کیا پنجاب کو طویل عرصہ قیادت سے محروم رکھا جا سکتا ہے؟
پنجاب کی قیادت کم و بیش چالیس سال سے نواز شریف صاحب کے پاس ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی ان کی مقبولیت میں قابلِ ذکر کمی نہیں آئی۔ بعض فیصلوں نے انہیں پارلیمانی سیاست سے الگ کر دیا‘ لیکن ان کی مقبولیت پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ نون لیگ کی فطری قیادت آج بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کسی اور کو منتقل نہیں ہو سکی۔ اگر یہ کبھی منتقل ہوئی تو آثار یہی ہیں کہ مریم ہی ان کی سیاسی وارث ہوں گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ فیصلوں کے ذریعے ان کی قیادت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے؟ کیا پنجاب میںکوئی متبادل قیادت پیدا کی جا سکتی ہے؟
تحریک انصاف کے پاس نہ تو کوئی ایسی شخصیت ہے جو پنجاب میں نواز شریف کا متبادل بن سکے اور نہ ہی ایسی قیادت پیدا کرنا اس کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ عمران خان پنجاب کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب جسے حلقۂ انتخاب کے باہر کوئی نہیں جانتا، یہی ظاہر کر رہا ہے۔ عمران خان صاحب کی اپنی سیاسی اٹھان ایسی ہے کہ وہ کسی صوبے کی بطورِ خاص نمائندگی نہیں کرتے۔ روایتی سیاست کا حصہ نہ ہونے کے باعث، وہ ان سیاسی عصبیتوں کے نمائندہ نہیں ہیں جن سے ہمارے ملک کی سیاست ترتیب پاتی ہے۔
نواز شریف کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ روایتی سیاست سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وہ پہلے پنجاب کے راہنما بنے۔ یہ سیاست ان کے قومی کردار کی اساس بن گئی‘ جب جنرل ضیاء الحق کو بھٹو مخالف قوتوں کو مجتمع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ یوں وہ صوبے سے مرکز تک پہنچے اور اس دوران میں پنجاب کی سطح پر ان کی عوامی اساس مضبوط ہو گئی۔ یہی معاملہ پیپلز پارٹی کا ہے۔ بد ترین حالات میں بھی سندھ کی سیاست پر اس کی گرفت مضبوط ہے۔ سارے ملک میں مقبولیت کھونے کے باوجود پیپلز پارٹی کو اقتدار کی سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکا۔
تحریک انصاف کے پاس، اس وقت کوئی متبادل نہیں۔ عثمان بزدار صاحب پنجاب کا لیڈر بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ گجرات کے چوہدریوںکو ایک دفعہ پھر کھڑا کر دیا گیا ہے مگر عمران خان یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ وہ پنجاب کے معاملات ان کے ہاتھ میں دے دیں۔ وہ خود پنجاب کی حکومت کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں، پنجاب کی سیاست کو نہیں۔ اس دفعہ جو لوگ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پنجاب سے منتخب ہوئے، میرا تاثر یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہوں گے، جنہیں عمران خان پہچانتے بھی نہیں ہوں گے۔2018 ء کے انتخابات میں پنجاب کی سیاست کو جنہوں نے اور جیسے کنٹرول کیا، وہ اب کھلا راز ہے۔
اگر تحریک انصاف کے پاس پنجاب میں کوئی لیڈر موجود نہیں اور نواز شریف صاحب کو بھی پنجاب کی سیاست سے الگ کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو کیا پنجاب کے لوگ تادیر اس صورت حال کو گوارا کریں گے؟ کیا یہ ممکن ہو گا کہ پنجاب کسی لیڈر کے بغیر چلتا رہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پنجاب کے معاملات کو مرکز سے کنٹرول کیا جاتا رہے؟
ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ پنجاب بغیر کسی لیڈر کے زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ یہ غیر فطری ہے۔ مرکز سے معاملات کو ریاستی گرفت میں رکھنا بھی ایک ردِ عمل پیدا کرتا ہے جو وفاق کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں، ہم اس کے نتائج دیکھ چکے۔ بلوچستان اور سندھ کی سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم دراصل اس بے چینی کو روکنے کی ایک کوشش تھی جس کا اظہار صوبوں کی طرف سے ہو رہا ہے اور جو مرکز کی غیر ضروری مداخلت سے نا خوش تھے۔
