ہم پروفیسر محمد جاوید کی بات نہیں کرتے، تعلیم ہی کے میدان سے آنے والی ایک اچھی خبر کو موضوع بناتے ہیں۔ یوں بھی موت برحق ہے۔ آج کوئی تو کل ہماری باری ہے۔ موت ویسے بھی کوئی مثبت خبر نہیں ہے۔ اس کے ذکر سے گریز ہی بہتر ہے۔
مثبت خبر یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم ہاؤس کو نیشنل یونیورسٹی بنانے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ تعلیم کو انہوں نے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اس خبر پر اظہارِ مسرت ہی کرنا چاہیے۔ یونیورسٹی علم و تحقیق کی علامت ہے۔ ایک نئی جامعہ کا قیام اس کا مستحق ہے کہ اس پر اربابِ اقتدار کی تحسین کی جائے۔ اس اعلان کی البتہ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، اس سے ایک مختلف بات معلوم ہوئی ہے۔
سرِ دست ایک تحقیقی ادارہ (Institute) بنایا جا رہا ہے، کوئی یونیورسٹی نہیں۔ یہ ادارہ چار شعبوں میں تحقیق کرے گا: گورننس، ترقی، موسمیات اور ٹیکنالوجی۔ ادارہ ان معاملات پر حکومت کو تجاویز دے گا۔ پھر یہ کہ اس وقت یہ وزیر اعظم ہاؤس کی ایک ملحقہ رہائش گاہ میں قائم ہو گا۔ گویا ہاؤس کی اصل عمارت سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم ہاؤس اپنی جگہ موجود رہے گا۔ یونیورسٹی کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے۔ بعد کے کسی مرحلے پر، یہ ممکن ہے کہ یہاں پی ایچ ڈی کی سطح پر ڈگری پروگرام شروع کیا جائے۔ سادہ لفظوں میں اس وقت کوئی یونیورسٹی نہیں قائم ہو رہی۔
تحقیقی ادارے کا قیام ایک اچھا قدم ہے مگر اس وقت اس کی کیا افادیت ہے اور موجود نظام میں اس کا کیا کردار ہو گا، اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ملک میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ اس نے اپنے تصورِ ریاست و حکومت کو سامنے رکھتے ہوئے، ایک منشور پیش کیا۔ عوام سے وعدہ کیا کہ انہیں موقع ملا تو وہ مختلف شعبوں میں یہ‘ یہ اصلاحات لائیں گے۔
حکومت قائم ہونے کے بعد، اصولاً یہ ہونا چاہیے کہ ہر شعبے سے متعلقہ وزارت، اپنے منشور کے مطابق، ایک پالیسی ترتیب دے۔ اس پالیسی کو کابینہ میں رکھا جائے۔ منظوری کے بعد وزارت کے وسائل اس کے نفاذ کے لیے مختص ہو جائیں۔ اس دوران میں، یہ اندازہ ہو جائے گا کہ موجود نظام منشور کو عملی صورت دینے میں کتنا معاون ہے۔ اس میں کس طرح کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
اس وقت گورننس کا ایک نظام موجود ہے۔ کم و بیش ہر وزارت میں کوئی نہ کوئی تحقیقی ادارہ قائم ہے۔ صحت، تعلیم، ماحولیات، تزویراتی امور، مالیاتی امور، پارلیمانی امور، شاید ہی کوئی شعبہ ہو، جس میں تحقیقی مراکز موجود نہ ہوں۔ وزارتِ اطلاعات میں بھی تحقیقی ادارہ موجود ہے۔ پھر پلاننگ کمیشن ہے جو ایک تھنک ٹینک کے طور پر کام کرتا‘ اور بحیثیت مجموعی حکومت کو راہنمائی دیتا ہے۔ یہ ادارے ہر سال اپنی رپورٹس شائع کرتے اور حکومت کو تجاویز پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کے لیے یہ ادارے کس حد تک معاون ہیں؟ کیا حکومت ان سے کوئی کام لیتی ہے؟ کیا یہ ادارے فعال ہیں؟
تعلیم کو بھی ریاستی سطح پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بنیادی تعلیم صوبوں کے پاس ہے۔ انہیں اس مقصد کے لیے اپنی پالیسی بنانی ہے۔ اعلیٰ تعلیم وفاق کے پاس ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ تعلیمی کمیشن موجود ہے۔ یونیورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں۔ وہ اپنی پالیسی خود بناتی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے اداروں کی موجودگی میں ایک نئے ادارے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ماضی میں بھی ہمارے ہاں اس طرح کے تجربات ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف صاحب نے جب روشن خیال پاکستان کا خواب دیکھا تو اس کی تعبیر کے لیے 'اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘ قائم کیا۔ جنرل صاحب ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسن سے متاثر تھے جو امریکہ میں پڑھاتی تھیں۔ انہیں بلا کر یہ ادارہ بنانے کا کام سونپا گیا۔ اس کے لیے کروڑوں روپے مختص کیے گئے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے مقدور بھر کوشش کی۔ ڈاکٹر فتحی عثمان جیسے سکالرز کو لے کر آئیں مگر اس ساری کاوش کا کوئی قابلِ ذکر نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ آخر جنرل صاحب بھی تنگ آ گئے اور یہ چاہا کہ اس ادارے کو ختم کر دیا جائے۔ پھر کچھ اچھے لوگوں نے مشورہ دیا کہ جب بن گیا ہے تو اس کو قائم رکھا جائے۔ اس ادارے کو پھر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سپرد کر دیا گیا۔ یہ ادارہ اب بھی فعال ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کی ترجیحات کا تعین کسی حکومتی وژن کے تحت نہیں ہوتا۔ مجوزہ تھنک ٹینک کو اس انجام سے محفوظ رہنا چاہیے۔
