انسان کا تہذیبی ارتقا‘کیا ایک سفرِرائیگاں کے سوا کچھ نہیں؟فکر و فلسفہ کے سب معرکے کیا ایک لا حاصل ذہنی مشقت تھی؟علم وادب کا انبار الفاظ کا ایک بے معنی گورکھ دھنداہے؟ روسو اور ابن خلدون جیسوں نے عمر کو ایک بے نتیجہ مشق میں ضائع کر دیا؟''عمرانی معاہدہ‘‘ اور ''مقدمہ‘‘ جیسی کتابیں دریا برد کر دینی چاہیں؟کیا اس ملک کے اربابِ بست و کشاد نے تہذیبی سفر کا پہیہ الٹا گھما دیا؟کیا فطرت نے ہمارے لیے اپنے قوانین کو بدل ڈالا ہے؟سچ پوچھئے تو مجھے اب یہی دکھائی دیتا ہے۔
یہ 1999ء کی ایک شام کا ذکر ہے‘ جب سردی کی چادر اوڑھے ‘ایک دلکش شام مارگلہ کے دامن میں اتر رہی تھی۔دانش کی تہمت لیے چند نفوس ایک جگہ جمع تھے اور سیاسی موسم میں تبدیلی کے آثارپر بحث جاری تھی۔بات سیاسی واقعات سے ہوتے ہوئے‘دانش کی راہ پر چل نکلی۔علم و حکمت کے چراغ جلنے لگے اورتھوڑی دیر میں چاروں طرف اجالا ہو گیا۔اس اجالے میں ایک ہی راستہ دکھائی دیا:شاہراہِ جمہوریت۔اہلِ دانش نے تاریخ اور علمِ سیاسیات کی روشنی میں ثابت کر دیا کہ اب اس ملک میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں۔وقت کا دھارا مخالف سمت میں بہہ رہا ہے۔عالمی شعور اور ضمیر اب کسی آمرانہ نظام کو قبول نہیں کر سکتا۔اس نشست کو چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا۔اب اہلِ دانش اور دانش ‘دونوں منہ چھپاتے پھرتے تھے۔تاریخ اور علمِ سیاسیات بھی ان کے ساتھ‘شرمندہ شرمندہ اس طرح چل رہے تھے کہ کوئی ان کو پہچان نہ سکے۔
12اکتوبر1999ء کو میں اور خلیل ملک ایک ساتھ تھے۔شام ڈھلی توکمرے کے ساتھ ٹی وی کی سکرین بھی تاریک ہوگئی۔کمرہ تو خیر ایک بٹن کی جنبش سے روشن ہو گیا ‘مگر ٹی وی کی سیاہی کا مداوا نہ ہو سکا۔تھوڑی دیر میں خبر مل گئی کہ جمہوریت کے چراغوں میں بھی روشنی نہیں رہی۔ٹی وی سکرین تک یہ خبر پہنچا دی گئی ہے‘اسی لیے اس نے سیاہ چادر اوڑھ لی ہے۔خلیل ملک کو پہلادھیان جان بچانے کی طرف گیا کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جا تا ہے۔ انہیں خیال ہوا کہ راولپنڈی کے مضافات میں ایک صوفی کا آستانہ جائے پناہ ہو سکتا ہے۔صوفی کی شفقت فراواں تھی اور دستر خوان بھی وسیع۔ہم تین دن ان کے مہمان رہے۔یہاں تک کہ غبار چھٹا اور ہم گھروں کو لوٹے۔صوفی کا وجدان یہ کہتاتھا کہ تبدیلی چند روزہ ہے۔نوازشریف جلد واپس آنے والے ہیں۔ہم ایک خوش کن احساس کے ساتھ واپس آئے‘ مگر بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ پاکستان کے معاملے میں وجدان بھی دانش ہی کی طرح بے ثمر ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی‘اس شام بھی ہم دونوں ایک ساتھ تھے۔خلیل ملک کے کمرے میں حسبِ معمول ٹی وی رنگ وصوت بکھیر رہا تھا کہ یہ روح فرسا خبر سنی۔ہم دونوںکو پیپلزپارٹی سے کوئی ہمدردی نہیں تھی ‘مگر ہم پھوٹ پھو ٹ کر رو دئیے۔شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔خلیل ملک کا کہنا تھا کہ اس فضا میں مجھے گھر نہیں جانا چاہیے۔میں نے رات ان کے ہاں بسر کی۔
شب بھر جاگتے رہے۔خدشات اور بے چینی نے سونے نہیں دیا۔خلیل ملک کا کہنا تھا کہ جس طرح سنت سنگھ بھنڈرانوالا کی لاش بھارت اور سکھوں کے درمیان ہمیشہ پڑی رہے گی‘اسی طرح بے نظیر کی لاش سندھ اور وفاق کے درمیان ایک نا قابلِ عبو ر خلیج بن جا ئے گی۔واقعات نے بتایا کہ دانش ایک بار پھر ہار گئی۔ بے نظیر کی لاش دفنا دی گئی اورراوی نے اس کے بعد چین ہی چین لکھا۔
2016 ء میں نوازشریف ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں رخصت ہوئے تو میں نے ابن خلدون کو یا دکیا۔ابن ِخلدون کے خیال میں مستحکم سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ حکمران کو سماج میں سیاسی عصبیت حاصل ہو۔ میں نے سوچا کہ جب کسی فرد یا گروہ کو ایک سماج میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے‘ تو اسے مصنوعی طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ایسی کوشش معاشروںکو عدم استحکام میں مبتلا کر دیتی ہے۔تاریخ پر نظر ڈالی تواسے بھی ابن خلدون کی تائید میں کھڑا پایا۔
