتا رہا۔ سچی بات ہے کہ اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ دوسری طرف بھی کسی کو میری آنکھوں میں کسی ایسے ہی جذبے کے تلاش ہے۔ جب کسی کو کریدنا چاہا تو اس نے بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا ذکر ضرور کیا مگر بھارت کے شہری کی حیثیت سے۔ جیسے پاکستان کا کوئی مسیحی یا ہندو اپنے مسائل کا ذکر کرے لیکن اس شعوری احساس کے ساتھ کہ پاکستان اس کا ملک ہے۔
ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ ہم نے بھارتی مسلمانوں کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھا۔ ان پر کوئی ظلم ہوا تو ہم تڑپ اٹھے۔ دو قومی نظریہ، ہماری نئی نسل کے لیے بھی ماضی کا کوئی واقعہ نہیں، آج کی زندہ حقیقت ہے۔ ہم ابھی تک 'ہندو‘ اور 'بھارتی‘ کو مترادف سمجھتے ہیں۔ میرے بھائی امیر حمزہ صاحب نے جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے محاسن بیان کرتے ہوئے، بڑے فخر کے ساتھ بتایا کہ وہ ہندوئوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اس بیان کی حقانیت سے قطع نظر، میرا کہنا یہ ہے کہ ہمارے لیے مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کی تقسیم، ماضی کا کوئی واقعہ نہیں، ہماری اجتماعی نفسیات کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خود کو بھارتی مسلمانوں سے الگ نہیں کر سکتے۔ نریندر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم کیا، ہم انہیں تقسیم کے دنوں میں ہونے والے ان مظالم کے تسلسل میں دیکھتے ہیں جو ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں سے روا رکھے۔
ماضی کے ساتھ، یہ سوالات آج کے حوالے سے بھی، ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ بھارت کے ہندوئوں میں ایک قابلِ ذکر طبقہ ایسا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ نفرت کو تاریخ کی امانت کے طور پر سنبھالے ہوئے ہے۔ اس کا مقدمہ یہ ہے کہ اسلام ہندوستان کی سرزمین کے لیے اجنبی مذہب ہے‘ جو بدیسی حملہ آوروں کی یادگار ہے۔ یہاں کے مسلمان دراصل ہندو تھے‘ جنہوں نے باہر سے آنے والے مسلمانوں کے زیرِ اثر اپنا دھرم تبدیل کیا۔ انگریزوں کی آمد کے ساتھ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا جو غیر ملکی تھے۔
ان کا خیال ہے کہ اقتدار کے ساتھ، ان کے سماجی اثرات کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس کی شعوری کوشش کی کہ یہاں کے مسلمانوں کو پھر سے ہندو بنایا جائے۔ شدھی وغیرہ کی تحریکیں اسی مقصد کے لیے اٹھائی گئیں۔ یہ ایک غیر فطری کوشش تھی جو ناکام ہوئی لیکن یہ سوچ زندہ رہی۔ جب 1947ء میں ایک بار پھر اسلام ہندوستان کی سیاست پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوا اور اس نے ہندوستان کو تقسیم کر دیا تو مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت دل سے نکلی اور اُن مظالم میں ڈھل گئی جو تقسیم کے وقت مسلمانوں کے خلاف روا رکھے گئے۔ یہ نفرت اتنی شدید تھی کہ مہاتما گاندھی جیسی شخصیت کو نگل گئی۔ پاکستان سے نفرت دراصل اسی تاریخی شعور کی توسیع ہے۔
تقسیم کے بعد، بالخصوص گاندھی کے قتل سے، کانگرس کی قیادت نے جان لیا کہ اگر اس مذہبی انتہا پسندی کا راستہ نہ روکا گیا تو بھارت میں فساد کی آگ کبھی سرد نہیں ہو گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تقسیم اور ہجرت کے باوجود، بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد تھے۔ خود کانگرس کی سیاسی روایت بھی غیر مذہبی تھی، یہ الگ بات ہے کہ اس میں بھی سردار پٹیل جیسے انتہا پسند شامل تھے۔ پھر مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لوگ اس کی قیادت کا حصہ تھے، جن کے ہوتے ہوئے، کانگرس کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ مسلم دشمنی کو سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بنا سکتی۔