موجودہ حکومت کا اصل مسئلہ فکری یک سوئی کی کمی ہے۔ اگر اس کے اب تک کے اقدامات کو حسنِ ظن کے ساتھ دیکھا جائے تو بھی ان میں کوئی نظم تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ متفرق اقوالِ زریں کا ایک مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ خود وزرا کے مابین ہم آہنگی کو تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ حکومت کی سطح پر کوئی فکری وحدت موجود نہیں۔ عمران خان صاحب بیک وقت بہت سے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ان میں ہم آہنگی کیسے ہو اور پھر حکومت کے سب لوگ کس طرح ایک مشین کے پرزوں کی طرح کام کریں۔
اب تک اگر حکومت اپنے وجود کا کوئی ثبوت فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ تو اس کی وجہ یہی ہے۔ غیر ضروری تیزی کا مظاہرہ کیا جا رہا جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ مثال کے طور پر سو دنوں کے تعین کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نہ تو یہ اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور نہ عوام کا۔ حکومت کو ابتدا میں تین کام کرنے چاہئیں تھے۔ ایک، فعال قانون سازی کے لیے اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کا قیام تاکہ سیاسی استحکام پیدا ہو۔ دوسرا‘ معاشی استحکام کے لیے اقتصادی سرگرمی میں تیزی۔ تیسرا کابینہ کی تشکیل کے ساتھ، ہر وزیر سے یہ کہا جاتا کہ وہ جماعتی منشور کے مطابق ایک پالیسی بنا کر لائے۔ ان کا پلاننگ کمیشن کے ساتھ ایک جائزہ لیا جاتا اور پھرحکمتِ عملی ترتیب دی جاتی جس میں سب ایک دوسرے کے دست و بازو بنتے۔
اگر ضرورت محسوس ہوتی تو ایک تھنک ٹینک بنا دیا جاتا جو تحریکِ انصاف کے منشور کی روشنی میں تجاویز مرتب کرتا۔ اس تھنک ٹینک کو متعلقہ وزارتوں کے تحقیقی اداروں سے متعلق کیا جا سکتا تھا۔ جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو اب ہر طرف فکری پراگندگی کا دور دورہ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ مل کر ریاستِ مدینہ کا ماڈل بنایا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے الگ سے معاملات ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن سے محاذ آرائی ہے۔ شہباز شریف صاحب کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین تو بنا دیا گیا لیکن وزیر اعظم سمیت، سب اس کی پُرزور مذمت بھی کر رہے ہیں۔ اب یونیورسٹی کے نام پر ایک نیا تھنک ٹینک بنایا جا رہا ہے۔ کیا ان سب کاموں میں کوئی ربط تلاش کیا جا سکتا ہے؟
حکومت کو تیزی کی نہیں، صبر کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب کی طبیعت کا اضطراب انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ وہ روز کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن میں تو یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی مگر حکومت میں نہیں ہو سکتی۔ وہ اب ہر دن 'کارکردگی‘ دکھانا چاہتے ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت ایک صبر آزما کام ہے۔ اس میں لمبی منصوبہ بندی کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ عوام بھی ان سے ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ وہ خود اگر ہیجان پیدا کریں گے تو یہ ان کے اپنے پاؤں کی زنجیر بن جائے گا۔
وزیر اعظم ہاؤس کے خاتمے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ نہیں تھا کہ سو یا دو سو دن میں ختم کر دیں گے۔ ایک دفعہ وہ بنیادی مسائل حل کر لیں تو بعد میں اس طرح کے وعدے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تھنک ٹینک معلوم نہیں کب واقعہ بنتا ہے۔ لیکن انہیں اپنی ترجیحات درست کرنے کے لیے اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
میں نے پروفیسر جاوید کی موت کا ذکر نہیں کیا۔ مثبت بات کی ہے۔ مثبت تنقید اصل خیر خواہی ہے۔ مثبت تنقید ہی سب سے اچھی خبر ہے۔ کاش ہمیں اس کا ادراک ہو سکے۔