آج معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار پھرہمارے معاملے میں تاریخ غلط ثابت ہوئی اور دانش بھی۔واقعات مسلسل اس جانب راہنمائی کر رہے ہیں کہ ہماری اجتماعی ترکیب میں کوئی خاص بات ہے۔ہم پر کسی فطری قانون کا اطلاق ہو تا ہے نہ کسی سماجی فلسفے کا۔تاریخ ہماری طرف رخ کرتی ہے ‘تو اپناراستہ اور چال‘دونوں بھول جاتی ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں چل سکتا۔یہاں توبار بار چلا ہے۔
دنیا کا دعویٰ ہے کہ انسان کا تہذیبی سفر جدیدیت(Modernity) کے عہد سے نکل کرمابعدِ جدیدیت(Post Modernism)کے دور میں داخل ہو چکا۔اس دور میں حقیقتیں مطلق نہیں رہیں‘ بلکہ وہ سماجی تشکیل کا حاصل ہے۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم جدیدیت میں قدم رکھے بغیر‘ بعد از جدیدیت کے دور میں کھڑے ہیں اور قبل از جدیدیت کے خیالات کے ساتھ نا صرف زندہ ہیں‘ بلکہ یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ کامیابی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
ہم ہمہ جماعتی سے یک جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ہم چینی ماڈل کی بات کرتے ہیں تو غالباً اسی تناظر میں۔دنیا کا سفر یک رنگی سے ہمہ رنگی کی طرف ہے۔ ہمیں دو رنگ بھی گوارا نہیں۔دنیا انقلاب سے دست بردار ہوکر ارتقا کے راستے پر چل پڑی ہے۔ہم اب بھی انقلاب پر یقین رکھتے ہیں۔ہم تجدید کے نہیں‘ تقلید کے قائل ہیں۔ہمارے خیال میں قانون کی شدت سے سماج کی تشکیل ِ نو ہو سکتی ہے۔تاریخ یہاں بھی ہمارے سامنے بے بس ہے ‘جو یہ کہتی ہے کہ قانون سے کبھی سماج تبدیل نہیں ہوتے۔
علمائے سیاسیات کا کہنا ہے کہ جدید ریاست میں وسعت آچکی۔اب زمام ِ کار کسی ایک فرد کو نہیں‘ا داروں کو سونپاجانا چاہیے۔اب تقسیم ِ کار کا اصول کارفرما ہونا چاہیے۔ہمارا خیال اس کے برعکس ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مسیحاہونا چاہیے‘ جو جملہ امورِ ریاست تن ِتنہا سر انجام دے۔وہ بیک وقت مذہبی پیش وا ہو اورسپہ سالار بھی۔قاضی القضاہ ہو اورانجینئر بھی۔منتظم ِ اعلیٰ ہو اور مصلح بھی۔کیا یہ کمال نہیں کہ ہم نے ایسا کیا اور ہم اس میں( بزعمِ خویش) کامیاب بھی رہے؟
دنیا میں نوح حراری جیسے اہلِ دانش کی کتابیں بیسٹ سیلر ہیں۔وہ مستقبل کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔وہ خبر دے رہے ہیں کہ اکیسویں صدی کے انسان کا مسئلہ بھوک اورقحط نہیں‘موت پر قابو پانا ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں‘دہشت گردی سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے موٹاپے سے مرے ہیں۔موت اب ایک فنی مسئلہ ہے اور فنی مسئلے کا کوئی نہ کوئی فنی حل ہو تا ہے۔انسان کو اب اس حل کی تلاش ہے۔لوگ موت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں اور ہم موت کو گلیمرائز کر رہے ہیں۔مذہب کے نام پر‘وطن کے نام پر اور نہیں معلوم کس کس نام پر۔اس کے باوجود ہم زندہ ہیں اورخوش بھی۔
پانی سے گاڑی چلانے کے بعد‘ہم یک جماعتی نظام سے جمہوریت چلا نے لگے ہیں۔سرمایے کی حوصلہ شکنی سے خوش حالی لانے کا پروگرام بنارہے ہیں۔یہ مملکت خدا داد ہے۔یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی کامیابی کا پورا یقین ہے۔ علم‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ عقل‘ دانش‘ وجدان‘ کس کی مجال ہے ہمارے راستے میں آئے؟
مجھے لگتا ہے کہ ہم نے کامیابی سے ایک ایسا جزیرہ آباد کر لیا ہے‘جہاں فطرت کے قوانین کااطلاق نہیں ہوتا۔جہاں ہم نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ انسان کا تہذیبی ارتقاایک سفرِرائیگاں ہے۔علم و حکمت کی روایت ایک بے معنی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ اگر روسو‘ہیگل اور ابن ِخلدون جیسے حضرات آج اس طرف آ نکلیں تواپنے افکار کے تار پود بکھرتا دیکھ کر عمر ِ رائیگاں کاماتم کریں اور ہمارے اربابِ بست و کشاد کی اجتماعی بیعت کر لیں۔