"KNC" (space) message & send to 7575

آدابِ سلطانی

اف اللہ! یہ لوگ کس لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں؟ سیاسی مخالفین پر اتنا غصہ؟ حالانکہ اُن کے عہدِ اقتدار میں اِن کے کاروبار ساری دنیا میں پھیلتے رہے اور دولت کے انبار یہ لوگ جمع کرتے رہے۔ افسوس، سلطانی مل گئی مگر یہ آدابِ سلطانی نہیں سیکھ پائے۔
کوئی کتاب پڑھی ہوتی تو معلوم ہوتا۔ تاریخ سے شناسائی ہوتی تو جان پاتے۔ کسی سیاسی تربیت گاہ سے گزرے ہوتے تو سیکھ لیتے۔ ارسطو ہو یا شنکر اچاریہ۔ میکیاولی ہو یا ابن خلدون‘ ماوردی ہوں یا نظام الملک طوسی‘ لوگوں نے حکومت کے فن پر ان گنت کتابیں لکھ ڈالی ہیں۔ اس پر مستزاد راہنماؤں کی آپ بیتیاں اور سوانح۔ کوئی سیکھنا چاہے تو اسباب کی پوری دنیا اس کی منتظر ہے۔
سیاست محض حصولِ اقتدار کا نام نہیں۔ اس سے بڑھ کر، یہ ایک مستحکم سیاسی معاشرے کی تشکیل کا عمل ہے۔ یہ کام غصے اور اشتعال سے نہیں، صبر اور در گزر سے ہوتا ہے۔ حزبِ اقتدار کو حزبِ اختلاف سے کئی گنا زیادہ تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اذیت پسند طبیعتیں اپنی ذات کے لیے عذاب ہوتی ہیں اور ساتھ رہنے والوں کے لیے بھی۔ اقتدار ہاتھ آ جائے تو پورے معاشرے کے لیے۔ پھر وہی بات کہ کاش تاریخ پڑھی ہوتی۔
رات ''ترجمان القرآن‘‘ کے تازہ پرچے کی ورق گردانی کرتا رہا۔ محمد بن قاسمؒ کے تذکرے پر رک گیا‘ جو ظفرالاسلام اصلاحی صاحب نے کیا ہے۔ ہندوستان پر حملہ کرنے میں عرب بادشاہ کتنے حق بجانب تھے، اس سے قطع نظر، سترہ سالہ جرنیل، عسکری مہارت ہی نہیں رکھتا تھا، آدابِ سلطانی سے بھی واقف تھا۔ مضمون نگار تاریخی ماخذات کی مدد سے بتاتے ہیں کہ مقامی ہندو آبادی کو اہلِ کتاب پر قیاس کیا گیا۔ سندھ کے جو لوگ پہلے سے مناصب پر فائز تھے، انہیں برقرار رکھا گیا اور ان کے ساتھ معاملہ ان کی سماجی حیثیت کے مطابق کیا گیا۔ جو قدیم رسم و رواج کے مطابق لباس، زیور یا سواری استعمال کرتے تھے، ان کو ان سے منع نہیں کیا گیا۔
یہ سب اس لیے تھا کہ خطے میں سیاسی استحکام رہے۔ لوگوں میں اضطراب پیدا نہ ہو، بالخصوص ان میں جن کا اقتدار ختم ہو رہا تھا۔ جنہیں مفتوح بنایا گیا تھا، ان کی ناراضی فطری تھی۔ آدابِ سلطانی سے آشنا لوگ اُس وقت بھی جانتے تھے کہ سیاسی استحکام کو اولیت حاصل ہے۔ وہ مفتوحین کی دل جوئی کرتے تھے۔ یہ کام صبر اور حکمت کے بغیر ممکن نہیں۔
آج ہم جمہوری دور میں زندہ ہیں۔ یہ ایک ملک ہے۔ یہاںکوئی فاتح ہے نہ کوئی مفتوح۔ ایک ملک میں رہنے والے ایک عمرانی معاہدے کے پابند ہیں۔ یہ معاہدہ طے کرتا ہے کہ کسے حکمرانی کا حق حاصل ہو گا۔ اسی سے طے ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا کردار کیا ہو گا۔ وہ بھی بالواسطہ سیاسی نظم میں شریک ہوتی ہے۔ اس معاہدے کے ساتھ مہذب معاشرے اپنی روایات کی پس داری بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی اخلاقی قوت پر اتنا اعتبار ہوتا ہے کہ وہ صدیوں کسی تحریری معاہدے کے بغیر بھی ایک مستحکم سماج تشکیل دے سکتے ہیں۔ آج پاکستان میں جس آئین یا عمرانی معاہدے کے تحت ایک جماعت کو حقِ حکمرانی حاصل ہے، اسی آئین کے تحت اپوزیشن کا کردار بھی متعین ہے۔ اگر وزیر اعظم کو احترام حاصل ہے تو قائدِ حزبِ اختلاف کو بھی احترام حاصل ہے۔ وہ بھی عوام کے ایک بڑے حصے کا ترجمان ہے۔ وزرا اگر چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے منصب کا احترام ہو تو انہیں قائدِ حزبِ اختلاف کو احترام دینا ہو گا۔ تلخی اپوزیشن کی طرف سے ہو تو اسے گوارا کیا جاتا ہے‘ لیکن اگر وزیر قائدِ حزبِ ایوان کو چور چور کہنے لگیں تو پھر پارلیمنٹ کا احترام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس کو بچانے کی اوّلین ذمہ داری حکومت کی ہے۔
شہباز شریف صاحب کو اپوزیشن جماعتوں نے قائد حزبِ اختلاف بنا دیا۔ حکومتی جماعت نے با دلِ نخواستہ انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ اب اس دودھ میں ہر روز مینگنیاں ڈالی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم نے اس کارِ خیر کا آغاز کیا۔ دوسروں نے حسبِ توفیق حصہ ڈالا۔ آج دودھ کم اور مینگنیاں زیادہ ہیں۔ حکومت کیا نظام چلانے میں سنجیدہ ہے؟ کیا آدابِ سلطانی کا تقاضا یہی ہے؟