نہرو ایک زیرک اور پڑھے لکھے آدمی تھے۔ عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی اور وہ سیاسی حرکیات سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے جان لیا کہ سیکولرازم اور جمہوریت ہی مذہبی اور ثقافتی تنوع رکھنے والے بھارت کو انتہا پسندی سے بچا سکتے ہیں۔ یہ انہی کی بصیرت تھی جس نے بھارت کو بڑے داخلی بحرانوں سے محفوظ رکھا؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے بھارتی سماج کی کایا کلپ ہو گئی اور مذہبی انتہا پسندی ختم ہو گئی۔ یہ آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی صورت میں سماجی سطح پر زندہ رہی اور پھر سیاسی سطح پر، اس نے بی جے پی کے روپ میں ظہور کیا۔
جب بھارت میں بی جے پی متحرک ہوتی یا اس کی حکومت بنتی ہے تو بھارتی مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ساتھ ہی پاکستان میں بھی۔ مودی صاحب کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں گجرات کے مسلمانوں پر جو گزری، وہ دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ بی جے پی کے بارے میں بھارتی مسلمانوں کی تشویش بے بنیاد نہیں۔
پاکستان سے دشمنی چونکہ اسی تاریخی شعور کا حصہ ہے، اس لیے ہمارے ہاں تشویش کا پیدا ہونا قابلِ فہم ہے۔ اسی وجہ سے وہ سوالات ہمارے آج کے لیے بھی اہم ہیں، کالم کی ابتدا میں جن کا ذکر ہوا۔
برصغیر کو تاریخ کی اس گرفت سے باہر آنا ہو گا اگر اس خطے نے ترقی کرنی ہے۔ دونوں ملکوں کے اہلِ دانش کو بڑی حد تک اس کا اندازہ ہے؛ تاہم ریاستی سطح پر پالیسی ساز قوتوں کا اندازِ فکر جداگانہ ہے۔ ان میں سیاسی عناصر بھی شامل ہیں۔ میرا احساس ہے کہ وزیر اعظم واجپائی کی پاکستان آمد اور مینارِ پاکستان جانا، بعد از تقسیم ایک غیر معمولی پیش رفت تھی جس میں پہلی بار سیاسی قیادت نے بہتر حالات کے لیے اپنی سنجیدگی کا عملی مظاہرہ کیا۔ واجپائی بی جے پی کے نمائندہ تھے اور نواز شریف مسلم لیگ کے جو پاکستان کی خالق جماعت تھی۔ ان دونوں جماعتوں کی طرف سے خیر سگالی کا یہ اظہار، تاریخ کے دھارے کو بدل سکتا تھا۔ لاہور میں واجپائی کا خطاب ایک بالغ نظر راہنما کے تبدیل ہوتے تاریخی شعور کا اظہار تھا۔ افسوس کہ یہ موقع ضائع ہو گیا۔
مودی صاحب کے آنے سے بے جی پی دوبارہ اپنی اصل کی طرف لوٹ گئی۔ اس لیے جب تک وہ بھارت کے سیاسی منظر نامے پر متحرک رہیں گے، پاکستان میں تشویش رہے گی اور بھارت کے مسلمانوں میں بھی۔ اب اگر ان کی شکست کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو اس سے اطمینان کی لہر کا اٹھنا قابلِ فہم ہے۔ بھارت کے شہری ووٹ دینے کا فیصلہ اپنے داخلی حالات کے تحت کرتے ہیں، پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نہیں‘ لیکن اس کا ہم پر جو اثر ہو سکتا ہے، اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
برصغیر کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو خطے کو اس تاریخ شعور کی گرفت سے نکال سکے جو تقسیمِ ہند کو ماضی کا واقعہ نہیں بننے دیتا۔ جب تک یہ ہماری اجتماعی نفسیات کا حصہ ہے، ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی ختم نہیں ہو سکتی۔ جنوبی ایشیا میں اگر جمہوری روایات مستحکم ہوں تو انتہا پسند قوتوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ بھارت اس وقت دنیا میں اسلحے کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہے۔ بھارت کے شہریوں کو اگر یہ باور کرا دیا جائے کہ یہ اسلحہ ان کو بھوکا اور ننگا رکھ کر جمع کیا جا رہا ہے تو وہاں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ جس دن کسی سیاسی راہنما نے یہ نعرۂ مستانہ بلند کر دیا، اس خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاست نریندر مودی جیسے کرداروں سے پاک ہو جائے۔ کیا بھارت کے صوبائی انتخابات کسی ایسی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہیں؟ اس کا فیصلہ 2019ء میں ہو جائے گا‘ جب وہاں عام انتخابات ہوں گے۔