سوال یہ ہے کہ ماضی میں پنجاب میں ایسے جذبات کیوں پیدا نہیں ہوئے؟ اس کے دو اسباب رہے۔ ایک یہ کہ ریاست کے مرکزی اداروں میں پنجاب کے لوگوں کی اکثریت رہی۔ دیگر صوبوں میں پنجاب اور مرکز کو مترادف سمجھا گیا۔ 1970ء کے بحران سے پہلے مشرقی پاکستان میں پنجاب ہی کو مغربی پاکستان سمجھا جاتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو پختونوں، بلوچوں یا سندھیوں سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن اور پنجاب کے استثنا کے ساتھ، دیگر قومیتوں کے نمائندے ایک سیاسی جماعت میں تھے۔
پنجاب ہی چونکہ مرکز تھا، اس لیے یہاں ایسی کوئی تحریک نہیں ابھری جو پنجاب کے حقوق کی بات کرے یا انہیں یہ شکایت ہو کہ حکومتی امور میں ان کا عمل دخل نہیں ہے۔ پنجاب میں بھٹو صاحب کی پزیرائی اس بات کا اظہار تھا کہ اس صوبے میں اس نوعیت کی کوئی عصبیت نہیں پائی جاتی۔ نواز شریف کی سیاست کی بنیاد پنجاب تھا لیکن اپنی سیاست کے ابتدائی دور میں، وہ ریاست کے اداروں کا انتخاب تھے۔ اس لیے یہاں محرومی کا احساس پیدا نہیں ہوا۔
آج صورتِ حال بدل چکی۔ پنجاب کے لیڈر کو بھی اب مرکز سے وہی شکایات پیدا ہو گئی ہیں‘ جو دیگر صوبوں کو تھیں۔ اس لیڈر کا کوئی متبادل بھی موجود نہیں۔ اگر پنجاب میں یہ احساس بڑھتا ہے کہ اس کے لیڈر کو غیر فطری طور پر اقتدار سے محروم رکھا جا رہا ہے تو اس کے سیاسی اثرات ملک کے لیے خوشگوار نہیں ہوں گے۔ اس کی مثال جنوبی پنجاب ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ خود تحریکِ انصاف نے 2018ء میں یہاں کی محرومی کو اپنے حق میں استعمال کیا۔
میرے لیے یہ حالات تشویش کا باعث ہیں۔ سیاسی عصبیت ہماری خواہش یا پسند سے پیدا نہیں ہوتی۔ جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو پھر اس کے ساتھ معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کی نفی سے بات نہیں بنتی۔ ہم نے ماضی میں جب بھی اس کی نفی کرنا چاہی، وفاق کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ پنجاب اکثریتی صوبہ ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ مرکز اور سب سے بڑے صوبے میں تعلقات خوش گوار رہیں۔
تعلقات خو شگوار رکھنے کی اب دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ صوبے سے ایسی فطری قیادت سامنے آئے جو نواز شریف کی طرح پنجاب کی نمائندگی کرے۔ پنجاب اسے اپنا حقیقی لیڈر مان لے۔ یہ لیڈر ماضی کی طرح مرکز کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھے۔ سادہ لفظوں میں پنجاب کی نمائندگی کا تاج نواز شریف سے چھن جائے۔ اگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کا متبادل ہوتا تو مشرقی پاکستان میں مرکز مخالف جذبات کو قابو میں رکھا جا سکتا تھا۔ جب وہ واحد نمائندہ بن گئے تو اس وقت ایک ہی حل تھا کہ مرکز ان کے ساتھ معاملہ کرے۔ مرکز نے انہیں ختم کرنے کا متبادل اختیار کیا۔ انجام ہمارے سامنے ہے۔
آج اگر پنجاب میں نواز شریف کا کوئی متبادل نہیں ابھرتا تو پھر مرکز کو ان سے معاملہ کرنا پڑے گا۔ سیاسی استحکام کا یہی راستہ ہے۔ اگر ان کو دیوار سے لگانے کا عمل اسی طرح جاری رہا اور ساتھ متبادل بھی سامنے نہ آیا تو معاملات کو سنبھالنا مشکل تر ہو جائے گا۔ میرا احساس ہے کہ پنجاب میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اس کو قیادت سے محروم رکھنے کے اس عمل کو روکنا ضروری ہے۔
اگر نواز شریف صاحب نے اپنی خاموشی برقرار رکھی اور ن لیگ نے کھل کر سیاست نہ کی تو اس سے پنجاب کی سیاست میں ایک خلا واقع ہو جائے گا۔ یہ خلا تا دیر باقی نہیں رہے گا۔ پھر کوئی اور آ کر اسے بھر دے گا۔ اے این پی ناکام ہوئی تو کے پی میں خلا نہیں رہا۔ نوجوانوں کا ایک گروہ ابھرا اور اس کے دو افراد قومی اسمبلی تک بھی پہنچ گئے۔ پنجاب کی محرومی کے اس معاملے کو اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف جاری مہم کے ساتھ دیکھا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ میری تشویش کیا ہے۔
سیاست ہماری خواہشات یا منصوبہ بندی کے تابع نہیں ہوتی۔ ہمیں زمینی حقیقتوں کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ بھی سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے‘ اگر اسے عبرت کی نظر سے پڑھا جائے۔