افسانہ طرازی اپنی جگہ مگر یہ امرِ واقعہ ہے کہ 2013ء میں نواز شریف نے ملک میں باہمی احترام پر مبنی کلچر کی بنیاد رکھی تھی۔ صوبوں میں دوسری جماعتوں کے حقِ اقتدار کو تسلیم کیا۔ پانچ برسوں میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں کہ کسی صوبائی حکومت کو ختم یا تنگ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہو، باوجود اس کے کہ ان کے خلاف ایک سول نافرمانی کی تحریک اٹھا دی گئی تھی۔ کتاب تو نواز شریف صاحب نے بھی شاید ہی پڑھی ہو لیکن کتابِ زیست نے انہیں اتنا ضرور سکھا دیا تھا کہ سیاسی استحکام ایک حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔
یہی نہیں، انہوں نے اس کے ساتھ معاشی استحکام کی بنیادیں بھی مضبوط کیں۔ 31 دسمبر کو سیاسیات و معاشیات کے ممتاز ماہر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے ایک انگریزی اخبار میں لکھا کہ دو سال پہلے پاکستان کی معیشت کو دنیا کی متحرک، توانا اور امکانات سے مملو معیشت شمار کیا جا رہا تھا۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی جی ڈی پی میں نمو کی شرح، گزشتہ تیرہ سال میں بلند ترین رہی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چار ماہ سے معیشت پستی کے راستے پر تیزی کے ساتھ گامزن ہے۔
اس بات سے تو سب واقف ہیں کہ ن لیگ کے دور میں توانائی کے بحران پر کس طرح قابو پایا گیا۔ یہ کسی کرامت سے کم نہیں تھا۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ وہ کوئی فرشتے نہیں تھے۔ اقتدار میں لوگوں کو کم شریک کرتے تھے اور انسانی کمزوریوں سے منزہ نہیں تھے۔ عام لوگوں کی طرح خیر و شر کا مجموعہ تھے۔ انہوں نے بس یہ راز جان لیا تھا کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے اور ایک متعین منزل بھی۔ آج کل قرضوں میں اضافے کی بہت بات ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ معیشت کا ناگزیر حصہ ہے۔ گزشتہ چار ماہ میں ہمارے قرضوں میں پندرہ سو ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ ان قرضوں کی ضرورت تھی؛ تاہم اس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں یہ قرض کہاں تک پہنچے گا۔
اگر حکومت آدابِ سلطانی سے واقف ہوتی تو اس کی تمام تر توجہ سیاسی استحکام پر ہوتی۔ سیاسی استحکام ہی اس معاشی استحکام کی ضمانت ہے‘ جو ہمیں اس قابل بناتا کہ ہم اپنا قرض کم کر سکتے۔ یہ حکومت تنقید سے اتنی خوف زدہ ہے کہ اِس کی اپنی صفوں سے اٹھ کر بھی اگر کوئی یہ جسارت کر بیٹھے تو اس سے اظہارِ لا تعلقی میں دیر نہیں لگاتی۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کا قصہ تو ابھی نیا ہے۔ جسٹس وجیہہ الحسن جیسے تو کب کا گردِ راہ بن چکے۔
یہ واہمہ (Myth) اب زیادہ چلنے والا نہیں کہ عمران خان خود تو بہت اچھے ہیں‘ مگر ان کے مشیر وزیر اچھے نہیں۔ وہ انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ 'دیوانہ بکارِ خویش ہوشیار است‘۔ جو آدمی یہ سمجھتا کہ اصغر خان کیس کو بند کر دینا چاہیے اور پاناما کو کھلا رہنا چاہیے، وہ جانتا ہے کہ کیا اس کے حق میں ہے اور کیا اس کے خلاف۔ سود و زیاں کی جمع تفریق میں وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ اقتدار کے لیے جتنی ضرورت ایم کیو ایم کی ہے، اس سے کہیں زیادہ ضروری سیاسی استحکام کی ہے۔ انسان مگر افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ نرگسیت کا ایک اظہار اذیت پسندی بھی ہے۔
سیاسی مخالفین کو نیست و نابود کرنے کی کوشش ایک فاتح بھی نہیں کرتا، کجا یہ کہ ایک جمہوری معاشرے میں اسے گوارا کیا جا سکے۔ جو لوگ آدابِ سلطانی سے واقف نہیں ہوتے، وہ وقت کے ساتھ اپنی ہی آگ کے خس و خاشاک بن جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں